ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
موہن بھاگوت کو مذہبی کتابوں کو ’تحریفات‘ سے پاک کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
تعلیم پر برہمنوں اور شاہی خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا سہرا مسلم حکمرانوں کے سر
برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام تعلیم اچھا تھا ۔ آر ایس ایس کے سربراہ کے بیان سےمغل حکمرانوں کےظالم و جابر ہونے کی نفی
بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے پاس روایتی علم کا ایک وسیع ذخیرہ ہے لیکن کچھ خود غرض لوگوں نے جان بوجھ کر قدیم نصوص میں غلط باتوں کا اضافہ کردیا ۔ اس لیے نصوص اور روایات کے علم کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس جائزے کے بعد جو امتحان میں پورا اترے گا وہی دین اور علم دونوں شمار ہوگا۔ ایسے میں ایک سوال یہ ہے کہ جائزہ کس کسوٹی پرلیا جائےگا؟
وزیر اعظم نے دولت کے زور سے قومی ذرائع ابلاغ کو اپنا گرویدہ توبنالیا لیکن فی الحال ان سے زیادہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت خبروں میں رہتے ہیں ۔ ذات پات اور پنڈت والا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ ان کاایک نیا بیان بحث و مباحثے کا موضوع بن گیا۔ ناگپور ضلع کے کنھولیبرا گاوں میں آریہ بھٹ کے نام پر ایک پارک بنایا گیا اور اس کے افتتاح کا شرف سرسنگھ چالک کو حاصل ہوا۔ آریہ بھٹ چونکہ صفر ایجاد کرنے والے معروف ریاضی داں تھے اس لیے موہن بھاگوت نے کچھ معروضی باتیں کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر مذہبی کتابوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کچھ خود غرض لوگوں نے ان کتابوں میں بہت کچھ داخل کردیا ہے۔ پنڈت والے ہنگامہ کو چونکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اس لیے احتیاط کرتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ وہ خود غرض لوگ کون تھے؟ یا ان کا تعلق کس طبقہ سے تھا، ورنہ پھر سے تنازع کھڑا ہو جاتا۔ اس کے باوجود ان کا مذہبی صحیفوں میں خودغرضانہ تحریفات کی موجودگی کو تسلیم کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ان کےمذہبی صحیفوں میں مداخلت کیسے ہو گئی؟ اس سوال کا یہ جواب دیا گیا پہلے یہاں کتابیں نہیں تھیں۔ زبانی روایت سے کام چلایا جاتا تھا۔ تحریریں بعد میں آئیں اورپھر ان عبارتوں کو قلمبندکیا گیا۔ موہن بھاگوت کے مطابق اس دوران کچھ خود غرض لوگ بھی داخل ہوگئے۔ انہوں نے کتاب میں چند سراسر غلط باتیں داخل کردیں۔ بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے پاس روایتی علم کا ایک وسیع ذخیرہ ہے لیکن کچھ خود غرض لوگوں نے جان بوجھ کر قدیم نصوص میں غلط باتوں کا اضافہ کر دیا۔ اس لیے نصوص اور روایات کے علم کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس جائزے کے بعد جو امتحان میں پورا اترے گا وہی دین اور علم دونوں شمار ہوگا۔ ایسے میں ایک سوال یہ ہے کہ جائزہ کس کسوٹی پرلیا جائےگا؟ اور کس بنیاد پر حقیقی نصوص کو خود غرضانہ تحریف سے الگ کیا جائے گا کیونکہ مقناطیس کے بغیر لوہے کو لکڑی کے برادے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور ان لوگوں کے پاس وہ موجود ہی نہیں ہے۔
دھرم گرو چونکہ موہن بھاگوت سمیت پوری آر ایس ایس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لیے ان کے جائزے پر ہندو سماج کا اتفاق ناممکن ہے۔ ابھی حال میں جب بھاگوت نے ذات پات کی تفریق کو غلط ٹھہرایا بیشتر مذہبی پیشواوں نے ان کی رائے کو مسترد کردیا اور کچھ لوگوں نے انہیں مذہب کا ٹھیک سے مطالعہ کرنے کی تلقین کی تو کچھ نے ایسے تنازعات سے بچنے کا مشورہ دیا۔ موہن بھاگوت نے یہ اعتراف بھی کیا کہ کچھ تحریریں ضائع ہوچکی ہیں اور پھر یہ بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تیار کردہ نصاب میں جو چیزیں پہلے رہ گئی تھیں اب شامل کردی گئی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نصاب بنانے والوں کی ضائع شدہ معلومات تک رسائی کیسے مل گئی؟ ان گمشدہ چیزوں کو شامل کرنے کا جواز یہ بتایا گیا کہ تمام بھارتیوں کو ملک کے روایتی علم سے آگاہ ہونا چاہیے۔ سب کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ باہمی گفت و شنید و نظام تعلیم کے ذریعہ یہ معلومات کیسے حاصل کی گئیں؟ لیکن جس علم کا منبع و مرجع باہمی بات چیت ہے اس میں سے خود غرضانہ تحریفات کا الگ کرنا کیونکر ممکن ہے؟
آریہ بھٹ باغ چونکہ ایک سائنسداں کے نام سے منسوب تھا اس لیے بھاگوت نے کہہ دیا کہ ہمارامذہب سائنس کے مطابق چلتا تھا لیکن وہ بھول گئے کہ الہام سے بے نیاز سائنس کسی ایک ڈگر پرنہیں ٹکتی ۔ نت نئے تجربات کے بعد وہ خود اپنے فرسودہ مفروضوں کی تردید کردیتی ہے۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد تاریخی طور پر بھارت میں چیزوں کو سائنسی انداز میں دیکھا جاتا تھا انہوں نے اس مزاج میں تبدیلی کے لیے غیر ملکی حملہ آوروں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ وہ بولے غیر ملکی حملےسے یہاں کا نظام اور علمی کلچر بکھر گیا ہے۔ اپنے خطاب میں موصوف نے دعویٰ کیا کہ اگر بھارت کے لوگ اپنی روایتی علمی بنیاد کو قبول کرلیں تو دنیا کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ ایساکہہ دینا تو بہت آسان ہے مگر بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ان قدیم روایتوں کی جانب رجعت نے بہت سارے پیچیدہ مسائل پیدا کر دیے ہیں۔اس تقریب میں موہن بھاگوت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برطانوی راج سے قبل بھارت میں ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں تھا کیونکہ بھارت کا تعلیمی نظام لوگوں کو خود پر انحصار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
یہ ایسا سفید جھوٹ ہے کہ جس پر کوئی دیوانہ ہی بھروسہ کرسکتا کیونکہ منوسمرتی انگریزوں نے نہیں لکھوائی اور شودر کو تعلیم دینا زہریلے سانپ کو دودھ پلانے جیسا ہے۔ یہ رام چرت مانس کی تعلیم ہے۔ اس ملک میں نسلی تفریق نہیں ہوتی تو یہاں جین اور بودھ مت جیسے مذہب نہیں ہوتے۔ ذات پات کو قائم رکھنے کی خاطر ملک بھر میں پھیلے ہوئے بودھ مندروں کو مسمار کرکے مذہبی راہبوں کا دیس نکالا کیا گیا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس ملک میں جنم لینے والا ایک مذہب سری لنکا، میانمار، جاپان اور چین جیسے ممالک میں تو پھلا پھولا مگر بھارت کے اندر اس کی بیخ کنی کردی گئی۔ بودھ مت کا قصور ذات پات کے نظام کو چیلنج کرنا تھا اس لیےاسے ملک سے باہر کھدیڑ دیا گیا ۔بھارت میں اگر ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاو نہ ہوتا تو ڈاکٹر امبیڈکر کو اونچ نیچ کے غیر انسانی نظام سے بغاوت کرکے 1956 میں بودھ دھرم قبول کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لیے ذات پات کی تفریق و امتیاز کے لیے انگریزوں کا موردِ الزام ٹھہرانا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے سربراہ موہن بھاگوت جب بھی بیرونی حملہ آوروں کا ذکر کرتے ہیں توعام طور پر اس سے مراد مسلمان ہوتاہے کیونکہ یہ لوگ ایک ہزار سالہ غلامی کو ختم کرنے کانعرہ لگاتے ہیں اور ہندو عوام کے درمیان مسلم حکمرانوں کے خود ساختہ مظالم کو بیان کرکےانتقام کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ موہن بھاگوت نے اپنے تازہ خطاب میں اس بیانیہ کی بھی تردید کردی۔انہوں نے انگریزوں پر تعلیمی نظام کو برباد کرنے کا الزام لگا کرکہا کہ برطانوی راج سے پہلےبھارت کے ستر فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق موہن بھاگوت نے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ہریانہ میں ایک اسپتال کا افتتاح کرتےہوئے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیا۔انہوں نے کہا کہ برطانوی راج سے پہلے ہمارے ملک کی ستر فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور بے روزگاری نہیں تھی جبکہ انگلینڈ میں صرف سترہ فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزوں نے اپنے تعلیمی ماڈل کو یہاں نافذ کیا اور ہمارے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذکیا۔ اس لیے انگلستان میں ستر فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے جبکہ بھارت میں اس کی آبادی کاصرف سترہ فیصد تعلیم یافتہ رہ گیا۔‘ تعلیم اور روزگار سے متعلق یہ بیان عجیب لگتا تو ہے مگرمبنی برحقیقت ہے۔موہن بھاگوت کے اس بیان سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں ۔ اس بیان کی سب سے خاص بات یہ ہےکہ اس میں انگریزی سامراج پر سنگھ کے ذریعہ تنقید کی گئی۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اگریہ کہا جائے تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں کیوں حصہ نہیں لیا؟ لوگ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ انگریزوں کے خلاف جب ملک کے ہندو مسلمان مل کر لڑ رہے تھےتو سنگھ نے ان دونوں قوموں میں پھوٹ ڈال کر انگریزی سامراج کو فائدہ کیوں پہنچایا؟ اس کے جواب میں اگر سنگھ یہ کہہ کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے کہ ہندوتوا کی سیاست کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہندو مہاسبھا پر تھی تو بات زیادہ بگڑ جاتی ہے کیونکہ ہندو مہاسبھا کے رہنما ساورکر نے تو اپنے معافی نامہ میں انگریزوں کے ساتھ تاحیات وفادار ی کا کھلے عام عہد کیا تھا۔ان سوالات کو نظرانداز کرکے اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس ملک کے ستر فیصد لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے تو اس کا سیدھا جواب مسلمان حکمراں ہوگا کیونکہ تین ہزار سال قدیم منوسمرتی میں تو شودر کے اشلوک سن لینے کی سزا سیسہ پگھلا کر کان میں ڈال دینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے بعد ٹویٹر کی دنیا میں موہن بھاگوت کے بیان کومغل دور کی تعریف و توصیف قرار دیا گیا کیونکہ برطانوی راج سے قبل بھارت میں مغلوں اوردیگر مسلم حکمرانوں کی حکومت تھی۔ وطن عزیز میں تعلیم کے حوالے سے اوریا مقبول جان نےایک چشم کشا تحقیق میں مندرجہ ذیل حقائق پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق اورنگ زیب عالمگیر (1707ء) کا بھارت اپنے دور میں آباددنیا کی تہذیبوں میں علم و عرفان کا ایسا درخشندہ ستارہ تھاجہاں تعلیم گاہوں کا جال بچھا ہوا تھا۔بھارت کے عظیم تعلیمی نظام کی پہلی گواہی ایک برطانوی پادری ولیم ایڈم نے دی ہے ۔ 1818 میں بھارت آکر ایڈم نے یہاں ستائیس سال گزارے اور گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹگ کے حکم پر برصغیر کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی غرض سے بنگال اور بہار کے تعلیمی نظام کا سروےکیا۔اس نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ بنگال اور بہار میں تقریباً ایک لاکھ اسکول بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ اسکول جانے کے قابل ہر بتیس لڑکوں کے لیے ایک درسگاہ میسر ہے۔
ضلع راجشاہی کے قصبے نلتور کی آبادی 129,640 تھی۔ وہاں پر دو قسم کاتعلیمی نظام رائج تھا۔ ایک میں رسمی انداز سے جدید تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرے گھریلو اسکول تھے۔ اس کے تحت ایک اُستاد یا اتالیق پورے خاندان کو ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا تھا۔ رسمی تعلیم والے اسکول میں داخلے کی اوسطاً عمر آٹھ سال تھی اور پانچ سال کی تعلیم کے بعدتقریباً چودہ سال کی عمر میں ایک لڑکا فارغ التحصیل ہو جاتا تھا۔ نلتور میں جملہ گیارہ اسکول تھے جو عربی زبان میں تعلیم اور قرآن پڑھانے کے لیےمخصوص تھے، جبکہ دس بنگالی میں تعلیم دیتے تھے اور چار فارسی میں۔ ہر فرد کو آزادی تھی کہ وہ پرائمری تعلیم عربی، فارسی یا بنگالی میں سے کسی ایک میں حاصل کرے۔ اوسطاً ایک اسکول میں دس سے پندرہ طلبہ زیر تعلیم تھے۔مدراس کے علاقے میں بھی1822 ء سے 1826 ء کے درمیان علاقائی نظام تعلیم کا جائزہ لیاگیا۔ اسکی رپورٹ کے مطابق اس وہاں پر 12,498 اسکولوں میں 1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں ہوا تو پتہ چلا کہ ہر تیس طلبا پر ایک اسکول موجودتھا۔ پنجاب کےبارے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لائٹنزکی ضخیم کتاب میں ہر گاؤں کے اندر تعینات اساتذہ کے نام، طلبہ کی تعداد، مضامین کی اقسام اور معیار تعلیم کا تفصیلی تذکرہ کیاگیاہے۔ وہاں بھی رسمی تعلیم گاہوں کے علاوہ دیہاتوں میں ایسے استاد اور اتالیق کاتقرر کیا جاتا تھاجو گھروں میں جاکر تعلیم دیتے تاکہ ہر شخص ایک پڑھی لکھی، مہذب دنیا کا فرد بن سکے۔ایڈورڈ تھامسن نامی برطانوی ادیب اور ناول نگار نے بھارت کے بازار کا ماحول نقشہ کھینچا تو وہ پڑھا لکھا معاشرہ نظر آتا ہے۔ اس کے مطابق بھارت کے اسکولی تعلیم سے محروم رہ جانے والےغریب لوگ بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ غیر رسمی تعلیم کے حصول کے ذرائع نےاسکول جانے والوں سے کئی گنا زیادہ پڑھے لکھے افراد پیدا کردیے تھے۔ تھامسن نے کئی بنگالی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ بنگال کے بازاروں میں لاکھوں کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔اس زمانے میں سرتچندر یٹرجی کی ’دیوداس‘ صرف بارہ آنے میں بکتی تھی پھر بھی انہیں اس کی بارہ ہزار روپےرائلٹی ملتی تھی کیونکہ اس ناول کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئےتھے۔بنیادی تعلیم کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بھی ایک جال بچھا ہوا تھا۔ 1820 سے 1830 تک بمبئی صوبے کے نظام تعلیم کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ احمد نگر میں سولہ بڑے کالج اور پونا شہر میں 164 کالج اعلیٰ تعلیم کے لیے مخصوص تھے۔ مدراس کے علاقے میں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے۔ ان میں سب سے زیادہ 279 کالج، راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں 137 اورتنجاور میں 109 کالج تھے۔ان کالجوں میں 5431 طلبہ کو قانون، فلکیات، فلسفہ، شاعری، جہاز رانی،طب، فن تعمیر اور آلاتِ حرب بنانے کے علوم سکھائے جاتے تھے۔کروشیا کا ادیب ’فراپاولینو دی بارلٹو لومیو‘نے 1798 میں بھارت ی تعلیمی نظام کواپنے دور کا سب سے بہترین اور اعلیٰ معیار کا پایا۔ اس کے مطابق یہاں ایسے تمام فکری، مابعد الطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلمان بادشاہوں نےتعلیم برہمنوں اور شاہی خاندانوں کے حدود سے نکال کر عام لوگوں تک پہنچایا تاکہ ہر رنگ اور نسل کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے بنگال میں ذات پات کے حوالے سے تعلیمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جملہ1,75,089 ہندو طالب علموں میں صرف چوبیس فیصد یعنی 42,502 برہمن تھے جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودر تعلیم حاصل کررہے تھے۔
ٹیپو سلطان کے قائم کردہ اسکولوں میں پینسٹھ فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ انگریزوں نے چونکہ دلی دربار سے قبل بنگال، بہار، اڑیسہ، مدراس، میسور، پنجاب وغیرہ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ اس لیے وہاں پر تعلیمی سروے کروایا گیا لیکن 1857 کی جنگ آزادی سے بہت پہلے پورے بھارت میں یہی تعلیم کی یہی صورتحال تھی۔بھاگوت کی یہ بات بھی درست ہے کہ بھارت میں رائج تعلیمی نظام کو انگریزوں نے اپنایا کیونکہ اے ای دوبز نے 1920 میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہےکہ پورے برطانیہ میں اٹھارویں صدی تک صرف پانچ سو گرامر اسکول تھے اور ان میں صرف اعلیٰ نسل کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ جبکہ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے مغلیہ بھارت میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر ہر کوئی بلاتخصیصِ مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات، اپنے بچوں کو داخل کراسکتا تھا۔ برطانیہ کے اندر 1802 میں ایک قانون کے تحت عام بچوں کے لیے بھی پڑھنا لکھنااور حساب سیکھنا لازم قرار دیا گیا۔
جوزف لنکاسٹر اور اینڈریو بیل نے مغلیہ بھارت کے اتالیق سسٹم کے خطوط پر غیر رسمی تعلیمی نظام رائج کیا۔ 1801 کے انگلینڈ میں صرف 3,363 اسکول تھے اور طلبا کی تعداد چالیس ہزار تھی جبکہ بھارت میں لاکھوں اسکول موجود تھے۔ 1818 کے اندر برطانیہ میں یہ تعداد بڑھ کر 6,74,883 ہوئی اور 1851 میں وہاں 21,44,377 طلبہ 46,114 اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انگریزوں کے طرز فکر میں یہ انقلابی تبدیلی بھارت میں رائج نظام تعلیم کو اپنانے کے بعد آئی۔بھارت میں رائج نظام تعلیم، دین و دنیا دونوں علوم کا احاطہ کرتا تھا۔ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، علم ریاضی، جیومیٹری، الجبرا، علم الہندسہ، طب ،گرامر، ادب اور فن تعمیرات پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس سے ایک ایسی نسل برآمد ہوتی تھی جو بھارتی سول سروس ،عدلیہ، صحت، تعلیم اور تعمیرات جیسے تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھاتی تھی اور جو اپنے اپنے مذاہب کے علم سے بھی آراستہ ہوتی تھی۔
اوریا مقبول جان کی تحقیق کے مطابق اس تعلیمی نظام کی داغ بیل شاہ عبدالرحیم نے ڈالی تھی۔انہوں نےاورنگ زیب عالمگیر کی فرمائش پر فتاویٰ عالمگیری بھی مرتب کی۔ ان کے مدرسہ رحیمیہ کا نصاب سب کے لیے قابل قبول تھا۔ اس وقت تک دین اور دنیا کی تعلیم میں کوئی امتیاز نہ تھااور نہ علیحدہ علیحدہ مدارس تھے۔ ایک ہی اسکول کالج اور یونیورسٹی دونوں علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے ھے۔عصرِ حاضر کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم اگروال نے بھی موہن بھاگوت سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے ان کے اعتراف کو سراہا۔ اگروال بھی مانتے ہیں کہ برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام اچھا تھا۔ بھاگوت کا بیانیہ مغل حکمرانوں کےظالم و جابر ہونے کی نفی کرتا ہے۔اگروال کے مطابق بھارت میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا اورایسے مکتب اور مدارس تھے جن میں صرف مذہبی تعلیم کے ساتھ سیکولر تعلیم بھی دی جاتی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں سے قبل اورنگ زیب کی موت کےوقت بھارت کا جی ڈی پی دنیا کے جی ڈی پی کا چوبیس فیصد تھا جو کہ برطانوی راج کے اختتام پرکم ہو کر چار فیصد پرآ گیا ۔اس دور میں چونکہ دنیا بھر کی پچیس فیصد پیداوار بھارت میں ہوتی تھی اس لیے لوگ بے روزگار بھی نہیں تھے۔ یہ کمال احسان فراموشی ہے کہ موہن بھاگوت تو نام لیے بغیر مسلمانوں کے تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں مگر ان کی مہاراشٹر سرکار معمولی سیاسی فائدے کے لیے اورنگ آباد شہر کا نام تبدیل کردیتی ہے۔ نظامِ تعلیم سے متعلق موہن بھاگوت کےبیان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
مسلمان بادشاہوں نےتعلیم برہمنوں اور شاہی خاندانوں کےحدود سے نکال کر عام لوگوں تک پہنچایاتاکہ ہر رنگ اور نسل کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے بنگال میں ذات پات کے حوالے سے تعلیمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جملہ1,75,089 ہندو طالب علموں میں صرف 24یصد یعنی 42,502رہمن تھے، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400شودر تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ٹیپو سلطان کے قائم کردہ اسکولوں میں پینسٹھ فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ انگریزوں نے چونکہ دلی دربار سے قبل بنگال، بہار، اڑیسہ،مدراس،میسور، پنجاب وغیرہ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی اس لیے وہاں پر تعلیمی سروے کروایاگیا لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی سے بہت پہلے پورے بھارت میں یہی تعلیم کی یہی صورتحال تھی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023