سابق امریکی آرتھوڈیکس پادری ہلاریون ہیگی مشرف بہ اسلام
20 سالہ ذہنی کشمکش کے بعد فیصلہ۔ نومسلم سعید عبداللطیف کے متاثرکن تاثرات
ابو حرم ابن ایاز شاہ پوری
امریکہ کے کیلیفورنیا میں مقیم ایک ممتاز پادری ہلاریون ہیگی نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام تبدیل کرکے سعید عبداللطیف رکھ لیا ہے۔ہلاریون ہیگی ایک امریکی پادری جو پہلے روسی آرتھوڈوکس راہب تھے اور اپنے پیروکاروں میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔انہوں نے سال 2003 کے آس پاس انٹیوشین آرتھوڈوکس چرچ میں شمولیت اختیار کی تھی اور حال ہی میں کیلیفورنیا کے اندر ایک مشرقی کرسچن خانقاہ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن قبل اس کے کہ اسے عملی جامہ پہناتے خالق حقیقی نے انہیں عظیم نعمت سے سرفراز فرما دیا۔ پچھلے دنوں ہلاریون ہیگی نے اپنے اسلام کے سفر کے بارے میں ایک بلاگ پوسٹ میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا اسلام قبول کرنا ایسا ہی ہے جیسا کوئی انسان اپنے گھر کو واپس لوٹ رہا ہے‘ عبداللطیف کا اسلام کی طرف واپسی کا یہ سفر نہایت ہی طویل اور صبر آزما ہے کیونکہ ان کے ایک بیان کے مطابق تقریباً بیس سال قبل ہی وہ دین اسلام کی خوبیوں اور اس کی حقانیت سے واقف ہو گئے تھے لیکن ان کے سامنے کئی سارے مسائل تھے جن کے سبب وہ علی الاعلان کلمہ شہادت کا اقرار نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی صرف عوامی طور پر پادری اور نجی طور پر مسلمان نہیں رہ سکتا۔‘‘ یعنی انہوں نے اس دوہری شناخت کے کرب کو بھی محسوس کیا اور بلآخر پچھلے دنوں علی الاعلان مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
مذہب اسلام کو فطری دین قرار دیتے ہوئے عبد اللطیف نے کہا کہ واقعی دین اسلام ایک سچا اور حقیقی مذہب ہے بلکہ انسانیت کا مذہبِ اولین ہے کیونکہ قرآن کے مطابق اس روئے زمین پر حضرت محمد ﷺ کے تشریف لانے سے قبل ساری بنی نوع انسان مسلمان ہی تھی۔ اسی طرح انہوں نے ایک پوسٹ میں ’’عہد الست‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک وقت وہ تھا کہ جب آسمانوں پر ہم سب نے (یعنی سارے انسانوں نے) اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا اور دلیل کے طور پر قرآن سے سورہ اعراف کی آیت نمبر 172پیش کی:وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور جب تیرے رب نے آدم کے بیٹوں کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا تھا (یعنی بروز میثاق) اور ان کی جانوں پر انہیں گواہ کیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ بولے تھے، ہاں ہے ہم گواہ ہیں، یہ گواہی اس لیے ہم نے لی کہ تم بروز قیامت نہ کہو ’کہ ہم اس سے بے خبر تھے‘
عبداللطیف کا کہنا ہے کہ قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کی جانب سے جس گرمجوشی سے میرا استقبال کیا گیا، میری مہمان نوازی کی گئی، میری ہمت افزائی کی گئی اور مبارکبادیاں دی گئیں وہ میرے وہم و گمان سے بھی باہر تھا ہر کسی کا فون آرہا ہے، کئی میسجس آرہے ہیں ،مستقل طور پر پُرخلوص اور دلی پیامات موصول ہو رہے ہیں۔ وہ ایک پوسٹ میں کہتے ہیں کہ ’’جب سے میرے اسلام قبول کرنے کی خبر سرکاری طور پر منظر عام پر آئی ہے، میرا ’ان باکس‘ پیغامات کی وجہ سے مکمل طور پر جام ہو گیا ہے اور میرا فون مسلسل بجتا جا رہا ہے۔‘‘ پیغامات اور مبارکبادی کے ساتھ ساتھ ان سوالات بھی کیے جا رہے ہیں کہ آخر انہوں نے سابقہ مذہب کیوں تبدیل کیا؟ قبول اسلام کی وجہ کیا ہے وغیرہ۔
عبداللطیف فطری طور پر اب اپنی مستقبل کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے سلسلے میں بھی فکر مند ہیں لیکن دین اسلام کی قبولیت کی وجہ سے انہیں جو اعتماد اور سکون و مسرت حاصل ہوئی ہے اس کا تذکرہ انہوں نے ایک پوسٹ میں کیا کہ ’’مستقبل میرے لیے یقیناً غیر یقینی ہے۔ جب آپ اندھیرے میں چھلانگ لگاتے ہیں تو ہمیشہ خوف رہتا ہے۔ مگر مجھے ایسا سکون محسوس ہو رہا ہے،ایسی خوشی اور راحت محسوس ہورہی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
ان تمام حالات کے باوجود بھی عبداللطیف دین اسلام کو مزید سمجھنے، اس کی دیگر تعلیمات کو سیکھنے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بیس سالوں کی کشمکش بالآخر مجھے گھر لے آئی۔ اب ایمان کی گہرائی میں داخل ہونے کا کام شروع ہوتا ہے۔ ایک حقیقی تعلیم، دین سے محبت، امت مسلمہ سے محبت اور نبی کریم ﷺ سے محبت کا پاکیزہ سفر شروع ہوتا ہے‘‘
دین اسلام نہ تو کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی اس پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ایک ایسی نعمت ہے وہ جسے چاہتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
عبداللطیف کے اس قبول اسلام کے واقعے میں کئی سارے پیغامات ہیں۔ ان میں سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ ایک انسان کسی مذہب کے معزز ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود صرف اللہ کی خاطر سب کچھ قربان کر کے اسلام قبول کرلیتا ہے تو ہم پیدائشی مسلمانوں کو اسلام کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے؟ اسلام ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں سے قربانیاں مانگتا ہے، مال کی قربانی، جان کی قربانی، وقت کی قربانی، جذبات کی قربانی اور نفسانی خواہشات کی قربانی تاکہ انسان اپنا سب کچھ اللہ کی رضا کے مطابق بنا لے اور اسی کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں اسلام کا پاسبان بن جائے۔ لہذا ہر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس پیغام کو سمجھیں اور اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق گزارنے کی کوشش کریں اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں اور مصائب پر صبر کریں۔ یقیناً اس کا بہترین بدلہ اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔
***
***
عبداللطیف کے اس قبول اسلام کے واقعے میں کئی سارے پیغامات ہیں۔ ان میں سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ ایک انسان کسی مذہب کے معزز ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود صرف اللہ کی خاطر سب کچھ قربان کر کے اسلام قبول کرلیتا ہے تو ہم پیدائشی مسلمانوں کو اسلام کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے؟ اسلام ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں سے قربانیاں مانگتا ہے، مال کی قربانی، جان کی قربانی، وقت کی قربانی، جذبات کی قربانی اور نفسانی خواہشات کی قربانی تاکہ انسان اپنا سب کچھ اللہ کی رضا کے مطابق بنا لے اور اسی کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں اسلام کا پاسبان بن جائے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس پیغام کو سمجھیں اور اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق گزارنے کی کوشش کریں اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں اور مصائب پر صبر کریں۔ یقیناً اس کا بہترین بدلہ اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023