’’احتجاج کا حق کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ نہیں ہو سکتا‘‘: سپریم کورٹ نے شاہین باغ احتجاج سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کی درخواست مسترد کردی
نئی دہلی، فروری 13: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق آج سپریم کورٹ نے شاہین باغ احتجاج سے متعلق اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کردیا اور اس موقف کا اعادہ کیا کہ دوسروں کے حقوق کو متاثر کرنے والے عوامی مقامات پر مسلسل طویل وقت تک احتجاج کرنا قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
جسٹس سنجے کشن کول، انیرودھ بوس اور کرشنا مراری پر مشتمل بنچ نے کہا ’’آئینی اسکیم احتجاج اور اظہار رائے کے حق کے ساتھ آتی ہے لیکن کچھ فرائض اور پابندیوں کے ساتھ۔احتجاج کرنے کا حق کسی بھی وقت اور ہر جگہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں کچھ اچھےاحتجاج ہوسکتے ہیں لیکن طویل اختلاف یا احتجاج کی صورت میں دوسروں کے حقوق کو متاثر کرنے والے عوامی مقام پر مسلسل قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
لائیو لا ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق درخواست میں زرعی اصلاحات کے سلسلے میں احتجاج کے حق پر سماعت کے دوران کیے جانے والے مشاہدات کے پیش نظر، فارم قوانین کی درخواستوں کے ساتھ ان کی درخواستوں کی مشترکہ سماعت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
درخواست گزاروں نے عرض کیا کہ نظرثانی میں فیصلہ بنیادی طور پر شہریوں کے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے حق سے متعلق ہے۔ درخواست گزار کے مطابق سترہ دسمبر کو سپریم کورٹ کے مشاہدے کے مطابق جاری کسانوں کے احتجاج کے دوران عوامی مقامات پر احتجاج کے حق کی قانونی حیثیت کے بارے میں اس کے فیصلے میں تضاد تھا۔ اگرچہ نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ 9 فروری کو کیا گیا تھا، تاہم حکم دیر سے جمعہ کی رات کو آیا۔
واضح رہے کہ 17 دسمبر کے حکم میں سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ ’’کسانوں کے احتجاج کو بغیر کسی رکاوٹ کے اور مظاہرین یا پولیس کے ذریعہ کسی بھی امن کی خلاف ورزی کے بغیر جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔‘‘
اس حکم کی بنیاد پر نظرثانی کی اس درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی آئینی ضمانت ایک جیسی ہے اور ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو شاہین باغ سے متعلق اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عوامی مقامات پر غیر معینہ مدت کے لیے قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزاروں نے استدلال کیا تھا کہ اکتوبر کے فیصلے سے ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی جہاں انتظامیہ مظاہرین کے ساتھ کبھی بھی مکالمہ نہیں کرے گی بلکہ اس کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔