تو اب اقلیتوں کی اسکالرشپس کو ختم کر دینے کی چل رہی ہے تیاری؟

مرکزی وزارت اقلیتی امور تخفیف شدہ بجٹ کا بھرپور استعمال کرنے میں ناکام

افروز عالم ساحل

اقلیتی طبقے کے طلبہ کے لیے حصول تعلیم کا ایک بڑا سہارا انہیں ملنے والی اسکالرشپ ہوتی ہے اور شاید حکومت کا بھی یہی مقصد رہا ہو کہ ملک کے دلت، آدیواسی اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ساتھ اقلیتی طبقے کے طلبہ کو بھی تعلیم کے لیے اسکالرشپ مہیا کرائی جائے تاکہ ان کی تعلیم میں آنے والی اقتصادی پریشانیاں دور ہو سکیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایسے طلبہ کی تعداد لاکھوں میں ہے جو حکومت کی اسی اسکالرشپ کے سہارے اپنی تعلیم مکمل کر پائے ہیں یا کر رہے ہیں۔ مگر ان دنوں ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ اور اب ’سب کا وشواس‘ کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے اس ’سہارے‘ پر ہی چوٹ لگانی شروع کر دی ہے۔

این ڈی اے حکومت میں نہ صرف یہ کہ اقلیتی طلبہ کو اسکالرشپ کی فراہمی میں دشواریاں پیدا کی جا رہی ہیں بلکہ بجٹ میں اسکالرشپ کی مد میں دی جانے والی رقم بھی کم کر دی گئی ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے ذریعہ ملنے والی اہم دستاویزات سے پتہ چلا کہ اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی اسکالرشپ جیسی اہم اسکیم کے ساتھ مرکزی حکومت کا رویہ بہتر نہیں رہا ہے۔ اس اسکیم کا زیادہ تر فنڈ استعمال نہیں ہو سکا ہے اور اس بار کے بجٹ میں بھی اس اسکیم کے بجٹ میں اضافہ کے بجائے کٹوتی کی گئی ہے دراں حالیکہ یو پی اے کے دور حکومت میں بھی اس اسکالرشپ کی یہی حالت تھی۔

واضح رہے کہ حکومت اقلیتی طلبہ کی تعلیمی بدحالی کو دور کرنے کے لیے تین اسکالرشپ اسکیمیں چلا رہی ہے۔ پہلی اسکیم پری میٹرک اسکالرشپ کہلاتی ہے جبکہ دوسری پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اور تیسری میرٹ کم مینس اسکالرشپ کہلاتی ہے۔ ان تینوں اسکیموں سے متعلق حکومت کے دعوے بہت ہیں۔ گزشتہ 4 فروری 2021 کو لوک سبھا میں ایک سوال پر وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے تحریری جواب میں بتایا کہ سال 2014-15 سے سال 2019-20 تک پورے ہندوستان میں اقلیتی طلبہ کے درمیان 3 کروڑ 85 لاکھ روپےاسکالرشپ تقسیم کی گئی ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کے لیے اسکالرشپ کے نام پر ملک میں گھوٹالے بھی خوب ہوئے ہیں۔

میرٹ کم مینس اسکالرشپ :

آرٹی آئی کی دستاویزات کے مطابق مالی سال 2019-20 میں اس ’میرٹ کم مینس اسکالرشپ‘ اسکیم کے لیے بجٹ 400 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا 400 کروڑ روپے جاری بھی ہوا لیکن مرکزی حکومت اس اسکیم پر صرف 105کروڑ 47لاکھ صرف روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔

سال 2019-20 میں اس اسکالرشپ کے لیے 366.43 کروڑ روپے بجٹ طے کرنے کے باوجود 361.51 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور محض 285.63 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

ایسی ہی کہانی سال 2018-19 میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 522 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 402 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور خرچ 261 کروڑ 17 لاکھ روپے ہی ہو سکے۔

حالانکہ جب بی جے پی حکومت میں آئی تب وہ اس اسکیم کے تعلق سے کچھ مہربان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014-15میں اس اسکیم کے مد میں 302 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 317 کروڑ روپے جاری کیے گئے اور 381 کروڑ 38 لاکھ روپے خرچ کیے گئے تھے۔

اس بار حکومت نے اس اسکیم پر خوب قینچی چلائی ہے۔ سال 2021-22 کے لیے اس ’میرٹ کم مینس اسکالرشپ‘ اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے گھٹا کر محض 325 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ اسکالرشپ خاص طور پر پروفیشنل اور ٹیکنیکل کورسیز کرنے والے طلبہ کے لیے ہے۔ ساتھ ہی انڈر گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ سطح پر مسابقتی امتحان کے ذریعے داخلہ پانے والے اس اسکالرشپ کے اہل ہوں گے۔ اس کے تحت ان 85 اداروں کے طلبا کو جن کے ادارے کا نام وزارت اقلیتی امور کی فہرست میں شامل ہے انہیں پوری فیس کی رقم دی جاتی ہے، اس سے الگ اداروں کے طلبہ کو سالانہ 20ہزار روپے یا حقیقی ادا کی گئی رقم ملتی ہے۔ اس میں 30 فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کے لیے مختص ہے۔ یہ اسکالرشپ انہی طلبہ کو ملے گی جن کے والدین یا سرپرستوں کی سالانہ آمدنی 2.5 لاکھ روپے سے کم ہے۔

پوسٹ میٹرک اسکالرشپ :

ہفت روزہ دعوت کو آرٹی آئی سے ملے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2020-21 میں اس ’پوسٹ میٹرک اسکالرشپ‘ اسکیم کے لیے بجٹ 535 کروڑ روپے مختص کیا گیا تھا 535 کروڑ روپے جاری بھی ہوئے لیکن 31 دسمبر 2020 تک مرکزی حکومت اس اسکیم پر صرف 127 کروڑ دو لاکھ روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔

2019-20 میں اس اسکالرشپ کے لیے کے لیے 496 کروڑ ایک لاکھ روپے بجٹ طے کرنے کے باوجود 482 کروڑ 66 لاکھ روپے ہی منظور کیے گئے اور 428 کروڑ 77 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

ایسی ہی کہانی سال 2018-19میںبھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 692 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن جاری 500کروڑ روپے ہوئے اور جب خرچ کی باری آئی تو محض 354 کروڑ 89 لاکھ روپے ہی خرچ ہو سکے۔

حالانکہ جب بی جے پی حکومت میں آئی تب وہ اس اسکیم پر تھوڑی مہربان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014-15 میں اس اسکیم میں 538 کروڑ 50 لاکھ کا بجٹ رکھا گیا تھا، 538 کروڑ 50 لاکھ روپے ریلیز بھی کیے گئے لیکن 38 ہزار 501کروڑ 32 لاکھ روپے ہی ہوئے۔ سال 2015-16 میں 550 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا پوری رقم ریلیز بھی کئی گئی اور 552.83کروڑ روپے خرچ کی گئی تھی۔

اس بار حکومت نے اس اسکیم پر خوب قینچی چلائی ہے۔ سال 2021-22 کے لیے اس ’پوسٹ میٹرک اسکالرشپ‘ اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں گھٹا کر محض 468 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ اسکالرشپ گیارہویں جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی سطح تک کے طلبہ کے لیے ہے۔ دسویں کے بعد آئی آئی ٹی، پالی ٹکنک وغیرہ کے طلبہ بھی اہل ہوں گے۔ اس کے تحت گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں زیر تعلیم طلبہ کے لیے ایڈمیشن اور ٹیوشن فیس کے طور پر سالانہ 7000 روپے اور اگر ٹکینکل اور ووکیشنل کورسیز ہوں تو سالانہ 10,000 روپے منظور کیے جائیں گے۔ انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے طلبا کے لیے ایڈمیشن اور ٹیوشن فیس کے طور پر 3000 روپے سالانہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح مینٹننس کے طور پر ڈے اسکالرس کے لیے ماہانہ 230 روپے اور ہاسٹل کے طلبا کے لیے 380 روپے کی رقم ماہانہ ملتی ہے۔ اس اسکیم میں بھی 30 فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کے مختص ہے۔ یہ اسکالرشپ انہی طلبہ کو ملے گی جن کے والدین یا سرپرستوں کی سالانہ آمدنی تمام 2 لاکھ روپے سے کم ہو۔

پری میٹرک اسکالرشپ :

ہفت روزہ دعوت کو آرٹی آئی سے موصولہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 2020-21 میں اس ’پری میٹرک اسکالرشپ‘ اسکیم کے لیے بجٹ 1330 کروڑ روپے مختص کیا گیا، 1330 کروڑ روپے جاری بھی ہوئے لیکن جب خرچ کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے 31 دسمبر 2020 تک مرکزی حکومت اس اسکیم پر صرف 204 کروڑ27 لاکھ روپے ہی خرچ کر سکی ہے۔

سال 2019-20 میں اس اسکالرشپ کے لیے 1220 کروڑ30 لاکھ روپے بجٹ طے کرنے کے باوجود 1199 کروڑ 82 لاکھ روپے ہی منظور کیے گئے لیکن خرچ 1324 کروڑ 84 لاکھ روپے کیے گئے۔

2018-19 میں اس اسکیم کے لیے 980 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 1269 کروڑ روپے جاری کیے گئے اور جب خرچ کی باری آئی تو 1176 کروڑ 19 لاکھ روپے ہی خرچ ہو سکے۔

حالانکہ جب بی جے پی حکومت میں آئی تب وہ اس اسکیم کے تعلق سے تھوڑی مہربان نظر آئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014-15 میں اس اسکیم کے مد میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ کر 990 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا، ریلیز 1017 کروڑ روپے کیا گیا لیکن اس بار خرچ 1128کروڑ 84لاکھ روپے ہوا۔ سال 2015-16 میں اس اسکیم کے مد میں 990 کروڑ روپوں کا بجٹ رکھا گیا تھا، پوری رقم ریلیز بھی کئی گئی، اور 1015کروڑ 72لاکھ روپے خرچ کی گئی تھی۔

اس بار یعنی سال 2021-22 کے لیے اس ’پری میٹرک اسکالرشپ‘ اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے تھوڑا بڑھا کر 1378 کروڑ روپے کیا گیا۔

یہ اسکالرشپ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے ہے۔ یہ اسکالرشپ تعلیمی سال کے 10 مہینوں تک داخلہ/ٹیوشن فیس اور مینٹننس الاؤنس کے طور پر ہوتی ہے۔ اس کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت کے طلباء کو سالانہ ایک ہزار روپے اور چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلباء کو پانچ ہزار سات سو روپے دیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر چھٹی سے دسویں جماعت کے طلباء ہاسٹل میں قیام کرتے ہیں تو انہیں سالانہ 10,700 روپے ملتے ہیں۔ اس اسکیم میں بھی 30 فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کے مختص ہے۔

یہاں سوچنے والی یہ ہے کہ یہ اسکالرشپ انہی طلبہ کو ملے گی جن کے والدین یا سرپرستوں کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سےکم ہو۔ اس کے لیے انکم سرٹیفکیٹ پیش کرنا بھی لازمی ہے۔ اس تعلق سے 8 مارچ 2021 کو راجیہ سبھا رکن عبدالوہاب راجیہ سبھا میں سوال بھی کر چکے ہیں جس کے تحریری جواب میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے قبول کیا کہ یہ اسکالرشپ اسکیم سال 2008-09 میں شروع ہوئی تھی اور ای ایف سی سے غریبی کی موجودہ صورتحال کے مطابق یہ رقم طے کی گئی تھی۔ان تینوں اسکالرشپ اسکیموں کے لیے تمام اہلیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کو پچھلی کلاس میں کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل ہوئے ہوں۔ پہلی جماعت کے لیے یہ شرط نافذ نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس بار کوویڈ کو دیکھتے ہوئے 50 فیصد نمبر حاصل کرنے کی شرط میں چھوٹ دی گئی ہے لیکن یہ چھوٹ صرف اسکالرشپ کی تجدید کے معاملے میں حاصل رہے گی نئے سرے سے درخواست دینے والوں پر یہ شرط قابل اطلاق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فاصلاتی تعلیم کے تحت کرسپانڈنس کورس اور سرٹیفکیٹ کورس کرنے والوں کو یہ تینوں اسکالرشپس نہیں دی جائیں گی۔ طالب علم ایک وقت میں سرکار کی جانب سے فراہم کی جانے والی کوئی ایک اسکالرشپ ہی حاصل کر سکتا ہے۔ اسکالرشپ کی رقم سیدھے طالب علم کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کی جائے گی۔

اقلیتوں کی اسکالرشپس پر خوب ہوئے گھوٹالے

اب تک کی کہانی میں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ مرکزی حکومت کم سہی لیکن خرچ تو کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 7 سالوں میں نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت ’میرٹ کم مینس اسکالرشپ‘ اسکیم پر1957 کروڑ 98 لاکھ روپے خرچ کر چکی ہے وہیں پوسٹ میٹرک اسکالرشپ پر2731 کروڑ 66 لاکھ روپے اور پری میٹرک اسکالرشپ پر6543 کروڑ93 لاکھ روپے گزشتہ 7 سالوں میں خرچ کیے جا چکے ہیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان رقومات کا بڑا حصہ گھوٹالے کا شکار ہو چکا ہے۔

گھوٹالوں کا عالم یہ ہے کہ لوک سبھا میں وزارت اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے قبول کیا ہے کہ ہاں! گھوٹالے کی خبر آئی ہے، سی بی آئی اور متعلقہ ریاستوں سے گزارش ہے کہ وہ ایسے الزاموں کی جانچ کریں۔ اس تعلق سے کانگریس رکن راجیہ سبھا میں گزشتہ 15 مارچ 2021 کو سوال بھی پوچھ چکے ہیں۔

اقلیتی طلبہ کی اسکالرشپ کے گھوٹالے کے معاملے میں پہلا نام ریاست جھارکھنڈ کا ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر اقلیتی طلبہ کی اسکالرشپ کے نام پر مچی لوٹ کا پردہ فاش ہوا ہے۔ اس پردہ فاش کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے جانچ کا حکم جاری کر دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی جانچ کے مطابق جھارکھنڈ میں بینک ملازمین، دلال، اسکول اور سرکاری ملازمین نے ایک گینگ بنا لی ہے جو مرکزی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی اقلیتی اسکالر شپ کی رقم کو ہتھیا رہی ہیں۔ اس گھوٹالے میں دلال بینک اسٹاف کے ساتھ مل کر طلبہ کے بینک کھاتے کھلواتے ہیں اور ان کی فنگر پرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے آدھار کی بنیاد پر ٹرانزیکشن کیا جاتا ہے مگر طلبہ کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے بینک کھاتے میں کتنی رقم آئی ہے۔ انہیں بس انتہائی معمولی رقم نقد دے دی جاتی ہے۔

یہی نہیں، یہاں نہ صرف یہ کہ طلبہ کو اندھیرے میں رکھ کر ان کی اسکالرشپ کی رقم لوٹی جا رہی ہے بلکہ فرضی طلبہ اور بڑوں کے نام پر اسکالرشپ کی درخواست کر کے مرکزی حکومت سے رقم بھی اینٹھی جا رہی ہے۔

رانچی کے ایک سماجی کارکن نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ جھارکھنڈ میں یہ کھیل بی جے پی کی رگھوبر حکومت میں ہی شروع ہو گیا تھاجس کا پردہ اب فاش ہوا ہے۔ یہاں ایسے بہت سے دلال ہیں جو بینک عملہ کے ساتھ مل کر کھاتہ کھلواتے تھے اور رقم میں سے معمولی حصہ طلبہ کو دیتے تھے۔ اور صرف جھارکھنڈ ہی کیوں ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس کھیل میں مرکزی وزارت اقلیتی امور کے افسران بھی ضرور شامل ہوں گے۔ کیونکہ پورے ملک میں یہ دلال پوری گارنٹی کے ساتھ اسکالرشپ دلا دیتے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت نے دہلی این سی آر کے علاقے میں زیر تعلیم کئی طالب علموں سے بات کی ہے۔ زیادہ تر طلبہ نے بتایا کہ انہیں کسی ایجنٹ نے اسکالرشپ دلائی ہے۔ دہلی کے ایک انجنیئرنگ کالج میں پڑھائی کر چکے ایک طالب علم نے بتایا کہ انہوں نے دو سال لگاتار اسکالرشپ کے لیے فارم بھرا لیکن اسکالرشپ نہیں ملی۔ تبھی تیسرے سال ان کی ملاقات ایک ایجنٹ سے ہوئی، اس نے خود ہی آفر دیا کہ اگر میں ملنے والے پیسے کا آدھا حصہ دے دوں تو وہ مجھے اسکالرشپ دلا سکتا ہے۔ میرے لیے یہ فائدے کا سودا تھا سو میں تیار ہوگیا اور اس ایجنٹ نے واقعی مجھے اسکالرشپ دلا دی۔

وہیں فرید آباد کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ایک طالب علم نے بتایا کہ ان کا داخلہ ایک ایجنٹ نے کرایا تھا۔ اسی ایجنٹ نے صرف پہلے سال کے لیے اپنا 50 فیصد کمیشن لے کر مجھے میرٹ کم مینس اسکالرشپ دلا دیا۔

یہ کہانی صرف جھارکھنڈ یا دہلی این آر کی ہی نہیں ہے بلکہ اس طرح کے گھوٹالوں کی اطلاعات آسام، راجستھان، پنجاب، اروناچل پردیش اور بہار سے بھی آچکی ہیں۔ آسام میں اس اسکالرشپ معاملے میں 21 لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ وہاں کے مقامی اخباروں میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق سال 2019-20 میں 10کروڑ روپے کے گھوٹالے کا پتہ چلا ہے۔

آسام حکومت اس سے قبل 2018-19میں بھی اقلیتی طلبہ کے نام پر ہونے والے اسکالرشپ گھوٹالے کو قبول کر چکی ہے۔ اس گھوٹالے میں آسام کے ضلع شیو ساگر میں واقع ایک سنٹرل اسکول کو بہار کا اسکول بتا دیا گیا ہے۔

یہی نہیں بلکہ یہ اسکول بہار کے چھ مختلف اضلاع کی فہرست میں شامل ہے اور اس اسکول کے نام پر بہار میں کئی فرضی طلبہ اسکالرشپ کی رقم سے مستفید ہو چکے ہیں۔ بتادیں کہ آسام حکومت نے گزشتہ سال فروری میں قانون ساز اسمبلی میں اعتراف کیا تھا کہ اقلیتی طلبا کو پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم میں ایک گھوٹالہ ہوا ہے اور سی آئی ڈی کو اس معاملے کی تحقیقات سونپی گئی ہیں۔

راجستھان کی کہانی تو مزیدسوچنے پر مجبور کر دینے والی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن اسکولوں میں ایک بھی اقلیتی طالب علم نہیں ہے وہاں بھی سینکڑوں طلبہ کے نام پر اسکالرشپ اٹھائی گئی ہے۔ یہاں جانچ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس اسکالرشپ گھوٹالے میں باہر کی 28 تنظیمیں کام کر رہی تھیں۔ یہاں تمل ناڈو، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، جموں و کشمیر، میزورم، اڑیسہ اور آسام کے فرضی طلبہ کے نام پر فرضی طریقے سے رجسٹریشن کرایا گیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ یو پی سے بھی اسکالرشپ میں گھوٹالے کی خبر آچکی ہے۔ میرٹھ کے بھاون پور تھانہ علاقے میں جائی گاؤں کے ایک مدرسہ میں اسکالرشپ تقسیم میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی اسکالرشپ ہضم کر لینے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بانی جاوید احمد بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت جان بوجھ کر اقلیتی طلبہ کو اسکالرشپ کا فائدہ پہنچانا نہیں چاہتی۔ زیادہ تر طلبہ کو اسکالرشپ کا پورا پیسہ بھی نہیں مل پا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مَیں خود کئی طلبہ سے بات کر چکا ہوں۔

کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سال 2014-15میں جب مرکز میں مودی حکومت آئی تو اسکالرشپ کی ان تینوں اسکیموں پر خوب مہربان نظر آئی تو سوال یہ ہے کہ حکومت اقلیتی طلبہ پر اتنا مہربان کیوں تھی؟

جب ہم اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت اقلیتی طالب علموں کو دیے جانے والے اسکالرشپ کو لے کر کبھی بھی صاف نہیں رہی۔ اس حکومت کے ابتدائی دور میں بھی ایسی سینکڑوں خبریں میڈیا میں آئیں جن سے حکومت کی منشا کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

گھپلے گھوٹالوں کا کھیل سال 2014 میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے کے پاس سال 2014 کے گھپلے گھوٹالوں کی کئی خبریں ہیں۔ اس سے آگے بھی یہ گھوٹالے جاری رہے لیکن میڈیا نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکیم میں شفافیت برقرار رکھنے کے لیے سارا کھیل آن لائن کھیلا گیا۔ طلباء کو آن لائن درخواست دینی ہوتی ہے اور یہ رقم براہ راست ان کے بینک اکاؤنٹس میں بھی آن لائن ہی ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود جس طرح کے گھپلے گھوٹالے سامنے آئے وہ اپنے آپ میں کئی گہرے سوال کھڑے کرنے والے ہیں۔ اور سب سے اہم سوال ہے کہ کیا یہ آن لائن پروسیس بھی شفاف نہیں ہے یا پھر حکومت کی نیت میں ہی کھوٹ ہے؟ اگر سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں ان تینوں اسکیموں کا کیا حشر ہو گا؟

بہرحال مستقبل میں ان اسکالرشپ اسکیموں کا جو حشر ہونے والا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی تو ان کے تمام لیڈر اس اسکیم کو خوشامدانہ حرکت قرار دیتے ہوئے اسے ہندوستانی آئین اور سیکولرازم کے خلاف قرار دیتے تھے خود وزیر اعظم مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے اس اسکیم کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ بعد میں عدالت کی مداخلت پر انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں عدالت کے حکم کو مانتے ہوئے مجبوراً اپنی ریاست میں اسے جاری کیا تھا۔ معلوم ہو کہ سال 2020-21 میں درخواست دینے والے طلبہ کو اسکالرشپ ابھی تک نہیں مل پائی ہے۔

پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی اٹھائے سوالات

وزارت اقلیتی امور کے ان تینوں اسکالرشپس پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی اپنی ایک رپورٹ میں کئی سوال اٹھا چکی ہے۔ اس کمیٹی نے خاص طور پر کہا ہے کہ چھ ریاستوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ان اسکالرشپ اسکیموں سے جعلی طلباء کو جانے والے فنڈس اور مبینہ طور پر اس اسکیم کے غلط استعمال کے بارے میں رپورٹ ہونے والے معاملات جن کی تفتیش جاری ہے، ’’کافی پریشان کن‘‘ ہیں۔

اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک ریاست میں یہ دھوکہ دہی بعض ذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ پاس ورڈ کے لیک ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

کمیٹی نے وزارت اقلیت امور کو واضح طور پر کہا ہے کہ وہ سسٹم میں موجود تمام شناختی خامیوں کو دور کرے، ڈیٹا اور پاس ورڈ کی رازداری کو مستحکم بنائے اور دستی مداخلتوں کو کم کرے۔ مرکزی اقلیتی امور کی وزارت اپنی تمام کمیوں کو ختم کرے اقلیتوں کے طلباء کے لیے اسکالرشپ اسکیموں کے تحت مبینہ طور پر فنڈز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔

کمیٹی نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ اسکولوں، بینکوں، غیر سرکاری تنظیموں اور رضاکارانہ تنظیموں وغیرہ میں غیر منظم عناصر کی جعلی سرگرمیوں کو جو اپنے ذاتی فوائد کے لیے عمل کو خراب کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں روکا جانا چاہیے۔ نیز بینکوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ طلبہ کے اکاؤنٹ عدم سرگرمی کی وجہ سے بند نہ ہوں، کیونکہ اقلیتی طبقے کے بچے باقاعدگی سے ٹرانزایکشن نہیں کر سکتے ہیں۔ کمیٹی نے بعض جائزوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کچھ طلبہ کے اکاؤنٹ غیر فعال یا بند ہونے کی وجہ سے اسکالرشپ کی رقم بھی واپس چلی جاتی ہے۔

پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ 12 فروری 2021 کو ہی لوک سبھا میں پیش کردی تھی۔ اس کمیٹی میں کل 30 رکن پارلیمنٹ شامل تھے جن میں 21 کا تعلق لوک سبھا سے اور 9 کا تعلق راجیہ سبھا سے ہے۔

اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اقلیتوں کے لیے ملک میں چلائی جانے والی تمام اسکیموں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے اور وزارت اقلیتی امور کے کام کرنے کے طریقے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ یہ کمیٹی اس حقیقت سے بھی پریشان ہے کہ مارچ 2019 تک جاری کی گئی 3 ہزار610 کروڑ82 لاکھ روپے کی حیرت انگیز رقم کے استعمال کے سرٹیفکیٹ ابھی تک زیر التوا ہیں اور کچھ ریاستوں نے 275 کروڑ 77 لاکھ روپے کے حصص والے منصوبوں کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

کمیٹی نے 2021-22 کے لیے گرانٹ کے مطالبات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ وزارت اپنی مختص بجٹ کو پوری طرح خرچ نہیں کر سکی۔

کمیٹی نے اپنی اس رپورٹ میں اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ سال 2019-20 میں دسمبر 2019 کے آخر تک مختص فنڈز میں سے صرف 18 فیصد فنڈز استعمال ہوئے تھے، بقیہ 82 فیصد فنڈز اس مالی سال کے آخری تین ماہ میں خرچ کیے گئے۔ وہیں 2019-20 میں پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت موصولہ 88 لاکھ 68 ہزار 738 درخواستوں میں سے 4 لاکھ 12 ہزار50 کو مسترد کر دیا گیا،30 لاکھ 29 ہزار 498 کو اسکالرشپ کی منظوری دی گئی اور 30 لاکھ 29 ہزار 498 طلباء کو چھوڑ دیا گیا۔ دیگر دو اسکالرشپ اسکیموں کی بھی یہی کہانی ہے۔

وزیر اقلیت مختار عباس نقوی کو دینا چاہیے استعفیٰ

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وزیر اقلیتی امور سے استعفی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اقلیتی امور کی مایوس کن کارکردگی اور پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی گرفت و سرزنش کی روشنی میں وزیر اقلیتی امور جناب مختار عباس نقوی کو اس نا کارکردگی کےلیے نہ صرف ملک سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ فوری طور سے وزارت سے مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ ایسا مایوس کن عمل ہے جس سے نہ صرف اقلیتوں کی پسماندگی دور کرنے کا عمل رکے گا بلکہ ملک بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہوتا چلا جائے گا۔

لیکن اقلیتوں سے جڑی اسکیموں کے بارے میں ایسی حالت یو پی اے کی منموہن سنگھ حکومت میں بھی تھی؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ بجٹ میں اقلیتوں کے لیے مختص کی گئی رقم کے عدم استعمال کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی ہی رہتی ہیں، لیکن این ڈی اے حکومت کے دور اقتدار میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وزارت کے کاموں پر نظر رکھنے والی کسی بھی پارلیمانی کمیٹی نے وزارت اقلیتی امور کی سخت سرزنش کی ہے اور آئندہ اس قسم کی کوتاہی سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اقلیتوں سے متعلق زیادہ تر اسکیمیں اسی یو پی اے کی منموہن سنگھ حکومت میں شروع ہوئی ہیں۔

ہفت روزہ دعوت نے اپنی تحقیق میں پایا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت کا دھیان تعلیمی اسکیموں پر کم اور ہنر سے متعلق اسکیموں پر زیادہ رہا ہے۔ اس پر نوید حامد کہتے ہیں اس حکومت کی منشا ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ اقلیتوں کے بچے پڑھیں نہیں، بلکہ صرف پنکچر جوڑتے رہیں۔ انہیں ان میں اپنے لیے صرف سستا مزدور نظر آتا ہے۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021