آر ایس ایس کو ترنگا کیوں نہیں بھایا؟
افروز عالم ساحل
جس آر ایس ایس نے کبھی ’ترنگا‘ کو قومی پرچم بنائے جانے کی مخالفت کی تھی، آج اسی کی آئیڈیولوجی سے وابستہ لوگ ترنگے کا سہارا لے کر نہ صرف ملک میں نفرت کا ماحول بنارہے ہیں، بلکہ حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ بھی بانٹ رہے ہیں۔
’راشٹریہ آندولن فرنٹ‘ کے کنوینر سوربھ باجپئی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ دیش بھکتی ناپنے کا جو پیمانہ اس وقت کی موجودہ حکومت یا آر ایس ایس نے تیار کیا ہے، اس پر وہ خود ہی کھڑے نہیں اترتے۔ یہ وہی آر ایس ایس ہے، جس کے ناگپور کے ریشمی باغ میں واقع ہیڈ کواٹر پر سال 2001 میں 26 جنوری کو دن بابا مینڈھے، رمیش کلمبے اور دلیپ چٹوانی نامی تین لوگوں نے قومی پرچم ’ترنگا‘ لہرانے کی کوشش کی تو انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ 12 سال تک یہ تینوں نوجوان آر ایس ایس کے نشانے پر رہے۔ پورے 12 سال بعد ناگپور کی ایک نچلی عدالت نے انہیں اگست 2013 میں باعزت بری کیا۔ ’راشٹر پریمی یوا دل‘ کے یہ تینوں نوجوان دراصل اس بات سے ناراض تھے کہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ جیسے مواقع پر بھی کبھی آر ایس ایس کے دفاتر میں ترنگا نہیں لہرایا جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ 2001 میں ہوئے اس حادثے کے بعد جبکہ معاملہ عدالت میں تھا، آر ایس ایس نے 2002 سے اپنے ہیڈکواٹر پر جھنڈا لہرانا شروع کیا، کیونکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہوگیا تھا کہ ترنگا نہ لہرائے جانے پر عدالت سے ان کو پھٹکار لگ سکتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا سال 2002 کے پہلے آر ایس ایس دیش بھکت تنظیم نہیں تھی۔ اس کا جواب نفی ہی میں ہے کیونکہ آر ایس ایس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ کبھی بھی دیش بھکت نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے سہارے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کرتی رہی ہے، جن میں وہ سال 2014 میں پوری طرح سے کامیاب بھی ہوگئی۔ لیکن انہوں نے قومی پرچم ’ترنگا‘ کو ہمیشہ مجبوری میں ہی تھاما ہے۔
تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ سن 1950 میں جب گاندھی جی کے قتل میں ملوث ہونے پر سنگھ پر عائد پابندی اٹھانے سے قبل سردار پٹیل نے گولوالکر کو ترنگے کو قومی پرچم ماننے پر مجبور کیا تھا۔ تب گولوالکر نے مجبوری کے تحت اسے یوم آزادی کے دن لہرایا تھا، لیکن جب یہ مجبوری ختم ہوگئی تو وہ دوبارہ اپنے پرانے راستے پر آگئے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوتوا آئیڈیولوجی کو ماننے والے تمام لیڈر ہمیشہ قومی پرچم ’ترنگے‘ کے خلاف رہے ہیں۔
آر ایس ایس اس قومی پرچم کے خلاف تھی
دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے اور نکڑ ناٹک تحریک کے سربراہ شمس الاسلام اپنی کتاب ’آر ایس ایس کو پہچانیں‘ میں ایم ایس گولوالکر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کی حیثیت سے 14 جولائی 1946 کو ’گرو پورنیما‘ کے موقع پر ناگپور کے ایک جلسے میں صاف طور پر کہا کہ ’صرف بھگوا جھنڈا ہی مجموعی طور پر عظیم ہندوستانی تہذیب کی علامت ہے۔‘ گولوالکر نے یہ بھی اعلان کیا کہ ’ہماری عظیم تہذیب کا مکمل تعارف دینے والی علامت ہمارا بھگوا جھنڈا ہے جو ہمارے لیے بھگوان کی طرح ہے۔۔۔‘
آزادی کے بعد جب ترنگا قومی پرچم بن گیا تب بھی آر ایس ایس نے اس کو اپنانے سے صاف انکار کیا۔ گولوالکر نے قومی جھنڈے کے موضوع پر اپنے مضمون ’پتن ہی پتن‘ میں لکھا: ’ہمارے لیڈروں نے ہمارے ملک کےلیے ایک نیا جھنڈا تجویز کیا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تباہی کی طرف بہنے اور نقلچی پن کا واضح ثبوت ہے۔‘
یہی نہیں آر ایس ایس نے 14 اگست 1947 کو اپنے انگریزی ترجمان اخبار ’آرگنائزر‘ میں قومی پرچم پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’جو لوگ قسمت کی چال سے حکمراں بن بیٹھے ہیں وہ بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگے کو تھما دیں، لیکن ہندو اسے نہ کبھی اپنائیں گے اور نہ کبھی اس کی عزت کریں گے۔۔۔‘ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ترنگے کی عزت کبھی نہیں کی۔ 1950 سے پورے 52 سال تک یہ ہر یوم جمہوریہ اور یوم آزادی میں ترنگے کو درکنار کر بھگوا جھنڈا ہی پھہراتے رہے ہیں، لیکن 2002 میں جب مجبوری بنی اور جب دیکھا کہ اب لوگ اس پر سوال کرنے لگے ہیں تب جاکر انہوں نے ترنگے کو مجوری میں اپنایا ہے۔
گاندھی نے مندروں پر ترنگا لہرانے سے منع کیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کے وقت جو ہندتوا وادی قومی پرچم کی مخالفت کر رہے تھے انہوں نے آزادی کے پہلے ملک میں ہندو مسلمان فساد کرانے میں چرخا بنا ہوا قومی پرچم کا ہی استعمال کیا۔ یہ بالکل ٹھیک ویسے ہی تھا جیسے آج ترنگے کے نام پر ملک کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔
مہاتما گاندھی قومی پرچم کے مندروں میں یا مذہبی استعمال کے سخت خلاف تھے۔ گاندھی نے اپنی زندگی میں کئی ایسے مضامین اور خطوط لکھے جس میں ہندتواوادی نیتاؤں کو قومی پرچم کے غلط استعمال کے لیے پھٹکار لگائی گئی۔
گاندھی جی نے 29 مئی 1941 کو ریاست میسور کے شموگا کے ہندو مہاسبھا کے وزیر کو ایک خط میں لکھا۔ ’میں جانتا ہوں کہ گنپتی اتسو کے جلوسوں میں قومی جھنڈے کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مندروں پر قومی پرچم لہرایا جارہا ہے، یہ غلط ہے۔ کانگریس ایک قومی ادارہ ہے اس کے دروازے ذات پات اور مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ کانگریس کو ہندو مذاہب کے تہواروں سے اتنا ہی کم یا زیادہ مطلب ہے، جتنا کہ کسی دوسرے مذاہب کے تہواروں سے۔
گاندھی جی نے اس سے پہلے 5 نومبر 1938 کو ہریجن میں اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا تھا – "قومی پرچم اور اس کی موجودہ تخلیق کی اصل تخیل کے باپ کی حیثیت سے مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور لوگ اپنے پُرتشدد رجحانات کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں قومی جھنڈا عدم تشدد کی علامت ہے، اس کے ساتھ شائستگی بھی جڑی ہونی چاہئے۔”