سنگھ کی دہشت گردی آشکار،یشونت شندے کے سنسنی خیز انکشافات

نوراللہ جاوید

اگر شدت پسند خیالات جرم ہے تو اس جرم کے دیگر مجرموں کو چھوٹ کیوں؟
آخر کار پاپولر فرنٹ انڈیا اور دیگر آٹھ تنظیموں پروزارت داخلہ نے پانچ سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی ذیلی تنظیموں پر تھوک میں پابندی عائد کرنے کے باوجود پی ایف آئی کی سیاسی شاخ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) حکومت کی پابندی سے فی الحال بچ گئی ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے اس تنظیم کےمتعلق مختلف طرح کی خبریں گردش میں تھیں کہ یہ ملک میں بدامنی کو فروغ دے رہی ہے، شہریوں کے درمیان نفرت کا ماحول تیار کررہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میڈیا بھی اس کے متعلق یہی پروپیگنڈا نہایت ہی شدت کے ساتھ کر رہا تھا کہ یہ سوالات کھڑے ہونے لگے تھے کہ جب یہ تنظیم ملک میں ہونے والے بدامنی کے ہر واقعہ کے لیے ذمہ دار ہے تو پھر حکومت اس پر پابندی کیوں عائد نہیں کرتی؟ دراصل ان سب کے ذریعہ مرکزی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ حکومت صبر و ضبط سے کام لے رہی ہے۔ پابندی عائد کیے جانے سے قبل این آئی کے ذریعہ ملک بھر میں چھاپے اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قائدین اور ذمہ داروں کی تابڑ توڑ گرفتاریوں کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت نے اس اقدام سے قبل اس تنظیم کے خلاف کافی شواہد اور ٹھوس دلائل جمع کر لیے ہیں اور اب پابندی عائد کرنے کا بہترین موقع ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ 27ستمبر کو جاری اعلامیہ میں پابندی کے لیے جو بنیادیں قائم کی گئی ہیں اور جو دعوے کیے گئے ہیں اس نے دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد نہ کیے جانے پر سوال کھڑا کر دیا ہے کہ اگر پی ایف آئی خفیہ ایجنڈا چلا کر جمہوریت کے تصور کو کمزور کر رہی ہے تو بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور ان کی مادر تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ بھی تو یہی کر رہی ہیں۔ رام جنم بھومی تحریک سے لے کر ملک میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں ان تنظیموں سے وابستہ افراد کے نام آچکے ہیں۔ موب لنچنگ، عبادت گاہوں کے سامنے نفرت انگیز نعرے، بھارت کے ایک طبقے کے قتل عام کی دھمکی، یہ ان کے وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔کثرت میں وحدت کا بھارتی تصور کمزور ہوا ہے۔ صورت حال اس قدر بے قابو ہو گئی ہے سپریم کورٹ کے مسلسل تبصرے اور تنبیہات بھی بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ ان نفرت کے سوداگروں کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں۔ حال ہی میں آر ایس ایس کے سابق کارکن یشونت شندے نے نانڈیر بم دھماکے میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے اور ہندو نوجوانوں کی ٹریننگ سے متعلق جو ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے پیش کیے ہیں وہ آر ایس ایس کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ عدالتیں ، جانچ ایجنسیاں اورسی بی آئی، یشونت شندے کے حلف نامے کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ ایسے میں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو اور دیگر سیاسی لیڈروں کا یہ سوال بروقت اور حق بجانب ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف کارروائی کب ہو گی؟ ملک میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حالات آر ایس ایس ہی پیدا کر رہی ہے اور اس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔ پی ایف آئی پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ملک کی سیکولر جماعتوں اور دیگر تنظیموں نے آر ایس ایس سے متعلق جو مطالبات رکھے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برادران وطن کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت ملک میں جو غیر یقینی صورت حال ہے اور ملک جو تیزی سے عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے پیچھے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہی ہیں۔
انگریزی اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل کئی مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں سے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے ملاقاتیں کیں اور پابندی کے لیے انہیں اعتماد میں لیا۔ اخبار نے اگرچہ ان مسلم تنظیموں اور اس کے نمائندوں کے ناموں کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن ایک مخصوص نظریہ و فکر کے حامل طبقے کے مذہبی رہنماؤں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کی حمایت میں جس طرح کھل کر بیانات جاری کیے ہیں اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ پابندی کی حمایت کرنے والے افراد کون ہیں اور ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔
مسلم تنظیموں میں جماعت اسلامی ہند اور مسلم مجلس مشاورت نے بیان جاری کر کے حکومت کےرویے پر تنقید کی ہے اور کہا کہ پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔گرچہ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ہم پی ایف آئی کے طریقہ کار اور پالیسی سے متفق نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ایک جمہوری معاشرے میں پابندی لگا کر مختلف آوازوں کو دبانا مناسب نہیں ہے۔ ملک کی دیگر مسلم تنظیموں نے بالعموم خاموشی کو ترجیح کی ہے۔ ان تنظیموں کی خاموشی کی وجوہات کیا ہیں، کیا وہ حکومت کے اقدامات سے خائف ہیں یا پھر یہ خاموشی تائید کا حصہ ہے؟ یہ واضح نہیں ہے۔
مسلم سیاسی شخصیات میں رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اور کیرالا میں مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے رد عمل میں جو بیانات دیے ہیں اور اس کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے طریقہ کار سے خوش نہیں تھے۔تاہم ان کے نزدیک ان کا جرم اتنا سنگین بھی نہیں تھا کہ ان پر پابندی عائد کردی جائے۔ 2006ء میں قائم ہونے والی یہ تنظیم جنوبی ہند کے بعد شمالی ہند میں بھی تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی۔ حکومت کے دعوے کے مطابق اس تنظیم کے 4 لاکھ باضابطہ ممبر ہیں جب کہ ایسے حامیوں کی بڑی تعداد ہے جنہوں نے حکومتی کارروائیوں کے خوف سے ممبرشپ حاصل نہیں کی مگر وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے کاز اور ان کے مقاصد کی حمایت کرتے تھے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ محض دو دہائیوں سے کم عرصے میں اس تنظیم نے اتنی تیزی سے مقبولیت کیسے حاصل کرلی؟ یہ بھی اہم سوال ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف گزشتہ ایک دہائی سے سوالات کھڑے کیے جا رہے تھے۔ اس کے باوجود ملک کی مقتدر مسلم تنظیمیں اور مسلم قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قائدین اور ذمہ داروں سے گفت و شنید کے ذریعہ انہیں بدنام کرنے کی وجوہات کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں ملک کے طول و عرض میں وسیع ہونے والی یہ تنظیم ایک طرح سے تنہائی کا شکار رہی اور اس کا فائدہ حکومتی مشنری اور پروپیگنڈا میڈیا نے اٹھایا نتیجے میں آج اس کے سیکڑوں کارکن جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ 2014ء کے بعد ملک کے حالات میں تیزی سے تبدیلی آئی، ملک کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے اور مسلم فوبیا کا بھوت سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ان حالات میں جماعت اسلامی ہند اور ملک کی دیگر تنظیموں نے حکومت کے رٹ کو چیلنج کرنے اور جوش و جذبات سے کام لینے کے بجائے خاموشی سے تعمیری کام پر توجہ دی۔ اپنی صفوں کو درست کرنے اور مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے اقدامات کو ترجیح دی۔ تاہم موب لنچنگ، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم، شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی، کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی، تبدیلی مذہب کے الزام میں بے دریغ مسلمانوں کی گرفتاری اور حجاب پر پابندی کے واقعات نے مسلم نوجوانوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا کردی ۔ ممکن ہے ان حالات کی وجہ سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو مسلم نوجوانوں میں کچھ مقبولیت حاصل ہوئی ہو۔ پرجوش نوجوانوں نے ملک کی مقتدر ملی تنظیموں کے حکیمانہ طرز عمل ، خاموش خدمت اور غیر جارحانہ تنقیدی بیانات کو بزدلی اور مداہنت سے تعبیر کرتے ہوئے اس نئی مسلم قیادت پر اعتماد کرنا شروع کیا۔ نوجوانوں کی جانب سے ملنے والے اعتماد نے پاپولرفرنٹ آف انڈیا کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا کہ مسلمانوں کو ان کے علاوہ کوئی قیادت فراہم نہیں کر سکتا۔پاپولر فرنٹ کی اسی خوش گمانی نے اسے ملک کی مقتدر تنظیموں اور اہم شخصیات سے دور کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر اس وقت پابندی عائد کرنے سے حکومت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ پاپولر فرنٹ آف انڈیا سمیت اس کی دیگر 6 ذیلی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اس کا سیاسی ونگ کہلائی جانے والی ایس ڈی پی آئی اس پابندی کی زد سے بچ گئی ہے۔ بلاشبہ ایس ڈی پی آئی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا حق الیکشن کمیشن کو ہے تاہم ایس ڈی پی آئی کی انتخابی سیاست میں موجودگی سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہونے والا ہے اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پاپولر فرنٹ پر پابندی ملک کے مفادات میں اٹھایا گیا کوئی قدم ہے یا پھر یہ ایک خالص سیاسی قدم ہے؟ پاپولر فرنٹ پر پابندی کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف پابندی کے مطالبات کیوں کیے جا رہے ہیں کیا دونوں تنظیموں کے طریقہ کار میں مماثلت ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں پر جن پر غور کیے بغیر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
مرکزی حکومت کا اعلامیہ اور قانونی تقاضے
مرکزی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کے جواز میں کہا کہ ’’پی ایف آئی اور اس سے منسلک تنظیمیں سماجی، اقتصادی اور سیاسی تنظیم کے طور پر کام کرتی ہیں لیکن وہ ایک خفیہ ایجنڈا رکھتی ہیں۔ پی ایف آئی کے پلیٹ فارم سے ایک مخصوص طبقے کو پر جوش بنا کر جمہوریت کے تصور کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ علاوہ ازیں پی ایف آئی کئی مجرمانہ اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہی ہے اور یہ ملک کی آئینی اتھارٹی کی توہین ہے۔ ساتھ ہی یہ ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ بیرون ممالک سے اس کی فنڈنگ کی جا رہی تھی‘‘
پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے حکومت کے ذریعہ عائد کی گئی پابندی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں اور اکائیوں کو تحلیل کر دیا ہے مگر اس کے لیے قانونی راہیں اب بھی کھلی ہوئی ہیں۔ یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کے جانے کے بعد فرنٹ کے پاس اپنا مقدمہ کسی ٹریبونل کے سامنے پیش کرنے کا اختیار ہے۔ ٹربیونل ہی حکومتی نوٹی فکیشن کی توثیق کرے گی۔
جب کسی تنظیم کو یو اے پی اے کی دفعہ 3 کے تحت غیر قانونی قرار دیا جاتا ہےتو اس کے متعلق شق میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا کوئی نوٹیفکیشن اس وقت تک اثر انداز نہیں ہو گا جب تک کہ ٹریبونل، سیکشن 4 کے تحت جاری کیے گئے حکم کے ذریعے اس اعلان کی توثیق نہیں کرتا اور حکمنامے کو سرکاری گزٹ میں شائع نہیں کیا جاتا۔ تاہم، غیر معمولی حالات میں نوٹیفکیشن فوری طور پر نافذ ہو سکتا ہے اگر اس کی وجوہات تحریری طور پر درج ہو جائیں جیسا کہ اس معاملے میں کیا گیا ہے اور ٹریبونل ہی اس کی توثیق یا اسے مسترد کر سکتا ہے۔ پابندی عائد کیے جانے والے نوٹیفکیشن کو 30 دنوں کے اندر ٹریبونل کے سامنے پیش ہوجانا چاہیے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا اس اقدام کے لیے کافی ٹھوس شواہد دلائل اور وجوہات موجود تھے یا نہیں؟ ٹربیونل کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ 6 مہینوں کے اندر اپنا فیصلہ سنادے۔ ضابطہ دیوانی 1908ء کے تحت دیوانی عدالت کو جو اختیارات حاصل ہیں وہی اختیارات ٹربیونل کو بھی حاصل ہیں۔ تاہم بیشتر مواقع پر ٹربیونل نے حکومت کے رٹ کو ہی تسلیم کیا ہے۔2008ء میں مختصر مدت کے لیے سیمی پر پابندی ہٹانے کے علاوہ ٹربیونل نے ذاکر نائک، سکھ فارجسٹس اور جے کے ایل ایف کے خلاف حکومت کی پابندی کو جاری رکھا ہے۔ایسے میں ٹربیونل سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ پی ایف آئی کے معاملے میں حکومت کی منشا کے خلاف کوئی فیصلہ سنائے گی۔ یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کی جانے والی تنظیموں کے خلاف حکومت اکثر مہر بند لفافے میں ثبوت دیتی ہے۔اس کی وجہ سے کسی تنظیم کو اپنے دفاع کا موقع بھی نہیں ملتا ہے۔
پی ایف آئی کی مختصر تاریخ
1980ء کی دہائی میں ہندوتوا کے عروج اور 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کی وجہ سے ملک میں طرز حکمرانی اور مسلمانوں کی سیاسی سوچ میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی۔ اس دور میں دلی کی جامع مسجد کے امام مولانا عبداللہ بخاری کی ’آدم سینا‘ سے لے کر بہار کی ’پسماندہ مسلم محاذ‘ اور ممبئی کی ’انڈین مینارٹی سیکیورٹی فیڈریشن‘ وجود میں آئیں۔ کیرالا میں نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ (این ڈی ایف) تمل ناڈو میں منیتھا نیتی پسارائی اور کرناٹک میں ’’کرناٹک فورم فار ڈگنیٹی‘‘ بھی اسی عرصے میں قائم کی گئیں۔ چند سالوں بعد جنوبی ہند کی یہ تینوں تنظیمیں، تعامل و توافق اور مقاصد میں یکسانیت ہونے کی وجہ سے 22 نومبر 2006 کو کیرالا کے شہر کوزی کوڈ میں منعقدہ ایک میٹنگ میں ’’پاپولر فرنٹ آف انڈیا ‘‘ میں ضم ہو گئیں اور فروری 2007ء سے باضابطہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے اگلے دو سال بعد گوا، راجستھان، آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاست منی پور کی پانچ تنظیمیں بھی پی ایف آئی میں ضم ہو گئیں۔ آکسفورڈ کے اسکالر والٹر ایمرک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد بھی بھارتی مسلمانوں کی قیادت عمومی طور پر شمالی ہند کی تنظیمیں کرتی تھیں اور ان ہی ریاستوں کے قائدین کو قومی سطح کا لیڈر تسلیم کیا جاتا تھا۔ اگرچہ انفرادی طور پر بھارت کی سیاسی افق پر غلام محمود بنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ اور صلاح الدین اویسی جیسی شخصیات ابھریں اور مسلمانوں کی آواز بھی بنیں مگر انہیں پان انڈیا کے لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ پی ایف آئی بھارت کی پہلی ایسی تنظیم ہے جسے کی قیادت جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے کر رہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے قائدین نے پی ایف آئی کو مستعد کیڈر پر مبنی تنظیم بنایا۔ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے ٹریننگ کیمپ منعقد کرتے تھے۔ پی ایف آئی کی ویب سائٹ پر مقاصد اور تعارف کے تحت لکھا ہے کہ ہمارا مقصد سماجی اور اقتصادی مساوات قائم کرنا ہے، قومی اتحاد اور سالمیت کے تحفظ کے ساتھ ایک غیر امتیازی معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں سب کو آزادی، انصاف اور تحفظ مل سکے۔ تنظیم سماجی اور اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تاکہ دلت، آدیواسی اور اقلیتوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔
چند ماہ قبل انگریزی نیوز پورٹل دی پرنٹ نے پی ایف آئی سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔ دی پرنٹ نے پروفیسر کویا جو اس وقت این آئی اے کے ذریعہ گرفتار ہیں، کی وضاحت کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے 1982ء میں ہی سیمی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اس کے ایک دہائی بعد 1993ء میں بابری مسجد کی شہادت اور ہندو فاشزم کے عروج کے رد عمل میں این ڈی ایف قائم کیا تھا۔ پروفیسر کویا نے بتایا تھا کہ 1992ء میں ہندو فسطائی قوتوں کے ذریعہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ روایتی مسلم تنظیمیں مسلم کمیونٹی کے خدشات کے تدارک اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سیمی سے تعلق کے الزام کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ دس سال تک این ڈی ایف اور سیمی نے متوازی طریقے سے کام کیا۔ سیمی اور ہماری فکر میں بنیادی فرق تھا۔ سیمی کا خیال تھا کہ اسلام ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان ایک تکثیری ملک ہے جس میں بہت سے مذاہب ہیں اس لیے تکثیری معاشرے میں غیر امتیازی معاشرہ، آزادی اور انصاف کے حصول کی راہ ہموار کرنا ہمارا بنیادی ایجنڈا ہے۔
کیا این آئی اے، پی ایف آئی کے لیڈروں کے ملک دشمن بیرونی طاقتوں سے مبینہ تعلق کو ثابت کر پائے گی؟ یہ ایک طویل قانونی جنگ ہے۔ ایک دو مبینہ واقعات کو چھوڑ کر پی ایف آئی کی قیادت کے خلاف اب تک کوئی بڑے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ پی ایف آئی پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد قومی نیوز چینلوں کے رویوں کو حیرت انگیز یا تعجب خیز نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ مسلمانوں کے تعلق سے عموما ان کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ چند نیوز چینلوں نے پی ایف آئی پر پابندی کو ’’ہندو فوبیا‘‘ سے جوڑ کر دعویٰ کیا کہ پی ایف آئی پر پابندی سے ہندوؤں کے خلاف مہم پر روک لگے گی۔ متوازن اور معتدل رپورٹنگ کے لیے مشہور این ڈی ٹی وی اور انڈین ایکسپریس بھی اس معاملے میں خود کو متوازن نہیں رکھ پائے۔ انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریہ میں پی ایف آئی کو ’’اسلامی عسکریت پسندی‘‘ سے جوڑ نے کی کوشش کی ہے۔ پی ایف آئی کے کسی بھی لیڈر کا کوئی بیان ریکارڈ پر موجود نہیں ہے جس میں اسلامائزیشن کی بات کی گئی ہو۔ جب کہ انڈین ایکسپریس ’’ہندو عسکریت پسندی‘‘ یا پھر سیکولر بھارت کے مقابلے میں ہندو راشٹر کے قیام کی کوششوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔ اخبار نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عوامی زندگی میں مسلمان بے دخل ہو رہے ہیں، ریاستی ایجنسیوں کے ذریعہ حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور قومی دھارے کی سیکولر جماعتیں آئین کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونے سے گریز کر رہی ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ پی ایف آئی نے اسی عدم اعتمادی اور مایوسی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو کنارے لگانے کی کوشش کون کر رہا ہے وہ کونسی طاقتیں ہیں جنہوں نے ملک کی اکثریت کے ذہن و دماغ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت بھر دی ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سب کے لیے آر ایس ایس کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے۔ گاندھی جی کے قتل سے لے کر اب تک آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے جرائم کی فہرست طویل سے طویل تر ہے۔ بابری مسجد کی شہادت، ملک کے طول و عرض میں ہونے والے فرقہ اوارانہ فسادات اور مسلمانوں کا قتل عام، مالیگاوں، اجمیر اور نانڈیر بم دھماکے، اڑیسہ میں گرجا گھر کے پادری گراہم اسمتھ اور ان کے خاندان کے بہیمانہ قتل کے پیچھے انہیں تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ بنیاد پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزائم اور قوت ارادی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی موب لنچنگ، حملے اور قتل عام جیسی سنگین دھمکی دینے والے وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو جن جاگرتی سمیتی یا سناتن سنستھا جیسی تنظیمیں جن پر گزشتہ کئی دہائیوں سے سلسلہ وار قتل و غارت گری اور بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ۔ان کے تعلق سے خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ مرکزی حکومت بنیاد پرستی کے معاملے میں غیر سنجیدہ ہے اور اسے مہنگائی بے روزگاری، ملک میں میں معاشی عدم استحکام اور سیاسی خلفشار کی وجہ سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ ہزاروں کوششوں کے باوجود راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا موضوع بحث ہے اور آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست پر کھلے عام مباحثے ہو رہے ہیں۔ اس پس منظر میں پی ایف آئی پر پابندی موجودہ سیاسی بحث کے رخ کو موڑنے کی کوشش ہوسکتی ہے اوریہ بات اب تک کے حقائق سے ثابت ہے کہ ہندو مسلم پولرائزیشن کا فائدہ ہمیشہ بی جے پی کو ملا ہے۔ 2024ء کے قومی انتخابات میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں جمود کی شکار معیشت، فرقہ وارانہ انتشار اور بے روزگاری جیسے مسائل کو شدت کے ساتھ اٹھا رہی ہیں جبکہ بی جے پی پولرائزیشن کے حربے کا سہارا لے کر الیکشن کے لیے بیانیے تشکیل دے رہی ہے۔ چنانچہ کئی سیاسی تجزیہ نگار ایس ڈی پی آئی پر پابندی عائد نہ کیے جانے کو سیاسی انجینئرنگ کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیوں کہ ایس ڈی پی آئی کرناٹک، کیرالا اور تمل ناڈو کے ساحلی اضلاع میں تیزی سے مقبول ہوئی ہے اور کرناٹک کے پنچایت اور مقامی بلدیاتی انتخابات میں اس نے کامیابی بھی حاصل کی ہے۔چنانچہ کرناٹک میں ایس ڈی پی آئی کی موجودگی کا فائدہ بی جے پی کو ہی ملے گا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کیرالا میں مسلم لیگ کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے بایاں محاذ اندرون خانہ ایس ڈی پی آئی مدد کرتا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ایف آئی مسلمانوں کی روایتی تنظیموں سے الگ تھلگ پڑجانے کی وجہ سے حکومت کے لیے نرم چارہ بن گئی تھی اس لیے اس پر پابندی عائد کرکے سیاسی کھیل کھیلا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ گجرات، تلنگانہ اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں اس سیاسی کھیل کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے یا داؤ الٹا پڑتا ہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022