آدی واسی خود کو ہندو نہیں مانتے : علیحدہ مذہبی شناخت کے لیے سرنا دھرم کوڈ کا مطالبہ
۷۲ ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر آدی واسیوں کی صورتحال پرہفت روزہ دعوت کی خاص رپورٹ ایکسکلوزیو Exclusive
افروز عالم ساحل
ملک کے آئین کو بنے ہوئے ۷۱ سال گذر چکے ہیں، لیکن آج بھی ملک کے آدیواسیوں کے لیے اپنے وجود کی لڑائی جاری ہے۔ اس بار یہ لڑائی آر پار کی نظر آرہی ہے۔ یہ لڑائی آدیواسیوں کے مذہبی شناخت کی لڑائی ہے۔ ان کے اپنے حقوق کی لڑائی ہے۔ سرنا آدیواسی دھرم کوڈ کی لڑائی ہے۔
آدیواسی لیڈروں کا کہنا ہے اگر مرکزی حکومت نے ان کے مطالبے کو پورا نہیں کیا، تو یہ ملک اب تک کا سب سے بڑا آندولن دیکھے گا۔ پورے ملک میں چکا جام کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگلے مہینہ 28 فروری کو ملک کے بیشتر حصوں میں سرنا دھرم کوڈ کے لیے ایک ’’مہاریلی‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سرنا دھرم کوڈ کو کسی بھی صورت میں 2021کی مردم شماری میں شامل کیا جائے۔
آدیواسیوں کے سرنا دھرم کوڈ کی لڑائی اس لئے بھی اہم ہونے والی ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں مغربی بنگال، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ اسمبلی کے ذریعہ بھی اس کے حق میں قرارداد پیش ہونے کے امکان ہیں۔ وہیں جھارکھنڈ اسمبلی اپنے ایک خصوصی اجلاس میں اتفاقِ رائے سے سَرنا دھرم کوڈ کی قرارداد کو منظور کر چکی ہے۔ اس قرارداد کے مطابق ’آدیواسی‘ ہندو دھرم کا حصہ نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے آئندہ مئی مہینے میں ہونے والی مردم شماری کے دوران انہیں ’’سَرنا‘‘ نام سے علیحدہ مذہبی درجہ بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں جھارکھنڈ کے رہنے والے سرنا دھرم گرو بندھن تگّا نے بتایا کہ گزشتہ ۳ جنوری کو جئےپال منڈا کی یوم پیدائش کے موقع پر کولکاتا کے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں ’سرنا دھرم مہا سمیلن‘ منعقد کیا گیا تھا۔ اس سمیلن میں مغربی بنگال کے کابینی وزیر پونیندو باسو بھی شامل ہوئے تھے، ان کے ذریعے ہماری بات وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی تک پہنچ چکی ہے، وہ جلد ہی سرنا دھرم کوڈ پر ایک قرارداد مرکزی حکومت کو بھیجیں گی۔
ممتا بنرجی مستقبل میں کیا کریں گی یہ تو وہی بہتر جانتی ہیں۔ لیکن اب اتنا تو طے ہے کہ یہ معاملہ اس بار کے اسمبلی الیکشن میں اہم رول ادا کرنے والا ہے اور بی جے پی کے لئے کافی مشکل کھڑی کر سکتا ہے، کیونکہ مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے اور یہ کام اسے ہی کرنا ہے۔ وہیں مغربی بنگال میں خاص طور پر جھارکھنڈ اور اڑیسہ کے حدود سے لگے علاقوں میں آدیواسیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی جھارکھنڈ میں سرنا دھرم کوڈ کی حمایت کررہی ہے وہیں آندھرا پردیش میں آدیواسی دھرم کوڈ کی مخالفت کررہی ہے۔
دھرم گرو بندھن تگّا کا کہنا ہے کہ ہماری یہ لڑائی بےحد پرانی ہے، ملک آزاد ہوا، لیکن ہمیں اپنی مذہبی شناخت نہیں ملی۔ گزشتہ ۳۰ سالوں سے میں آدیواسیوں کے شناخت کی لڑائی لڑ رہا ہوں۔
حالانکہ جھارکھنڈ کے سینئر جرنلسٹ سید شہروز قمر کا ماننا ہے کہ اس لڑائی میں کافی پیچیدگیاں بھی ہیں اور یہ مرکزی حکومت کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جھارکھنڈ میں سرنا دھرم کوڈ دینے کا وعدہ بی جے پی نے ہی کیا تھا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ مرکزی حکومت کے لئے گلے کی ہڈی اس لئے ہے، کیونکہ الگ الگ صوبوں کے آدی واسی اپنے الگ الگ دھرم کوڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ساؤتھ انڈیا کے آدیواسیوں کی الگ آدی کوڈ کی مانگ ہے، وہیں آسام میں الگ دھرم کوڈ کا مطالبہ ہورہا ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت کیا کر پاتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
آسام کی مشہور مصنف کویتا کرمکار کا کہنا ہے کہ یہاں کے ’آسام ٹی ٹرائبلس اسٹوڈنٹس یونین‘ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی شناخت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ سرنا دھرم کوڈ سے کوئی الگ لڑائی ہے۔ اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ہماری لڑائی اس سے مختلف ہے۔ آسام کے ٹی ٹرائبلس میں ملک بھر کے وہ آدیواسی شامل ہیں جو یہاں آسام میں ٹی سیکٹر میں کام کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ کویتا کرمکار اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں اور تین کتابیں لکھ چکی ہیں، ساتھ ہی درجنوں کتابوں کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہے۔
وہیں دوسری جانب گزشتہ دنوں رانچی میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کہہ چکے ہیں کہ اگلی مردم شماری کے موقع پر ان کی تنظیم آدیواسیوں کو اپنا نام ہندو مذہب کے زمرہ میں درج کروانے کے تعلق سے بڑے پیمانے پر ’بیداری مہم‘ چلائے گے۔
لیکن یہاں سرنا دھرم کوڈ کی لڑائی لڑ رہے لیڈروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہم ’بیداری مہم‘ چلا رہے ہیں، ہمارا ہندو دھرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جنہوں نے دیگر مذاہب کو قبول کر لیا ہے، ان کو آزادی ہے وہ جو مذہب چاہے درج کرائیں، لیکن جو اصل آدیواسی ہیں وہ خود کو ہندو یا ہندوستان میں موجود کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے۔
دھرم گرو بندھن تگّا کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اس بار اگر حکومت نے سرنا دھرم کوڈ کا الگ سے کالم نہیں دیا تو ہم پورے ملک میں مردم شماری یا این پی آر کی مخالفت کریں گے۔ موہن بھاگوت یا آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہمارے درمیان چلنے والا نہیں ہے۔
ایک مخالفت یہ بھی۔۔۔
آدیواسیوں کے سرنا دھرم کوڈ کے ساتھ ساتھ ملک میں ’روی داسی‘ کمیونٹی بھی اپنی مذہبی شناخت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ اس کمیونٹی کے جانب سے بھی یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انہیں ایک علیحدہ مذہب تسلیم کرتے ہوئے اُن کے لیے 2021کی مردم شماری میں ایک الگ کالم اور یونیک کوڈ کا اہتمام کیا جائے تاکہ انہیں اپنا مذہب ہندو یا سکھ نہ لکھنا پڑے۔
ان کے مطابق ’روی داسی‘ ایک الگ مذہب کے ماننے والی کمیونٹی ہے، جو سنت روی داس کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ ان کی مذہبی کتاب بھی الگ ہے جسے ’امرت بانی گرو روی داس جی‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ اگر اس بار ہونے والے مردم شماری کے فارم میں ان کا الگ سے کالم نہیں دیا گیا تو وہ اس مردم شماری کا بائیکاٹ کریں گے۔ روی داسی کمیونٹی کو ہمارے ملک میں شیڈیولڈ کاسٹ میں رکھا گیا ہے۔ مذہبی اعتبار سے انہیں ہندو یا سکھ مذہب کے ماننے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ملک میں ان کی آبادی تقریباً 18 کروڑ ہے۔
’’ ہماری یہ لڑائی بےحد پرانی ہے، ملک آزاد ہوا، لیکن ہمیں اپنی مذہبی شناخت نہیں ملی۔ گزشتہ ۳۰ سالوں سے میں آدیواسیوں کے شناخت کی لڑائی لڑ رہا ہوں‘‘ دھرم گرو بندھن تگّا
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021