آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم نے قبائلی برادریوں کو UCC کے دائرے سے باہر رکھنے کے سشیل کمار مودی کے موقف کی حمایت کی
نئی دہلی، جولائی 9: اکھل بھارتیہ ونواسی کلیان آشرم، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے قبائلی ونگ نے ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سشیل کمار مودی کے قبائلیوں کو یکساں سول کوڈ سے باہر رکھنے کے موقف کا خیرمقدم کیا۔
یکساں سول کوڈ میں تمام ہندوستانیوں کے لیے شادی، طلاق، جانشینی اور گود لینے کے قوانین کا ایک مشترکہ مجموعہ شامل ہے۔ فی الحال مختلف مذہبی کمیونٹیز پرسنل لاء کے ان کے اپنے ضابطوں سے چلتی ہیں۔
بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کی یکسانیت کا مقصد خاص طور پر خواتین کے لیے مساوات اور انصاف کو یقینی بنانا ہے، جنھیں اکثر پدرانہ ذاتی قوانین کے تحت شادی، طلاق اور وراثت میں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
14 جون کو لاء کمیشن نے اس معاملے پر شہریوں اور مذہبی گروہوں سے رائے طلب کی تھی۔ دو ہفتوں سے بھی کم وقت کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان کو ایک یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک ’’الگ الگ برادریوں کے لیے الگ الگ قوانین‘‘ کے دوہرے نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
ایک بیان میں اکھل بھارتیہ ونواسی کلیان آشرم نے ہفتہ کو اس قانون پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ سشیل کمار مودی کی حمایت کی۔
گذشتہ ہفتے لاء کمیشن کے ارکان اور پارلیمانی کمیٹی کے ساتھیوں کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران سشیل مودی نے مبینہ طور پر ایک یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کی فزیبلٹی پر سوال اٹھایا کیوں کہ شمال مشرقی اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں قبائلی آبادی کے رسم و رواج دوسری برادریوں سے مختلف ہیں۔
قبائلی باڈی کے نائب صدر ستیندر سنگھ نے بھی لاء کمیشن پر زور دیا کہ وہ قبائلی علاقوں کا دورہ کرے اور ملک میں یکساں سول کوڈ پر حکومت کو کوئی بھی رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ان کے خیالات کو سمجھنے کے لیے لوگوں سے ملاقات کرے۔
آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم نے کہا کہ پینل کو جلد بازی میں اس معاملے پر اپنی رپورٹ پیش نہیں کرنی چاہیے۔ ’’کلیان آشرم کا خیال ہے کہ شادی، طلاق، گود لینے اور جانشینی جیسے مسائل کے سلسلے میں قبائلی معاشرے کے روایتی نظام کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے بارے میں سوشل میڈیا پر گمراہ کن اور غیر ضروری گفتگو عوام کو الجھا رہی ہے۔
تنظیم نے کہا ’’ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔ اگر قبائلی معاشرے کے لوگ اور ان کی تنظیمیں محسوس کرتی ہیں کہ یو سی سی کی وجہ سے ان کے روایتی طریقوں اور نظام پر کوئی منفی اثر پڑے گا، تو انھیں اپنے خدشات براہ راست لاء کمیشن کے سامنے رکھنے چاہئیں۔‘‘
قبائلی ادارے نے کہا کہ وہ اپنی تجاویز یا رائے تب دے گی جب یکساں سول کوڈ بل پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔
دریں اثنا اتوار کو نیشنل پیپلز پارٹی کی اروناچل پردیش یونٹ نے ریاست میں یکساں سول کوڈ کے فوری نفاذ کی مخالفت کی۔ پارٹی کے ریاستی ورکنگ صدر نے کہا ’’اگرچہ NPP ترقیاتی مسائل پر بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں ہے، لیکن علاقائی پارٹی اپنے نظریے کی پیروی کرتی ہے۔‘‘
نیشنل پیپلز پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری پاکنگا بیگ نے کہا کہ چوں کہ اروناچل پردیش کے اپنے منفرد قوانین ہیں، اس لیے اس تنظیم نے متفقہ طور پر ایک یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی قرارداد منظور کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’ریاست اور مرکزی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ موجودہ روایتی قوانین کو قبائلی طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ترامیم کے ساتھ وضع کرنے پر توجہ دیں۔‘‘