ہندوتوا شدت پسندوں کا ہاتھرس کے ایک اسکول پر طلبا کو نماز پڑھنے پر مجبور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج، انتظامیہ نے پرنسپل کومعطل کیا

نئی دہلی، اپریل 20: اتر پردیش کے ہاتھرس شہر میں ایک اسکول کے پرنسپل اور دو اساتذہ کو بدھ کے روز اس وقت معطل کر دیا گیا جب ہندوتوا شدت پسندوں نے والدین کے ایک گروپ کے احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ طلبا کو کیمپس میں نماز پڑھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پرنسپل سونیا میک فیرسن اور اساتذہ عرفان الٰہی اور کنور رضوان کے خلاف تعزیری کارروائی کی گئی، اس کے باوجود کہ اسکول انتظامیہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

بی ایل ایس انٹرنیشنل اسکول کی نائب پرنسپل کارنیکا سریواستو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 18 اپریل کو عالمی ثقافتی دن اور عید منانے کے لیے اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا ’’تقریب میں ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ (علامہ اقبال کی نظم) پڑھی گئی تھی… میں واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ نماز نہیں پڑھائی گئی اور نہ ہی کسی پر پرفارم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔‘‘

تاہم اسکول انتظامیہ نے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور ابتدائی کارروائی کے طور پر پرنسپل اور دونوں اساتذہ کو معطل کر دیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی انکوائری کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

بدھ کے روز ہندوتوا شدت پسند دیپک شرما کی قیادت میں والدین کے ایک گروپ نے اسکول کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ بچوں کو برقع پہننے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ اسکول انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور مظاہرین نے اسکول کے گیٹ پر بیٹھ کر ہنومان چالیسہ بھی پڑھا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہندوتوا گروپوں نے اقبال کی نظم لب پہ آتی ہے دعا کی مخالفت کی ہو۔

دسمبر میں اتر پردیش کے بریلی ضلع میں ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی گئی تھی جب طلباء کی یہ نظم پڑھتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

وشو ہندو پریشد نے دعویٰ کیا تھا کہ طالب علموں کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے یہ نظم سنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

2019 میں اتر پردیش کے پیلی بھیت ضلع کے ایک سرکاری پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو بھی طلباء کی جانب سے یہ نظم پڑھنے کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی مقامی وشو ہندو پریشد کے کارکنوں کی شکایت پر کارروائی کی گئی تھی۔

’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ اقبال نے 1902 میں لکھی تھی۔ انھوں نے ہی مشہور حب الوطنی پر مبنی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ بھی لکھی ہے۔