’ٹرائل شروع ہوجائے تو عدالت میں کوئی معاملہ نہیں ٹک پائے گا۔۔۔‘ ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے

افروز عالم ساحل

’دلی فسادات کے معاملے کی ابھی تک ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔ دلی پولیس ابھی بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اس کی تفتیش جاری ہے یا ہم فلاں معاملے میں ایڈشنل چارج شیٹ جمع کریں گے، یہ سب کچھ ٹرائل میں تاخیر کرنے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔ اگر دلی پولیس ایسا ہی کرتی رہی تو کہیں نہ کہیں اب ہائی کورٹ کو کہنا پڑے گا کہ اگر ٹرائل شروع نہیں کیا گیا تو ہم سب کو ضمانت پر رہا کر دیں گے۔ اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب ٹرائل شروع ہوگا تو ان میں سے کوئی معاملہ بھی عدالت میں ٹک نہیں پائے گا‘

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں یہ بات کہی۔

دلی فسادات میں نوجوانوں کی گرفتاری کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دلی پولیس اور انتظامیہ ان کے خلاف مقدمے چلاکر ملک کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کریں۔ مگر ان پر چلنے والے مقدمے کہاں تک چلیں گے یہ دیکھنے والی بات ہو گی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ٹرائل میں یہ معاملات نہیں ٹک پائیں گے۔ ٹرائل میں ہی سب بری ہوجائیں گے۔ مگر اس درمیان کوشش کی جارہی ہے کہ انہیں ضمانت پر نہ چھوڑا جائے۔

دلی فسادات کے معاملے میں عدالتوں کے ذریعہ دلی پولیس پر تبصروں کے سوال پر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ ضمانتوں کے معاملات کئی سارے فیصلے آئے ہیں۔ ہر فیصلہ ایک خاص واقعہ پر ہوتا ہے۔ ان میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درخواست گزار کو ضمانت دی جانی چاہیے یا نہیں؟ قانونی اعتبار سے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضمانت دینے یا نہ دینے سے کسی کی معصومیت یا گناہ ثابت نہیں ہوتا ہے۔ ضمانت کا مطلب یہ ہے کہ کیا جب تک عدالتی کارروائی ختم نہیں ہو جاتی تب تک ملزم کو جیل کے اندر رہنا چاہیے؟ اگر کورٹ کو اس ملزم کے خلاف اس معاملے میں ثبوت نہیں ملتا ہے تو ضمانت دے دی جاتی ہے۔ اور اگرکچھ بھی ثبوت ہو تو عدالت کہہ دیتی ہے کہ فی الحال ضمانت نہیں دی جائے گی۔

وہ مزید کہتے ہیں، لیکن اب تک کی ضمانتی کارروائیوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دلی پولیس نے کیسی تفتیش کی ہے۔ عدالت دلی پولیس پر سخت تبصرے کر رہی ہے لیکن ابھی تک ہم کسی بڑے نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ دلی پولیس کی جو یکطرفہ کہانی ہے وہ ٹرائل میں کھری نہیں اترے گی۔

سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ دلی پولیس نے جو ایک سازش کی تھیوری دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں ڈونلڈ ٹرمپ آرہے تھے تو کچھ لوگوں نے خاص طور پر ملک اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کے تحت یہ فساد بھڑکانے کا پلان بنایا تھا، اور اسی کی وجہ سے یہ فساد برپا ہوا، یہ تھیوری اب ہر معاملے میں غلط ثابت ہو رہی ہے۔

لیکن ابھی دلی ہائی کورٹ نے اس فساد کو تو ایک ’’منصوبہ بند‘‘ سازش ہی بتایا ہے؟ اس پر سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کا یہ تبصرہ صرف دلی پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل رتن لال کی ہلاکت سے متعلق صرف ایک شخص پر تھا جس نے ضمانت کی درخواست دی تھی۔ عدالت نے اس کو اس لیے ضمانت نہیں دی کیونکہ اس کے خلاف ایک سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج موجود ہے، جس میں وہ تلوار اٹھائے ہوئے نظر آرہا ہے۔ عدالت نے اسی بنیاد پر اس کی ضمانت یہ کہتے ہوئے روک دی کہ’’ اس کی روشنی میں درخواست گزار کی تلوار کے ساتھ فوٹیج کافی خطرناک ہے اور یہی وجہ درخواست گزار کو حراست میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ لیکن اسی کیس میں عدالت کئی لوگوں کو ضمانت دے چکی ہے اور عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ اس کیس میں کچھ ملزموں کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے الیکٹرانک شواہد کی کمی ہے۔ ہجوم کے ہر رکن پر قتل کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

آپ کو بتادیں کہ اس کیس کے11 ملزموں میں سے، جنہوں نے اس کیس میں ضمانت کی درخواستیں دائر کی تھیں آٹھ کو راحت مل چکی ہے۔

دلی پولیس نے فسادات کی تحقیقات کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی سیل تشکیل دیا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس سوال پر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ جب ایک ساتھ عدالت سے اتنی ساری پھٹکاریں ملیں، لوگوں کو ضمانتیں دینے کے دوران عدالت نے جو تبصرے دلی پولیس کے رول پر کیے اور پولیس کی جن ناکامیوں کو آشکار کیا دلی پولیس اب اس کی مرمت کی کوشش کر رہی ہے۔

کون ہیں سنجے ہیگڑے؟

ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے سپریم کورٹ کے مشہور سینئر وکیل ہیں۔ وکالت کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ حکومت ہند کے لیے international arbitral tribunal کے سامنے بھی پیش ہو چکے ہیں۔ 1996 سے 2004 تک سپریم کورٹ کے سامنے یونین آف انڈیا کے دلائل پینل میں رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے شاہین باغ احتجاج معاملے کی سماعت کے دوران جن تین لوگوں کو ثالث مقرر کیا تھا، ان میں ایک نام سنجےہیگڑے صاحب کا بھی تھا۔ وہ کئی ہائی پروفائل کیسز میں وکیل رہے ہیں۔ آسام میں این آر سی سے خارج کیے گئے نام، ماب لنچنگ کے معاملے اور ممبئی کے آرے جنگل کے حق میں سپریم کورٹ میں یہ اپنی دلیلیں رکھ چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سنٹرل وسٹا پراجیکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کے بھی وکیل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت نے اس تعمیراتی منصوبے میں ہر چیز کو شفاف نہیں رکھا ہے۔ قوانین، شرائط اور طریقہ کار کی تعمیل میں مختلف جگہوں پر غفلت برتی گئی ہے۔ جبکہ عام لوگوں کو بھی حق ہے کہ وہ اس عظیم پراجیکٹ کے بارے میں جانیں اور اس عمل میں حصہ لیں۔ جناب سنجے ہیگڑے نے 1989 میں بمبئی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے 1991 میں اسی یونیورسٹی سے ایل ایل ایم بھی مکمل کیا۔ وہ اکثر قانونی صحافت میں مصروف رہتے ہیں، جن میں ٹیلی ویژن پینلز کے ساتھ ساتھ مشہور اخبارات کے کالم نگار کی حیثیت سے لکھنا بھی شامل ہے۔

***

 اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دلی پولیس اور انتظامیہ ان کے خلاف مقدمے چلاکر ملک کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کریں۔ مگر ان پر چلنے والے مقدمے کہاں تک چلیں گے یہ دیکھنے والی بات ہو گی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ٹرائل میں یہ معاملات نہیں ٹک پائیں گے۔ ٹرائل میں ہی سب بری ہوجائیں گے۔( سنجے ہیگڑے)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021