دہلی ایمس میں ایس سی/ایس ٹی ڈاکٹروں اور طلبا کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پارلیمانی پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا
نئی دہلی، جولائی 27: انڈین ایکسپریس نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے ڈاکٹروں اور طلبا کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے پینل نے کئی سفارشات پیش کیں، جن میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی برادریوں کے ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنا اور طلبا کے نام دیکھے بغیر ان کا جائزہ لینا شامل ہے۔
درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی بہبود سے متعلق پارلیمانی پینل نے ایمس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کمیونٹیز کی سماجی و اقتصادی ترقی میں خود مختار اداروں اور تعلیمی اداروں کے کردار کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے یہ بیانات دیے۔
انسٹی ٹیوٹ میں 1,111 اسامیوں میں سے 275 اسسٹنٹ پروفیسرز اور 92 پروفیسرز کے لیے اسامیاں خالی ہیں۔ اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے کہا کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل زمروں کے ڈاکٹروں کو اہل، قابل اور تجربہ کار ہونے کے باوجود عہدوں پر تعینات نہیں کیا جا رہا ہے۔
کمیٹی نے آئندہ تین ماہ تک خالی آسامیوں کو پر کرنے کی سفارش کی ہے۔ پینل نے مزید کہا کہ ’’ایس سی/ایس ٹی کے لیے مخصوص فیکلٹی سیٹ کو کسی بھی صورت میں چھ ماہ سے زیادہ خالی نہیں رکھا جائے۔‘‘
کمیٹی نے مرکزی وزارت صحت کو بتایا کہ وہ ’’حکومت کے اکثر دقیانوسی قسم کے جواب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘‘ کہ کوئی موزوں امیدوار نہیں ملا۔ اس میں کہا گیا کہ ریزروڈ کمیونٹیز کے ممبران، جو اس عہدہ کے مستحق تھے، متعصبانہ تشخیص کی وجہ سے غیر موزوں قرار دیے گئے۔
اس میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل برادریوں کے ماہرین پر مشتمل سلیکشن کمیٹی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے کہ ’’حقیقت میں ان غیر منصفانہ تشخیص کو حل کرنے کے لیے تمام طلبا کو صرف فرضی کوڈ نمبر کا استعمال کرتے ہوئے امتحان میں شرکت کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘
پینل نے یہ بھی الزام لگایا کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے طلبا کو متعصبانہ انداز میں درجہ دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے کہا ’’یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان طلبا نے ہمیشہ تھیوری امتحانات میں بہت اچھا کام کیا، لیکن انھیں پریکٹیکل امتحانات میں ناکام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر SC/ST طلبا کے تئیں تعصب کو واضح کرتا ہے۔ اس کے ساتھ پختہ فیصلے کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے اور یہ کہ اس متعصبانہ عمل کو ختم کرنے کے لیے ایک مناسب امتحانی نگرانی کا نظام تیار کیا جائے۔‘‘
کمیٹی نے مزید کہا کہ ڈین آف ایگزامینیشن کو تعصب کے ایسے معاملات کی جانچ کرنی چاہیے اور صحت کی خدمات کے ڈائریکٹر جنرل کو رپورٹ پیش کرنی چاہیے۔
کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ملک بھر کے تمام ایمسز میں ایم بی بی ایس، دیگر انڈرگریجویٹ کورسز اور پوسٹ گریجویٹ کورسز میں ان کمیونٹیز کے داخلے کا فیصد درج فہرست ذاتوں کے لیے 15% اور درج فہرست قبائل کے لیے 7.5% کی مطلوبہ سطح سے کم تھا۔
کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ایمس جنرل باڈی میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے کوئی امیدوار نہیں تھا۔ پینل نے مزید کہا کہ ’’یہ SCs/STs کو فیصلہ سازی کے عمل اور پالیسی معاملات کا حصہ بننے اور خدمت کے معاملات میں SCs اور STs کے مفادات کا تحفظ کرنے سے ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیتا ہے۔‘‘
کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ وزارت صحت اور ایمس کو فیکلٹی ممبران، ملازمین اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے طلبا کی شکایات کو دور کرنا چاہیے۔