سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور انتخابی پینل سے جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کو چیلنج کرنے والی عرضی پر جواب طلب کیا
نئی دہلی، مئی 14: سپریم کورٹ نے جمعہ کو مرکز اور الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا کہ وہ جموں اور کشمیر اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے بنائے گئے حد بندی کمیشن کو چیلنج کرنے والی عرضی کا جواب دیں۔
مارچ میں دو کشمیریوں حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ حد بندی کمیشن کی تشکیل غیر آئینی ہے اور یہ ضروری طاقت اور اختیار کے بغیر بنایا گیا ہے۔
مرکزی حکومت نے 17 فروری 2020 کو جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا عمل شروع کیا تھا۔ 5 مئی کو حتمی حد بندی کے حکم میں اسمبلی نشستوں کی تعداد 83 سے بڑھا کر 90 کر دی گئی۔ سات نئی نشستوں میں سے ایک کشمیر کو دی گئی، جہاں کل تعداد 46 ہوگئی اور چھ جموں کو دی گئیں جہاں اب 43 نشستیں ہیں۔
خان اور مٹو کی طرف سے دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جولائی 2004 میں حد بندی کمیشن کے جاری کردہ ایک خط کے مطابق تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی موجودہ اسمبلی سیٹوں کی تعداد 2026 کے بعد پہلی مردم شماری ہونے تک تبدیل نہیں کی جائے گی۔
جمعہ کو جسٹس سنجے کشن کول اور ایم ایم سندریش کی بنچ نے درخواست گزاروں سے پوچھا کہ انھوں نے 2020 میں ہی حد بندی کمیشن کو چیلنج کیوں نہیں کیا۔
عرضی میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے سیکشن 63 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، جو موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تنظیم نو سے متعلق ہے۔
بنچ نے کہا کہ وہ اس عرضی میں کی گئی اس خاص بحث کی جانچ نہیں کرے گی، جس میں آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
’’کیا آپ دفعہ 370 [کی منسوخی] کو چیلنج کر رہے ہیں؟‘‘ جسٹس کول نے پوچھا۔ ’’تم کیا چیلنج کر رہے ہو؟ میں زیر سماعت معاملات کی خوبیوں اور خامیوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔‘‘
5 اگست 2019 کو مرکز نے آئین کے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا۔ دفعہ 370 کو چیلنج کرنے والی درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے، جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، حد بندی کی مشق کا دفاع کیا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا ’’حد بندی کی دو قسمیں ہیں۔ "ایک جغرافیائی ہے جو حد بندی کمیشن کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ دوسرا تصور جو الیکشن کمیشن کا ہے وہ سیٹوں کے ریزرویشن کا ہے۔‘‘
مہتا نے عدالت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں باضابطہ نوٹس جاری نہ کرے۔
اس کے بعد بنچ نے مرکز اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو چھ ہفتوں کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی۔
کیس کی اگلی سماعت 30 اگست کو ہوگی۔