رمضان المبارک کی تیاری کیوں اورکیسے؟
ماہ رحمت کی برکتوں اورسعادتوں سے بھرپور حصہ پانے کےلیے منصوبہ بنائیں
محب اللہ قاسمی
شعبہ تربیت،مرکز جماعت اسلامی ہند
فطری طورپر انسان کے اندرمفید چیزوں کے حصول کی خواہش ہوتی ہے اوروہ ان کے لیے جدوجہد کرنے کوضروری سمجھتاہے۔اگراس کے افرادخاندان اس سلسلے میں غفلت برتیں تو انسان انہیں متنبہ کرتا ہے۔ جو چیز جتنی اہم ہوتی ہے اس کے لیے کوشش بھی اسی درجہ کی کرتا ہے ۔ دل ہمہ وقت اس کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اہم مواقع میں سے ایک ہے اس میں حاصل ہونے والی رحمت وبرکت، رضائے الٰہی کے حصول کے دروازے کھولتی ہے اور یہ چیز دنیا کی تمام تر چیزوں سے بہتراورافضل ہے۔
یہ ماہ مبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔یقیناً ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدرہے لیکن کیاہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم ا پنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انہیں رمضان کی آمدکی خوشخبری سناتے ۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشادفرمایا:
’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فریض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینہ ہے۔ساتھ یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا ۔روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا، اورخود کو جہنم سے بچالیا۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ نے فرمایا:جس نے روزے دارکوپانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابرہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے ۔اس سے روزے دار کے روزے میں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکاکام لیااس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔
رمضان کی آمدسے مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوتی ہے ،وہ چاہتے ہیں کہ اس ماہ مبارک کا پرتپاک استقبال کریں۔ یہ کیفیت یقیناً ہونی چاہیے ، ایسا ہونا ایمان کی دلیل ہے ۔ نبی کریم ؐ صحابہ کرامؓ کو آمدرمضان کی خوش خبری سناتے تھے ۔ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :رمضان کا مہینہ آچکا ہے، جومبارک مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے ہیں۔اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں شیاطین کو باندھ دیاجاتاہے۔اس ماہ مبارک میں ایک ایسی بابرکت رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے ،جواس ماہ مبارک کی سعادتوں سے محروم ہوگیا تووہ محروم ہی رہا۔
اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیارہیں تو ہمیں چندباتوں کا لحاظ کرنا ہوگا۔سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اوراس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔اس کی ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔
(الف) کوئی بھی کام بغیرمشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعاکا اہتمام کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیاجائے۔
(ب) توبہ کا اہتمام کیاجائے، توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتاہے ۔گناہوں کا جوفاصلہ انسان اوراس کے رب کے درمیان ہوتاہے وہ ختم ہوجاتاہے ۔نیک کاموں کی طرف رغبت بڑھتی ہے جورمضان کے دیگرعبادات میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنوں تم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے(النور:31)توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں(مسلم)آپؐ دعاکا بھی اہتمام کرتے تھے۔آپ سے یہ دعا منقول ہے:
اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا
(ج) گزشتہ رمضان کے روزے قضا ادا کرنے ہوں تو انہیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینے چاہئیں۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے بی بی عائشہ ؓ کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔
(د) رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے ،اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہیے تاکہ پوری طرح نشاط رہے اوراس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ؐ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہنے میں بکثرت روزہ رکھاکرتے تھے ۔مگرپورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھے۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔
(ھ) ایک مشہورحدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے معاملہ اسی اعتبارسے ہوتاہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتاہے تواس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔
اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغازہی میں اپنی نیت کو درست کریں اوربہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔مثلا تلاوت قرآن کی کثرت، گناہوں سے توبہ کا اہتمام، دعا واذکارکی پابندی، عبادات کا التزام، لوگوں سے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے،دینی وتربیتی کتابوں کا مطالعہ ،رمضان سے متعلق دینی بیانات جوسی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوں، ان کا سننا تاکہ رمضان کااحساس دل میں رہے اور اس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
(و) رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا ،اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں۔ تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیاجاتاہے۔مگریہ عمل بھی تیاری چاہتاہے کہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اوراس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمہ کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے : شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے
(ز) ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں کہ ماہ رجب کاشتکاری کا مہینہ ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینہ ہے اورشہر رمضان کھیت کی کٹائی کا مہینہ ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میں کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔
(ح) آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کے شکارہیں اوراپنے کاموں میں اس قدر محوہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دارفرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اوراس کے احکامات کی تعلیم دے سکے۔اگروہ نہیں جانتا توعلمائے کرام سے معلوم کرے اورمساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔20
ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام
یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
(الف) فجرسے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَمَّنۡ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيۡلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا يَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَةَ وَيَرۡجُوۡا رَحۡمَةَ رَبِّهٖؕ (الزمر:۹)
یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتاہے۔
(ب) سحرگاہی کا اہتمام
:نبی کریم کا ارشاد ہے: سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیؐ نے فرمایا: فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
(ج) دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔
(د) فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں۔ نبی کریم فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے: جس نے فجرکی نماز کے بعد اللہ طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانندہے۔
(ھ) اس دعاکا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔
(و) ظہرکی نماز کی تیاری کرے ،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے : سحری کھاکر روزے پر اورقیلولہ (دوپہرکے وقت سونے)کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔
(ز) عصرکی نمازکی ادائیگی کے بعد مسجد میں واعظ و نصیحت کوسننا چاہیے ۔مغرب کے وقت روزہ کھولنے سے قبل اللہ سے دعاکرے کیونکہ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں مانگی گئی دعاردنہیں ہوتی ان میں ایک وقت روزے دارکی دعا افطارکے وقت ہے۔
(ح) مغرب کی نمازکی ادائیگی کے بعد اپنے گھروالوں کے درمیان بیٹھے اورایک مختصروعظ و نصیحت کی مجلس منعقد کرے ۔ نبی کریم فرماتے ہیں: تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ پھر عشاء اورتراویح کی نمازکی تیاری میں لگ جائے ۔امام کے ساتھ مکمل تراویح پڑھیں ۔نبی کریم نے فرمایا:
جس نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان میں قیام(تہجد و تراویح) کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
(ط) اگرصاحب حیثیت ہیں اورخدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں اور انہیں افطارکرانے کا نظم بھی کریں کیونکہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔
اگراس نے اپنے پروگرام کو اس اندازمیں ترتیب دیا اورزیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام کیا تواس نے رمضان کی تیاری کرلی وہ یقینا اس ماہ کی رحمت،برکت اورفضیلت کوحاصل کرے گا انشاء اللہ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023