سپریم کورٹ کو ’’قانون کے غلط استعمال‘‘ کو ختم کرنا چاہیے: پی چدمبرم نے جامعہ کیس میں عدالت کے ذریعے طلبا کارکنوں کو بری کیے جانے کے بعد کہا

نئی دہلی، فروری 5: کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے اتوار کو سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ ’’قانون کے غلط استعمال‘‘ کو ختم کرے۔ انھوں نے یہ بیان دہلی کی ایک عدالت کے ذریعے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد سے متعلق ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور آٹھ دیگر کو بری کیے جانے کے فیصلے کے پس منظر میں کیا۔

15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ دہلی پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے اور مظاہروں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام تھا۔ تاہم پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارروائی جائز تھی کیوں کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر اس کے اہلکاروں کو زخمی کیا تھا اور بسوں کو آگ لگا دی تھی۔

ہفتہ کو ایڈیشنل سیشن جج (ساکیت کورٹ) ارول ورما نے اپنے حکم میں کہا کہ دہلی پولیس نے کارکنوں کو بلی کا بکرا بنایا اور اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی۔

امام، زرگر اور تنہا کے علاوہ ساکیت عدالت نے محمد ابوذر، عمیر احمد، محمد شعیب، محمود انور، محمد قاسم، محمد بلال ندیم، شہزار رضا خان اور چندا یادو کو اس کیس میں بری کر دیا۔

جج نے مزید کہا کہ اس بات کا کوئی ابتدائی ثبوت نہیں ہے کہ ملزمان ہجومی تشدد کا حصہ تھے، یا ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا یا وہ پتھر پھینک رہے تھے۔

ٹویٹس کی ایک سیریز میں چدمبرم نے اتوار کو نوٹ کیا کہ اس معاملے کے کچھ ملزمان تقریباً تین سال سے جیل میں بند ہیں، جب کہ دیگر کو کئی مہینوں کے بعد ضمانت ملی ہے۔ انھوں نے کہا ’’یہ مقدمے سے پہلے کی قید ہے۔‘‘

سابق کابینہ وزیر نے سوال کیا کہ کیا 11 افراد کو مقدمے سے پہلے جیل میں رکھنے پر پراسیکیوشن اور پولیس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی۔

انھوں نے پوچھا ’’ملزمین نے جو مہینے یا سال جیل میں گزارے وہ کون واپس کرے گا؟ہمارا فوجداری انصاف کا نظام جو مقدمے سے پہلے کی قید کو برداشت کرتا ہے، ہندوستان کے آئین خاص طور پر دفعہ 19 اور 21 کی توہین ہے۔‘‘

کانگریس لیڈر نے دہلی کی عدالت کے حکم کا خیرمقدم کیا۔

ہفتہ کو ورما نے اپنے حکم میں ہندوستان کے آئین کی دفعہ 19 کا بھی حوالہ دیا تھا اور کہا تھا ’’یہ اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے انمول بنیادی حق کی توسیع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے یہ ایک حق ہے جس کو برقرار رکھنے کی ہم نے قسم کھائی ہے۔‘‘