سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی نظرثانی کی اس درخواست کو خارج کر دیا جس میں قصورواروں کی معافی پر گجرات حکومت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا تھا
نئی دہلی، دسمبر 17: سپریم کورٹ نے ہفتہ کے روز بلقیس بانو کی طرف سے مئی 2022 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ گجرات کے پاس 2002 کے گجرات فسادات کے دوران اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور اس کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے کے مجرم 11 افراد کی قبل از وقت رہائی کا فیصلہ کرنے کا مناسب دائرۂ اختیار ہے۔
یہ حکم جسٹس اجے رستوگی اور وکرم ناتھ کی بنچ نے دیا تھا۔
احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 3 مارچ 2002 کو گیارہ افراد نے بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی جب وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ تشدد میں ان کے خاندان کے چودہ افراد بھی مارے گئے تھے، جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی جس کا سر مجرموں نے زمین پر پٹخ دیا تھا۔
ان افراد کو 15 اگست کو گودھرا جیل سے رہا کیا گیا، جب گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کی۔ اسی دن رہائی کے بعد ان کے لواحقین نے مجرموں کا استقبال مٹھائی سے کیا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک رکن نے بھی انھیں مبارکباد دی تھی، جس سے غم و غصہ پھیل گیا تھا۔
نومبر میں بانو نے سپریم کورٹ کے مئی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس میں گجرات حکومت کو مجرموں کی عمر قید کی سزاؤں میں معافی کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
بانو نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ خیال کہ گجرات کے پاس مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے ’’مناسب اختیار‘‘ ہے، ضابطہ فوجداری کے ضابطوں کے خلاف ہے۔
بانو اس ضابطے کی دفعہ 432(7)(b) کا حوالہ دے رہی تھیں جو سزا کو معطل کرنے یا معاف کرنے کے اختیار سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جس ریاست کے اندر مجرم کو سزا سنائی گئی ہے اسی ریاست کی حکومت کو معافی پر بھی غور کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ مجرموں کو مہاراشٹر کی ایک عدالت نے سزا سنائی تھی۔
بانو نے دلیل دی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹر حکومت کو ان کی معافی کی درخواست پر سماعت کرنی چاہیے تھی۔
حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ مئی 2022 کے فیصلے میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی، جو اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جائے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست میں پیش کردہ نظیریں عدالت کے لیے معاون نہیں تھیں۔‘‘
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’ہماری رائے میں، نظرثانی کے لیے کوئی بنیاد نہیں بنائی گئی۔ لہٰذا نظرثانی کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔‘‘
بانو کی وکیل ایڈووکیٹ شوبھا گپتا نے ایک ویڈیو پیغام میں واضح کیا کہ اس کیس کے 11 مجرموں کی رہائی نظرثانی کی درخواست کا موضوع نہیں ہے۔
گپتا نے کہا ’’یہی رٹ پٹیشن کا موضوع ہے، جو ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔‘‘
نومبر میں بانو نے کہا تھا کہ شاہ نے اپنی معافی کی درخواست میں عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے جرم کی نوعیت کا انکشاف نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ شاہ کی عرضی پر مجرموں کو رہا کرنے پر غور کرے۔