افروز عالم ساحل
یہ 1919کی بات ہے۔ ملک بھر میں رولٹ ایکٹ کے خلاف مظاہرے چل رہے تھے۔ امرتسر میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اپنے دوست ڈاکٹر ستیہ پال کے ساتھ اس ایکٹ کے خلاف لوگوں کو متحد کر رہے تھے جن میں بیشتر کسان تھے۔ بلکہ پنجاب میں یہ پورا آندولن ہی کسانوں کے دم پر کھڑا تھا۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ اس دور میں گاندھی جی نے بھی خود کو کسان ہی بتایا تھا۔
ڈاکٹر کچلو کے مقدمے پر لاہور میں مارشل لا کمیشن کے سامنے گواہی چل رہی تھی۔ ممبئی کے چیف پریسیڈنسی مجسٹریٹ مسٹر ایسٹن کی عدالت میں گاندھی جی کو حاضر ہو کر گواہی دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ گاندھی جی 16 جون 1919 کو بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے۔ پیشے کے بارے میں پوچھے جانے پر گاندھی جی نے بتایا کہ وہ ایک کسان ہیں۔ مسٹر ایسٹن مسکرائے اور بولے- ’آپ کو بیرسٹر کے طور پر طلب کیا گیا ہے۔
گاندھی کی نے جواب میں کہا تھا کہ ’میں بیریسٹر تھا، لیکن آج کل ‘بیریسٹری نہیں کر رہا ہوں۔
دراصل 30 مارچ 1919 کو امرتسر میں رولٹ ایکٹ کی مخالفت میں زبردست ہڑتال ہوئی۔ اس دن ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا، جس میں 35 ہزار لوگ شریک تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے پرجوش تقریر کی۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے عوام سے گزارش کی کہ ان کی جدوجہد بالکل پرامن ہونی چاہیے۔ حالانکہ ان دنوں انگریزی سامراج کے خلاف بھر پور مظاہرے ہو رہے تھے۔ 4 اپریل کو ڈاکٹر کچلو پر جلسوں میں تقریر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ 6 اپریل کو ہڑتال کے دن ایک بڑے جلسے میں قریب 50 ہزار لوگ شامل ہوئے۔ اس کی صدارات بیرسٹر بدرالاسلام خان نے کی۔
9 اپریل کو رام نومی کا تہوار تھا۔ ایک بہت بڑا جلوس نکلا، جس میں تمام فرقے کے لوگ شامل تھے۔ یہ ڈاکٹر کچلو کا جادو ہی تھا کہ اس جلوس میں بیشتر آبادی مسلمانوں کی تھی۔ پوری فضا ’ڈاکٹر کچلو کی جئے‘ اور ’ڈاکٹر ستیہ پال کی جئے‘ کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ دوسرے دن ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو پنجاب کے گورنر نے اپنی کوٹھی پر آنے کی دعوت دی جب یہ دونوں وہاں پہنچے تو انہیں گرفتار کر کے دھرم شالہ بھیج دیا گیا جہاں یہ دونوں کئی دنوں تک نظر بند رہے۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور شہر میں ہڑتال کی گئی۔ ایک مجمع امرتسر کے خاص خاص راستوں سے ہوتا ہوا ریلوے اوور برج کے پاس پہنچا تو اسے فوجیوں کے ذریعے روکا گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ محض فریاد کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کے پاس جانا چاہتے ہیں، مگر حکام نے ان کی ایک نہ سنی اور اچانک گولیاں چلا دیں جس سے قریب دو درجن لوگ مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس حادثہ کے بعد 11 اپریل کو مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ اب جلوس نکالنا تو دور، گھر سے بغیر پاس کے نکلنے کی بھی آزادی نہیں رہی۔
اس کے باوجود ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری پر احتجاج کے مقصد سے 13اپریل کو ایک جلسہ جلیاں والا باغ میں منعقد ہوا۔ اس میں قریب 20ہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے۔ بیشتر آبادی کسانوں کی ہی تھی۔ جلسے میں ہر طرف ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی تصویریں نظر آ رہی تھیں۔ اس دن بیساکھ کا تہوار تھا۔ سورج ڈھلنے والا تھا، جلسے کے دوران ایک ہوائی جہاز باغ پر کم بلندی سے پرواز کرتا ہوا گزرا۔ وہیں دوسری طرف جنرل ڈائر اپنے سپاہیوں کے ساتھ پہنچ گیا اور بلا تاخیر گولیاں چلانے کا حکم دیا‘ پھر فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اگلے دس منٹ تک گولیاں چلتی رہیں۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں اور خون ہی خون تھا۔
ہنٹر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جلیاں والا باغ کے اس واقعہ میں 1650 گولیاں چلیں اور 379 لوگ اس میں ہلاک ہوئے، جن میں 337 مرد اور 41 بچے شامل تھے۔ حالانکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق اس حادثے میں ایک ہزار سے زائد لوگوں کی موت ہوئی، اور 4 تا 5 ہزار لوگ زخمی ہوئے۔ اس حادثے نے پورے ہندوستان کے عوام میں انگریزوں سے متعلق نفرت کا ماحول بنا دیا جس کے بعد ملک کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی تحریک میں شدت پیدا ہوئی۔
لاہور میں مارشل لا کمیشن کے سامنے چل رہی گواہیوں کے بعد ڈاکٹر کچلو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے پر گاندھی نے ینگ انڈیا کے 23 جولائی 1919 کے شمارے میں لکھا کہ حکومت نے ان کو گرفتار کرکے تشدد کو دعوت دی ہے۔ گاندھی نے ینگ انڈیا کے 3 ستمبر 1919 کے شمارے میں لکھا ہے کہ امرتسر میں جو بھی تشدد ہوا وہ ان افراد کی گرفتاری کے بعد ہوا۔ وہیں 7 ستمبر 1919 کے گجراتی نوجیون اخبار میں بھی گاندھی نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔گاندھی جی نے 20 ستمبر 1919ے ینگ انڈیا میں لکھا کہ میں ڈاکٹر کچلو، ڈاکٹر ستیہ پال اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے آندولن کروں گا۔ لاہور کے اس فیصلے کے خلاف لندن پریوی کونسل میں اپیل کی گئی۔ گاندھی جی نے بھی اس کے متعلق پنجاب کے لیفٹنیٹ گورنر کو کئی خطوط لکھے۔ دوسری جانب پورے پنجاب کے لوگوں نے حکومت پر اس قدر دباؤڈالا کہ حکومت کو 1919 کے آخر میں ان کو رہا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر سیف الدین کچلو 15جنوری 1888 کو پنجاب کے فرید کوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد عزیزالدین کچلو کشمیری مسلمان تھے لیکن پنجاب میں آ کر بس گئے تھے۔ ان کی والدہ کا نام جان بی بی تھا۔ ابتدائی تعلیم امرتسر کے اسلامیہ ہائی اسکول سے ہوئی، پھر آگے کی تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے، یہیں سے انہوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد لندن سے ہی بار ایٹ لا کی ڈگری لے کر جرمنی چلے گئے۔ 1912 میں جرمنی سے فلاسفی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے 1913میں ہندوستان لوٹ آئے۔ واپس لوٹنے کے بعد امرتسر میں وکالت کی پریکٹس شروع کی اور چند دنوں میں ہی پورے پنجاب میں مشہور ہو گئے۔
ڈاکٹر سیف الدین کچلو کے سیاسی کریئر کا آغاز ہوم رول موومنٹ سے ہوا۔ وہ 1919 میں امرتسر میونسپل کارپوریشن کے منتخب کمشنر بنے۔ سیف الدین کچلو پنجاب کانگریس کمیٹی کے پہلے صدر تھے، اس کے بعد دہلی کانگریس کمیٹی کے بھی صدر رہے ۔ وہ نوجوان بھارت سبھا کے فاؤنڈر ممبر تھے۔ نوجوان بھارت سبھا کو آج انڈین یوتھ کانگریس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ’تحریک تنظیم‘ نامی اپنی ایک آرگنائزیشن بھی بنائی اورامرتسر سے اردو روزنامہ ’تنظیم‘ اخبار بھی نکالا۔
خلافت تحریک اور تحریک عدم تعاون میں بھی پوری طرح سرگرم رہے اور کئی بار جیل گئے۔ 1921میں برطانوی حکومت کے خلاف سازش رچنے کے جرم میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان پر ہندوستانی عوام کو بھڑکانے کا مقدمہ چلا۔ وہ ان مسلم لیڈروں میں سے ایک ہیں جو تقسیم ہند کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ہندو مہاسبھا کی مخالفت کی۔ جنوری 1925میں امرتسر میں منعقد ’آل مسلم پارٹیز کانفرنس‘ میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے واضح طور پر کہا کہ پنجاب کے اندر ملک و قوم کی تحریک آزادی کو کچلنے کی ذمہ دار ہندو مہا سبھا ہے۔ اس کے ارکان قومیت پسند وطن کا ساتھ چھوڑ کر محض ہندو پرستی کی دھن میں لگ گئے ہیں۔ یہ جماعت ہر بات میں ہندو مسلم کا سوال پیدا کر دیتی ہے اور اس کا پروپیگنڈا یہاں تک کامیاب ہو چکا ہے کہ مقدمات میں ہندو قوم کے تعلیم یافتہ اشخاص، بیرسٹر، ڈاکٹر اور ممبران کونسل تک بھی جھوٹی شہادتیں دینے سے دریغ نہیں کرتے، تاکہ مسلمانوں کو من حیث القوم یا من حیث الفرد نقصان پہونچا کر اپنا دل خوش کرلیں۔ انہوں نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی کہا، ’میں اس جماعت کی مختلف النوع چالوں اور سرگرمیوں کا پول مسلسل سلسلہ مضامین میں کھول چکا ہوں، جو ’ہندو مہا سبھا کی حقیقت‘ کے عنوان سے اخبار ’تنظیم‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر سیف الدین کچلو اس کانفرنس میں مجلس استقبالیہ کے صدر تھے۔ اپنے خطبہ استقبالیہ میں مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’اس وقت ہمیں اپنی اندرونی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں داخلی افتراق ناگفتہ بہ ہے۔ ہر جماعت نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنا رکھی ہے۔۔۔ ایک طرف مساجد اپنی بے کسی اور بے بسی کی نوحہ خواں ہیں، تو دوسری جانب اوقاف کی حالت زار قوم کی بے توجہی کو آشکار کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے اوقاف کی طرف توجہ مبذول کرنا ہے تاکہ اس لاکھوں اور کروڑوں روپیہ کی آمدنی کو تعمیر ملت کے کارخیر میں صرف کریں جو ان اوقاف کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اور آجکل اوقاف کے متولیوں کی بد نظمی کے باعث سراسر ضائع جارہا ہے۔ اگر ہم اوقاف کی آمدنی کا خاطرخواہ انتظام کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو آج مسلمانوں کے تمام قومی کام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس وقت اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ مسلمان اپنی بکھری ہوئی طاقت کو ایک مرکز پر جمع کریں اور اپنے منتشر قوئے کو نقطہ ماسکہ پر لے آئیں، تاکہ قوم کی بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح ہوسکے اور مسلمانان ہندوستان قعرمزلت کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔
اب سیف الدین کچلو ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ 9 اکتوبر 1963 کو 75 سال کی عمر میں دہلی میں آپ نے اپنی آخری سانس لی اور اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر چلے گئے۔ لیکن کاش! ہندوستان کے مسلمان سیف الدین کچلو کے کام اور ان کے اس اہم ترین اپیل کو آج بھی سمجھ پاتے۔
***
ڈاکٹر سیف الدین کچلو خلافت تحریک اور تحریک عدم تعاون میں بھی پوری طرح سرگرم رہے اور کئی بار جیل گئے۔ 1921میں برطانوی حکومت کے خلاف سازش رچنے کے جرم میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان پر ہندوستانی عوام کو بھڑکانے کا مقدمہ چلا۔ وہ ان مسلم لیڈروں میں سے ایک ہیں جو تقسیم ہند کے سخت خلاف تھے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021