آر ایس ایس چیف کی مسلمانوں سے ملاقاتیں
انتظار نعیم، دلی
آر ایس ایس کی معروف مرکزی شخصیت اور 2004میں تنظیم کے نوجوان ترجمان نے مسٹر رام مادھو نے انگریزی روزنامہ ایشین ایج (AsianAge)کے دلی ایڈیشن کی 14فروری کی اشاعت میں کہا تھا کہ آر ایس ایس اور جماعت اسلامی ہند کے درمیان ایمرجنسی کے زمانہ سے ہی تعلقات ہیں، نیز جماعت اسلامی کے قائدین کو گرفتار کیا گیا تھا تو انہیں جیل میں ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع ملے۔ (مسٹر رام مادھو نے اپنی گفتگو میں غلطی سے جماعت اسلامی ہند کہنے کے بجائے جمیعۃ علما ہند کہہ دیا تھا، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ایمرجنسی میں پابندی جماعت اسلامی ہند پر لگی تھی اور اسی کے ذمے داران و وابستگان حوالہ زنداں کیے گئے تھے اور اسی کے افراد کو جیل میں برادران وطن کی مختلف پارٹیوں کے قائدین و وابستگان سے ملنے جلنے، ایک دوسرے کو سمجھنے اور تبادلہ خیالات کے مواقع ملتے تھے)۔ جناب رام مادھو نے لوگوں کو ان دنوں کی یاد دلائی تھی (جب ایمرجنسی کے بعد) اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ بالا صاحب دیورس نے مختلف مساجد میں تقریبات میں شرکت کی تھی۔ رام مادھو نے اس پر اظہار افسوس کیا تھا کہ کس طرح دونوں برادریوں کے درمیان تعلقات متاثر ہوگئے!
واقعہ یہ تھا کہ آر ایس ایس کے ترجمان نے ایک اہم تاریخی حقیقت کا اظہار کیا تھا جس سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی تھی کہ ایمرجنسی کی 22 مہینوں کےجیل کے ایام میں مختلف اقوام کے درمیان محبت و یگانگت کی ملک کی دیرینہ روایت کو فروغ دینے کا عظیم کام انجام پایا تھا۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’ایمرجنسی کی آزمائش اور جماعت اسلامی ہند‘‘ میں تعلقات کی اس خوش گوار استواری کا تذکرہ جگہ جگہ کیا ہے۔ بعض واقعات کا ذکر میں نے اپنی خود نوشت ’’اجالوں میں سفر‘‘ میں بھی کیا ہے۔
برادران وطن بالخصوص آر ایس ایس اور جن سنگھ کے حضرات سے جماعت کے لوگوں نے پورے ملک کی جیلوں میں بے لوث روابط قائم کیے۔ ایمرجنسی میں آر ایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے رفقا بھی تھے۔ کچھ ہی دن ساتھ گزرے تھے کہ رفقائے جماعت کے اسلامی کردار اور آزمائش میں استقامت کے رویہ نے آر ایس ایس کے حضرات کو ان کے تئیں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی طرف مائل کیا۔ خود تنظیم کے سربراہ کا پونا جیل میں یہ عالم تھا کہ شولا پور کے رکن جماعت جناب مصطفی خاں، بھساول کے رکن جماعت جناب غلام رسول دیشمکھ اور بھیونڈی کے رکن جماعت محمد حسین اسلمی صاحب کو ساتھ لیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ یہی کیفیت دلی، انبالہ، بنگلور اور پٹنہ وغیرہ پورے ملک کی جیلوں میں تھی۔ ایمرجنسی کے بعد بھی کچھ مدت تک یہ کیفیت باقی رہی۔ آر ایس ایس کے چیف ملک کے کئی مقامات پر جماعت اسلامی ہند کے پروگراموں میں شریک ہوتے رہے اور آر ایس ایس کے پروگراموں میں جماعت کے احباب کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی رہی۔ چنانچہ ایمرجنسی کے خاتمے پر دیورس صاحب کی دلی آمد تھی تو ان کے دلی آفس سے مرکز جماعت کو اس کی خبر کی گئی، لہذا جماعت کے سکریٹری جنرل (قیم) محترم افضل حسین صاحب اور میں نے نئی دلی ریلوے اسٹیشن پر گلدستے کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔
آر ایس ایس کے ہفتہ وار ہندی ترجمان ’پانچ جنیہ‘ کے ایڈیٹر دینا ناتھ مشرا جی سے ایمرجنسی کے قبل ہی سے راقم الحروف کے روابط تھے۔ دلی کی تہاڑ جیل میں ساتھ رہنے کے دوران یہ تعلق مزید گہرا ہوگیا اور ایمرجنسی کے بعد بھی قائم رہا۔
سدرشن جی کے آر ایس ایس کا سربراہ بنائے جانے سے قبل راقم الحروف نے ان کے دلی آفس میں موصوف سے ملاقات اور گفتگو کی تھی اور کتابوں کا تحفہ پیش کیا تھا۔ جب وہ تنظیم کے سربراہ بنائے گئے تو جماعت اسلامی ہند کے امیر ڈاکٹر عبدالحق انصاری نے ایک ڈیلی گیشن کے ساتھ ان سے دلی میں ملاقات اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات فرمایا تھا لیکن افسوس کہ کچھ دنوں بعد باہمی روابط و تعلقات میں سرد مہری آتی گئی۔ اور ملنے جلنے کے سلسلے میں گرمی باقی نہ رہی۔
غالباً آر ایس ایس نے بھی مسلمانوں سے فاصلہ بنائے رکھنےکی اس کیفیت کو اپنے مقصداور طریقہ کار سے زیادہ قریب سمجھا ہوگا۔ لہذا اس کے اخبارات و رسائل اور تنظیم کے ذمہ داران و وابستگان اور اس کی فکر کے حامل دیگر افراد قربتوں کو فراموش کرکے نفرت و عداوت کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ ملک میں رتھ یاترا چلاکر دہشت گردی کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا۔ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عظیم الشان شاہی عیدگاہ مسجد پر خوں آلود نظریں مرکوز ہیں۔ بدایوں کی قدیم جامع مسجد کا بھی سروے کرانے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ ملاح برادری کے ایک ریاستی وزیر نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو مساجد مندروں کے آس پاس ہیں مسلمانوں کو انہیں وہاں سے ہٹالینا چاہیے۔ کورونا کے تکلیف دہ دور میں دلی میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز کو کووڈ کے فروغ کا ذمہ دار قرار دے کراس پر یلغار کرکے اسے ویران کردیا گیا امیر تبلیغ کی عزت و توقیر کا کوئی پاس و لحاظ کیے بغیر ان کے آبائی وطن کے مکان تک پر خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ چھاپا مارا گیا۔ پارک میدان یا کسی کھلی جگہ پر سکون طریقے پر کبھی چند منٹ میں کسی مسلمان کے نماز پڑھ لینے کا ’’جرم‘‘ ناقابل برداشت ہوجارہا ہے۔ اللہ کے گھروں یعنی مسجدوں سے ہر روز پانچ بار انسانوں کو فلاح و بہبود کی جانب بلانے والی اذان کی روح پرور صداؤں پر بھی کچھ لوگوں نے ناگواری بلکہ بیزاری کے اظہار سے ملک کی مذہبی رواداری کی فضا کو زہر آلود کرنے سے گریز نہیں کیا۔
اسلام اور مسلمانوں اور رسول رحمتؐ کے خلاف مسلسل زہر فشانی کرنے والے ایک صاحب نے تو نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو بم سے اڑادینے کی تجویز پیش کردی۔
گزشتہ چند برسوں سے مسلمانوں کو ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) کی اذیت ناکی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گو رکشا کے نام پر مسلم کشی، ہورہی ہے۔ دہشت کے فرضی واقعات میں غلط اور غیر قانونی طور پر مسلمانوں، بالخصوص مسلم نوجوانوں کو ملوث کرکے ان کی گرفتاریوں اور جیلوں میں ٹھونس دینے کا سلسلہ بھی تھم نہیں رہا ہے۔
تین طلاق جیسے خالص دینی و شرعی مسئلے میں بھی اہل اقتدار کی مداخلت کو بہت ضروری سمجھا گیا۔ اسی طرح کامن سول کوڈ کی ترتیب و نفاذ کا ماحول بنانے کی کوشش، دراصل شہریوں کی اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کو سلب کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
چند آیات کو بہانہ بناکر کتاب خدا وندی قرآن کریم کو نشانہ طنز و تنقید بنایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ ذات گرامی کو داغ دار کرنے کی جسارت کی گئی۔ حجاب سے متعلق حکم الہی سے ملک کو بد زن کرنے کی بد نما کوششیں ہورہی ہے۔ ایک صدی قبل مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیے گئے اپنے تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی کے اقلیتی کردار کے خلاف ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں۔ مدارس پر شب خون مارا جارہا ہے اور انہیں بلڈوز کیا جارہا ہے۔ اللہ کی رضا اور اس کی خوش نودی کے لیے مسلمانوں کے ذریعہ نیک اور پاکیزہ مقاصد کی خاطر اپنی ذاتی جائیدادوں سے قائم کیے ہوئے اوقاف، سرکاروں اور ان کے حوارین کو کھٹکنے لگے ہیں، جب کہ آزادی کے بعد سے ہی انہیں تباہ و برباد کرنے کی کم تدبیریں نہیں کی گئی ہیں۔ ملک کی حکمرانی میں برابر کا استحقاق رکھنے والی امت مسلمہ کو اس کا سیاسی حق تو کیا دیا جاتا، اس کی شمولیت کے بغیرہی سیاسی بساط بچھانے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اردو زبان و ادب ہندوستان کی رعنائی و دل کشی کا خوب صورت مظہر ہے، لیکن لسانی تعصب کے گرفتار شدگان اس کے وجود ہی کو مٹانے کی صورتیں تلاش کرتے رہتے ہیں!
مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مسلمانوں کے امت واحدہ ہونے کا تصور بھی بعض لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہورہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی صفوں اور اجتماعیت کی ورن آشرم کی بنیاد پر مضبوط تفریق و تقسیم پر غور و فکر کی ضرورت محسوس کرتے مسلمانوں کے ایک امت ہونے کے عقیدہ پر سنگھ رہنما رام مادھو نے اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اپنے ایک امت ہونے کے تصور سے گویا دست بردار ہونے کا مشورہ دیا تھا۔
اسی دوران یہ ستم بھی ہوا کہ 2002میں گجرات میں ہونے والے بھیانک مسلم کش فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ انسانیت سوز شیطانی سلوک کرنے والے اور اس کے خاندان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر رویہ اختیار کرنے والے عمر قید کے مجرمین کو گجرات سرکار نے رہا کردیا تو یہ مزید ظلم ہوا کہ ان مجرمین کو سنسکاری براہمن قرار دیا گیا، ان کا اجتماعی استقبال کیا گیا اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے! شاید یہ سب بھی برہمنی سنسکار ہوگا۔
اس سے چند مہینے قبل الہ آباد (پریاگ راج) میں ایک معزز مسلم خاتون کے ساتھ اترپردیش سرکار نے یہ ظلم کیا کہ ان کی ملکیت کے ذاتی دو منزلہ نئے خوبصورت مکان کو بلڈوز کرکے خاک میں ملادیا تھا۔ جرم یہ تھا کہ خاتون کے شوہر جاوید محمد شہر کے محترم، شریف اور انتہائی نیک انسان ہیں ۔ پولیس نے جعلی، جھوٹے اور فرضی الزامات میں گرفتار کرکے ان کو قید کر رکھا ہے۔ مسلمانوں پر 75سال سے پاکستان نوازی کا الزام لگاتے ہوئے کچھ لوگ اب تک تھکتے نہیں ہیں۔
ملک میں مسلسل جاری مسلم مخالف کارروائیاں ، اسلام بیزار ماحول سازی اور 20کروڑ کی مسلم آبادی کے دستوری حقوق کو نظر انداز کرنے کے خفیہ و علانیہ اقدامات کے سبب امت میں کبھی مایوسی و اضطراب اور کبھی خفگی و غصہ کا ابھرنا اور کبھی کبھی دستوری حدود میں ان کے اظہار کو شاید آر ایس ایس چیف جناب بھاگوت نے بھی محسوس کیا ہوگا اور غالباً اسی لیے انہوں نے یہ بیان دیا کہ ہر مسجد کے نیچے شیو لنگ تلاش کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے بعد کے قدم کے طور پر موصوف نے مسلمانوں سے ربط و ملاقات اور تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے پس منظرمیں آر ایس ایس کا کچھ پہلے ہی سے جاری اس کے بزرگ رہنما اندریش کمار کی اپنے فورم ’بھارتیہ مسلم منچ‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو آر ایس ایس سے قریب کرنے کی کوشش بھی ہیں۔ اس کا فائدہ، بھی ہورہا ہے۔ بھاگوت جی اپنی ملاقاتوں کے تسلسل میں جب نئی دلی کی ایک مسجد کے امام عمیر الیاسی صاحب سے ملے تو انہوں نے آر ایس ایس چیف کو ’راشٹر پتا‘ کا خطاب دے کر اپنا مقام بلند کیا اور یہ بھی فرمایا کہ وہ (بھاگوت صاحب) جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں!
شاید دلی کے پرانے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایمرجنسی کے سیاہ دور (1975-77) میں عمر الیاسی صاحب کے والد جمیل الیاسی صاحب وزیراعظم اندرا گاندھی کی قصیدہ خوانی اور ان کے اقبال کی بلندی کی دعائیں کرتے تھکتے نہیں تھے، یعنی بیٹے کو باپ کی اہل اقتدار سے قریب رہنے کی روش ٹھیک ٹھیک یاد ہے۔
بہرحال بھاگوت جی کی مسلمانوں سے ملاقاتوں کی یاد چاہے جن مقاصد اور جن وجوہ سے بھی آئی ہو یہ ملک کی مکدر بنائی جارہی فضا اور بیرون ملک بگڑتی ہوئی اس کی تصویر کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ ملنے جلنے کے پس پشت جذبہ اخلاص کی کار فرمائی ہو۔ آر ایس ایس چیف کی مسلمانوں سے ملاقات کے موقع پر ہی ناگپور میں ان کی تنظیم کے ہیڈ کوارٹرس سے متصل ایک تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے کیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس میں ’’گھر واپسی ‘‘ کے موضوع پر بھی مشاورت ہوئی۔
بھاگوت صاحب کی مسلمانوں سے ملاقات جاری ہی تھی اور میڈیا میں اس کا تذکرہ ہورہا تھا کہ ان کے اس اقدام کی بی جے پی او راس کی مرکزی سرکار کے ذریعہ حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اچانک مسلمانوں کی ایک عظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے گیارہ ریاستوں میں دفاتر میں سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ چھاپے مارے گئے اور اس کے قائدین و کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد حکومت کے ذریعہ تنظیم پر پانچ سال کے لیے پابندی لگادی گئی۔ ایک طرف آر ایس ایس سربراہ کی مسلمانوں سے ملاقات کا آغاز اور اسی موقع پر حکومت کے ذریعہ مسلمانوں ہی کی ایک پارٹی پر سرکاری یلغار کے پس پردہ کیا عوامل پوشیدہ ہیں یہ غور و فکر کا موضوع ہے۔
جہاں تک آر ایس ایس کے سربراہ کی مسلمانوں سے ملاقات کی بات ہے وہ بہرحال وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کی تنظیم کی فکر کے حامل میڈیا اور اس کے بہت سے مصنفین و قائدین نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سماج میں غلط و بے بنیاد باتیں عام کرکے نفرت و تعصب کی جو دیواریں کھڑی کی ہیں ان کا گرایا جانا نئے ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کام بھاگوت صاحب نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ ظفر گورکھپوری نے کیا سچی بات کہی ہے؎
پہلے تو تم نے ہی ہم کو دیوانہ مشہور کیا
اب جو ہمارے سر پر پتھر برسے تو گھبرائے کیوں
***
***
برادران وطن بالخصوص آر ایس ایس اور جن سنگھ کے حضرات سے جماعت کے لوگوں نے پورے ملک کی جیلوں میں بے لوث روابط قائم کیے۔ ایمرجنسی میں آر ایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے رفقا بھی تھے۔ کچھ ہی دن ساتھ گزرے تھے کہ رفقائے جماعت کے اسلامی کردار اور آزمائش میں استقامت کے رویہ نے آر ایس ایس کے حضرات کو ان کے تئیں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی طرف مائل کیا۔ خود تنظیم کے سربراہ کا پونا جیل میں یہ عالم تھا کہ شولا پور کے رکن جماعت جناب مصطفی خاں، بھساول کے رکن جماعت جناب غلام رسول دیشمکھ اور بھیونڈی کے رکن جماعت محمد حسین اسلمی صاحب کو ساتھ لیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022