پروفیسر احمد سجاد، رانچی
سیاسی، معاشی اور تہذیبی لحاظ سے جنوبی ہند کی ریاستوں سے سوتیلا سلوک!!
راشٹرواد کے نام پر ملک میں جس طرح کی لاقانونیت، لنچنگ اور قتل و غارت گری ہو رہی ہے اس نے بعض سیاسی لوگوں کو بھی الٹے ڈھنگ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ راہل گاندھی اگر نفرت کے بازار میں انصاف اور محبت کی دکان کھولتے نظر آرہے ہیں تو وہیں کرناٹک سے کانگریس کے MP نے جنوبی ہند کو ایک الگ ملک بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے جس کو آج کا بھارت قبول کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا۔ الگ ملک کا مطالبہ غداری پر محمول کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ روس کی طرح کئی غصب شدہ ملک کا وجود کیسے اور کیوں کر عمل میں آیا ہے۔ ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب اور کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں کی اکثریت اپنے وطن کو اپنی ماں تسلیم کرتے ہیں اور راشٹروادی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے ملک کو جمہوریت جننی کہتے ہیں۔ایسے ماحول میں کسی علاقے کو الگ ملک قرار دینے کا مطالبہ گمراہ کن اور ناقابل قبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ روس اور کئی دوسرے ملکوں کے ٹوٹنے کی وجوہات کیا تھیں؟ جس بڑے ملک میں انصاف اقتدار کے اشارے پر ہو جہاں غریبوں، پچھڑوں، دلتوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا ہو، جہاں کی نوجوان نسل بے روزگاری کا شکار ہو، جہاں گرانی آسمان سے باتیں کرتی ہو، معاشی، سیاسی اور سماجی حالات ناگفتہ بہ ہوں۔ وہاں کی مظلوم آبادی اگر بغاوت پر آمادہ ہو جائے تو سویت یونین کو ٹوٹ کے بکھر جانے سے دنیا میں دوسری عالمی طاقت ہونے کے باوجود بکھرنے سے اس کو بچا نہ سکی، ایسے ایک ملک میں من مانی قانون سازی، نعرہ بازی اور کمزوروں کو ستم کا نشانہ بنانے سے پہلے خانہ جنگی شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد لاقانونیت اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے کرناٹک کے کانگریسی ایم پی، ٹی کے سریش کے بیان سے بے شک اختلاف تو کیا ہی جانا چاہیے لیکن غور بھی کریں کہ آخر جنوبی ہند کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ کیوں ہو رہا ہے۔ ہمارا ملک دستور کے مطابق یونین آف اسٹیٹ ہے۔ جہاں روس کی طرح اگر ایک اسٹیٹ سے علیحدگی کا مطالبہ ہوا تو یہ بیماری دوسرے اسٹیٹ کو بھی لگتی چلی گئی۔ مغربی بنگال، تمل ناڈو، جھارکھنڈ وغیرہ کو اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی شدید شکایت ہے۔
’’ملک ارجن کھرگے نے اپنے ایم پی کے بیان کی جہاں پر زور تردید کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس طرح کے مطالبے کو معاف نہیں کیا جا سکتا وہیں یہ بھی کہا ہے کہ محض قومی گیت گانے سے ملک کی سالمیت برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ملک کی سالمیت کے لیے ساری ریاستوں کو مساوی طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ اس کے مطابق اصول و ضوابط بھی ہونے چاہئیں نہ کہ جہاں سے آپ کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوں وہیں آپ کی نگاہ کرم ہو، تمام ترقیاتی منصوبے انہیں علاقوں کے لیے ہوں جہاں سے آپ نے جیت حاصل کی ہو؟ کھرگے نے جنوبی ہند کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوشش پر بھی تنقید کی اور صاف طور پر کہا کہ جنوبی ہند کو سیاسی طور پر حاشیہ پر لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس کو سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت پارلیمانی نشستوں کو بڑھانے کی تیاری میں ہے۔ اسی لیے ترتیب نو (D-Limitation) کا ارادہ رکھتی ہے۔ مودی حکومت نے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر فنڈ کو مختص کرنا شروع کر دیا ہے، اس سے جنوبی ہند کی ریاستیں نقصان اٹھا رہی ہیں۔ کرناٹک کو 8,000 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور تمل ناڈو کو 20,000 کروڑ روپے کا نقصان۔ شمال کے مقابلے میں جنوبی ہند کی ریاستوں نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے علاوہ اپنی معاشیات کو بھی ترقی دی ہے اور آبادی کو بھی کنٹرول کیا ہے۔ اس صورت میں ترتیب نو سے سیاسی اور معاشی دونوں طرح کی مار جنوب کو جھیلنی پڑے گی۔ جنوب ہی نہیں مغربی بنگال نے بھی اپنے 1,000 کروڑ کے فنڈ کی ضبطی پر احتجاجی ریلی نکالی۔ اتنا ہی نہیں ہندی زبان کو بھی پورے ملک میں زبردستی تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
غرض سیاسی، معاشی اور تہذیبی لحاظ سے دیکھا جائے تو جنوبی ہند کے ساتھ سوتیلا سلوک جاری ہے۔ منی پور میں عیسائی اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس نے پوری دنیا کے فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ کو مات دے دی ہے۔ فسادات کے ذریعہ ملک کی ۲۰ فیصد مسلم اقلیتی آبادی کو آزادی سے بھی پہلے سے اس عذاب مسلسل کو جھیلنا پڑ رہا ہے جو جگ ظاہر ہے۔
’’اعداد و شمار کے مطابق (۱۹۴۷ء) میں آزادی کے بعد ۷۵ سالوں میں ملک کے طول و عرض میں 98,400 فسادات ہوئے ہیں۔ جن بڑے فسادات میں ۵۰ سے زاید افراد ہلاک ہوئے ان کی تعداد لگ بھگ ۱۱۰ کے قریب ہے۔قومی جرائم ریکارڈ (National Crime Record) کے مطابق ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۸ء یعنی صرف ۱۵ سالوں میں کم و بیش 8,000 فسادات رکارڈ کیے گئے؎
تیری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا
کہیں زندگی کی بارش کہیں قتل عام دیکھا
تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء میں دیگر بڑے فسادات میں سے ۱۹۵۹ء (احمدآباد) اور ۱۹۶۱ء (جبل پور)۔جنوری ۱۹۶۴ء کلکتہ فسادات کی آگ بجھنے بھی نہ پائی تھی کہ ۱۹ مارچ ۱۹۶۴ء کی شام جمشید پور میں آگ اور خون کی بارش میں مسلمانوں کو ڈبو دیا گیا۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ رڑکیلا، بھلائی، کلکتہ اور پھر رانچی میں فسادات ہوتے گئے۔ ۱۹۶۶ء میں بنارس اور رانچی کی سرزمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوگئی۔ ۱۹۶۹ء میں مئو، اعظم گڑھ، احمد آباد بھی نہ بچا۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی میں نہ رکا۔ ساتویں دہائی میں جلگاؤں، بھیونڈی، ہزاری باغ، چائباسا اور ۱۹۷۲ء میں علی گڑھ، بنارس اور فیروزآباد میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اسی سال عثمان آباد (مہاراشٹر) دادری، اعظم گڑھ، گجرات، بہار اور کرناٹک میں بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہر طرح سے مسلمانوں کو تباہی اور بربادی کے دہکتے ہوئے تنور میں جھونکا گیا۔ غور کریں تو فرقہ وارانہ فسادات میں تشدد کا ملک بھر میں ایک ہی پیٹرن (Pattern) نظر آتا ہے جس کی شروعات مذہبی جلوس، اشتعال انگیز نعرے بازی، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے سامنے ہنگامہ آرائی، ہتھیاروں کی نمائش، تریشول اور تلواریں لہرا کر اشتعال پیدا کرنا، مذہبی مقامات پر حملے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے سے ہوتی رہی۔ یہ سارے فسادات کانگریس کے دور میں ہوئے جو سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے رہی۔
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اب یہی تاریخ منی پور میں دہرائی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر منفی جذبات پیدا ہوجائیں تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔ روس اور سری لنکا کے علاوہ کئی دیگر افریقی و غیر افریقی ملکوں میں یہ تاریخ دہرائی جا چکی ہے۔اب اگر یہ تاریخ دہرائی گئی تو اسے راشٹروادی کے بر خلاف غداری کہا جائے گا یا نہیں؟ اس صورتحال میں ملک و ملت کی ذمہ داریاں دہری ہو جاتی ہیں۔ اس کی کیا منصوبہ بندی ہماری لیڈرشپ نے کی ہے کسی کو نہیں معلوم۔ اللہ رحم فرمائے۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
۱؎ اس پیراگراف کا بیشتر مواد ہفتہ وار ’دعوت‘ دہلی سے ماخوذ ہے۔فروری ۲۰۲۴ء۔ص:۱۱ تا ۱۷۔
۲؎ یہ اعداد و شمار ڈاکٹر عبدالمعز شمس کے مقالہ شائع شدہ ’’سرگزشت گولڈن جوبلی ادریس میموریل ہوسٹل بریاتو، رانچی(جھارکھنڈ)‘‘ سے ماخوذ ہیں۔مورخہ فروری ۲۰۲۴ء۔
پروفیسر احمد سجاد، سابق ڈین فیکلٹی آف ہومنیٹز وصدر شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی،جھارکھنڈ (9431359971)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024