رمضان میں صیام اورقیام کا باہمی تعلق

روزے سے خدا اور بندے کے درمیان ایک زندہ روحانی تعلق قائم ہوجاتا ہے

ڈاکٹر ساجد عباسی

دن میں روزہ رکھ کر اگر بندہ رات میں قیام اللیل میں کلام الٰہی کو بغور سنے تو اس کا رب سے تعلق بہت قوی ہوگا اور وہ اخلاقی اعتبارسے عام انسانوں کے مقابلے میں ایک بہتر انسان ہوگا جو اللہ کے دیے ہوئے مشن کو پورا کرنے کا اہل ہوگا۔
ماہِ رمضان ہم کو دو مواقع فراہم کرتا ہے۔ ہم رمضان میں دن میں روزے رکھتے ہیں اور راتوں میں تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان کی حالت میں اجر و ثواب کے حصول کے لیے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (مسند احمد)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو کوئی رمضان میں روزے رکھ کر اور ثواب کے لیے راتوں میں قیام تراویح و تہجد کا اہتمام کرے گا اس کے اگلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (بخاری)
صیام و قیام کی یہ دونوں عبادتیں مل کر ہماری روحانی تربیت کرتے ہیں۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ صیام و قیام کس طرح ہمارے روحانی وجود کی آبیاری کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کے دو عالم ہیں ایک ہے عالمِ مشاہدہ اور دوسرا ہے عالم الغیب۔ عالمِ مشاہدہ انسانوں کی دسترس میں رکھا گیا ہے۔ سائنس داں مشاہدات، تجربات اور تحقیق کے ذریعے سائنسی علوم حاصل کرتے ہیں جن سے انسان ترقی کرتے ہوئے بے شمار اشیاء کی ایجادات کرتے ہیں۔ عالمِ غیب کے جتنے امور ہیں وہ سائنس و فلسفہ کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس معاملہ میں انسانوں نے محض قیاس وتخمین کی بنیاد پر مختلف نظریات اپنائے ہیں جو مختلف مذاہب کی بنیاد بنے۔ غیب کے امور میں جو حقیقی علم ہے وہ صرف پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچتا رہا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سرے سے علمِ غیب کا انکار کرتے ہیں حتٰی کہ خالقِ کائنات اور روح کے وجود کے منکر ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو علمِ غیب کے قائل تو ہیں لیکن روح کے متعلق غیر عقلی تصورات رکھتے ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعے جو علم حاصل ہوا ہے وہ اب اس کرۂ ارض پر فقط قرآن کی شکل میں اصلی حالت میں دستیاب ہے جس میں غیبی امور کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔روح سے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً (بنی اسرائیل:25) ترجمہ: یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو ”یہ رُوح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔
انسانی جسم مادی اسباب کے تحت ماں کے پیٹ میں استقرارِ حمل سے شروع ہو کر بتدریج بڑھتا رہتا ہے جبکہ روح، مادی اسباب کے تحت نہیں بلکہ حکمِ الہی (امرِ ربّیِ) سے فرشتے کے ذریعے ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کے اندر ودیعت کردی جاتی ہے (بخاری) اس طرح انسان کے جسم و جان کے ساتھ روح کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ انسانی شعور و ادراک، عقل وفہم، اخلاقی حِس اور شرم و حیا کے احساسات روح کے وجود کے مظاہر ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملحدین ان ناقابلِ تردید مظاہر کے باوجود، روح کے وجود کا انکار کر تے ہیں۔
معلوم ہوا کہ انسان کے جسمانی وجود کے ساتھ ایک روحانی وجود بھی ہے۔جس طرح انسان کے جسم میں جسمانی دل، آنکھ اور کان ہیں اسی طرح روحانی دل، آنکھ اور کان ہیں جن کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے: وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:179)
ترجمہ: اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے پاس دھڑکنے والے دل کے ساتھ وہ دل بھی ہوتا ہے جو عقل و شعور اور احساسات کا منبع ہے۔ جسمانی آنکھ کی بصارت کے ساتھ بصیرت رکھنے والی آنکھ بھی ہوتی ہے جو اس منظم کائنات کے پیچھے خالقِ کائنات کو دیکھ لیتی ہے۔ جسمانی کان کے ساتھ انسان کے اندر وہ کان بھی ہوتے ہیں جو توحید، رسالت و آخرت کو ثابت کرنے والی آفاق و انفس سے آنے والی خاموش صداؤں کے ساتھ کلامِ الٰہی کو جب سنتے ہیں تو وہ حق کو قبول کر لیتے ہیں، اور جو لوگ روحانی سماعت سے محروم ہوتے ہیں وہ محسوسات کی دنیا سے ماوراء کسی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
مزید اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج:46)
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
فہم وادراک رکھنے والا دل، دھڑکنے والے دل سے اور نگاہِ بصیرت بظاہر دیکھنے والی آنکھوں سے اور شعوری سماعت بظاہر سننے والے کانوں سے ایک الگ وجود رکھتے ہیں جو انسان کے روحانی وجود کے مظاہر ہیں۔ وہ لوگ جو حواسِ خمسہ کی گرفت و حدود سے باہر کی دنیا کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل حیوانات کی سطح پر جیتے ہیں اور زبانِ حال سے اپنے روحانی وجود کے مردہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فائر الارم ہونے پر عقل مند لوگ بلڈنگ کو فوری طور پر خطرہ سے پہلے ہی خالی کر دیتے ہیں اور اس بات کا انتظارنہیں کرتے کہ وہ آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی اس پر یقین کریں۔ان کے لیے فائر الارم، بلڈنگ میں آگ لگنے کی نشانی ہے۔ اگر اس بلڈنگ میں کوئی کتا یا بلی یا کوئی اور حیوان ہو تو وہ اس الارم کو خطرہ کی نشانی نہیں سمجھتے اور وہ اس وقت تک بلڈنگ سے نکلنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے جب تک وہ آگ کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ جو عقل و شعور کو کام میں لا کر غیبی حقائق کو تسلیم نہیں کرتے وہ دراصل حیوانات کی سطح پر جیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے وہ جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں اس لیے کہ ایسے لوگ عقل و شعور رکھ کر بھی جانوروں کی طرح فقط محسوسات کی دنیا میں جیتے ہیں۔
رمضان میں روزوں کے ذریعے شدت اور تسلسل کے ساتھ یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہماری نیتوں تک کو جانتا ہے۔ یہ احساس دن کی روشنی میں کئی گھنٹوں تک کروایا جاتا ہے کہ ہم ساری دنیا سے تو چُھپ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے چُھپ نہیں سکتے۔اس شعور و احساس کی ایک ماہ تک تربیت کروائی جاتی ہے جس کا نام تقویٰ ہے۔ صیام کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے بندہ کا ایک زندہ روحانی تعلق قائم ہوتا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اخلاقی ضابطہ کا پابند بناتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسان کے اندر ایک ایسا روحانی وجود پیدا ہوتا ہے جو اپنے جسمانی وجود کو اپنے آقا کی مرضی کے تابع بناتا ہے، جس طرح گھڑ سوار گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، ایسے ہی انسان اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہیں جو اللہ کی جنت میں بسائے جانے کے لائق ہیں ورنہ وہ لوگ جو صرف اپنے حیوانی وجود کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو ساری زندگی، حیوانات کی طرح پورا کرنے میں گزار دیتے ہیں وہ اس کچرے کے مانند ہیں جن کو کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کی قرآن میں اس طرح تصویر کھینچی گئی ہے: لِيَمِيزَ اللهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىَ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعاً فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (الانفال:37)
ترجمہ: تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔
اسی طرح رمضان کی راتوں کو قیام سے مزین کیا جاتا ہے جس میں قرآن کو پڑھا جاتا ہے۔ دن میں روزہ کے دوران ایک بندہ کھانا پینا ترک کرکے بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرتے ہوئے اپنے جسمانی وجود کو روحانی وجود کا تابع بناتا ہے، اسی طرح قرآن کی سماعت اس کی روح کی آبیاری کرتی ہے۔ قرآن سننا ایسا ہی ہے جیسے اللہ ہم سے خطاب کر رہا ہے۔ قرآن بیش بہا مضامین سے لبریز ہے۔ قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے مظاہر کو بیان کرکے اور اپنی ان گنت نعمتوں تذکرہ کرکے اپنے بندوں کے دلوں کے اندر شکر کے احساسات کو موجزن کرتا ہے۔ قرآن اپنی آیات کے ذریعے مومنین کے ایمان کو بڑھاتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (الانفال:2)
ترجمہ: سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
قرآن کی آیات کے ذریعے اللہ تعالٰی اپنے تخلیقی منصوبے کو پیش کر کے اپنے بندوں کو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی بار بار تلقین فرماتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتیں عارضی ہیں جس پر انسان صبر کرے اور یہاں کا عیش و آرام بھی عارضی ہے جس پر انسان فریفتہ ہو کر اپنے ہی رب کو بھول نہ جائے بلکہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرے اور اس حیات مستعار کو امتحان کا عارضی وقت سمجھے۔ قرآن اللہ کے بندوں کے اندر ہمت و جرأت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کی بندگی کی راہ میں ہر رکاوٹ کا ثابت قدمی سے مقابلہ کریں چاہے ظالم اور متکبر کتنے ہی طاقت ور ہوں۔ قرآن پچھلے رسولوں کی سرگزشت کو بیان کرکے رسولوں کے دعوتی مہمات کی روشنی میں ہمیں بھی انسانیت تک اس کے پیغام کو پیش کرنے پر ابھارتا ہے۔ قرآن انسانی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات میں رہنمائی کرتا ہے جس سے ایک پرامن، عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
دن میں روزہ رکھ کر اگر بندہ رات میں تراویح و تہجد میں قیام کرکے اللہ کے کلام کو بغورسنے تو اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بہت قوی ہوگا۔ وہ اخلاقی اعتبار سے عام انسانوں کے مقابلے میں بہترین انسان بن کر ابھرے گا جو اللہ کے دیے ہوئے مشن کو پورا کرنے کا اہل ہوگا۔ آج امتِ مسلمہ میں وہ لوگ جو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حق کے علم بردار ہیں اور شیطانی طاقتوں کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بہت قلیل تعداد میں ہیں جس کی وجہ سے آج کفر کا غلبہ نظر آتا ہے۔ جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ عربوں کی مادری زبان عربی تھی اس لیے وہ جب بھی قرآن پڑھتے سمجھ کر ہی پڑھتے تھے۔احادیث میں جن اعمال پر اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اس لیے کیا گیا ہے کہ ان اعمال کو اجر وثواب پانے کے شوق سے لوگ کریں تاکہ وہ اعمال معاشرہ میں رائج ہوں مثلاً کسی مریض کی عیادت کرنے والے کے لیے یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس کے لیے ستر ہزار فرشتے بخشش مانگتے ہیں۔ (ابو داؤود) یعنی لوگ جب مریضوں کی عیادت کریں گے تو ایک غم گسار معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اسی طرح جنازے میں شرکت کرکے نمازِ جنازہ پڑھنے کا اجر ایک قیراط اور مزید تدفین میں شرکت کرنے پر دو قیراط کا اجر بتلایا گیا۔ (نسائی) یہ اجر اس لیے سنایا گیا ہےکہ معاشرہ اپنے مرنے والوں سے بے نیاز نہ ہو جائے بلکہ اہتمام کے ساتھ انہیں دنیا سے الوداع کیا جائے۔ مزید یہ کہ جنازے میں شرکت ان کے لیے عبرت کا سبق بنے ۔
اسی طرح قرآن تلاوت کرنے کی فضیلت اس طرح بیان کی گئی ہے : حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص قرآن کریم کا ایک حرف پڑھتا ہے تو اسے اس کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے اور نیکی دس گنا بڑھ جاتی ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے میم ایک حرف ہے‘‘ (مشکوٰۃ)
قرآن کی تلاوت پر اتنا اجر اس لیے بیان کیا گیا کہ لوگ قرآن زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ جب لوگ قرآن زیادہ سے زیادہ پڑھیں گے تو ان کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوگی جس سے بہترین معاشرہ وجود میں آئے گا۔ لوگوں کی دنیا بھی بہتر ہوگی اور آخرت میں بھی کامیابی ملے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان قرآن کی تلاوت پر اس اجر کا مژدہ سنایا جو قرآن کو جب بھی پڑھتے تھے وہ سمجھ کر پڑھتے تھے اس لیے کہ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ ان کے لیے ایک کام تھا جس میں دو مقاصد پورے ہو رہے تھے۔ وہ قرآن کے الفاظ بھی ادا کر رہے تھے اور ساتھ میں سمجھ بھی رہے تھے لیکن صحابہ کے ایک کام میں ہمارے لیے دو کام مطلوب ہیں۔ ایک تجوید سیکھ کر صحیح مخارج کے ساتھ قرآن کا متن پڑھنا اور ساتھ میں ایک ایک آیت کا مطلب ترجموں کی مدد سے سمجھنا۔صحابہ کرام سے جس اجر کا وعدہ کیا گیا اس میں سمجھ کر پڑھنا بھی شامل تھا۔ ہم صرف الفاظ کی ادائیگی پر اجر کے اس وعدے کو محمول کیسے کر سکتے ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی عمل پر اجر کا وعدہ احادیث میں اس لیے کیا گیا کہ وہ عمل معاشرہ میں عام ہو جائے جس سے ایک بہترین معاشرہ وجود میں آئے۔ چونکہ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ الفاظ کی ادائیگی پر اجر ہے اور سمجھنا ضروری نہیں ہے اس لیے ناظرہ قرآن پڑھنے اور کثیر تعداد میں حفاظ کا قرآن حفظ کرنے کے باوجود معاشرہ میں وہ انسان نہیں بن رہے ہیں جو قرآن کو مطلوب ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ (بخاری)
ہم جانتے ہیں کہ عربی حروف میں حروفِ حلقی ہوتے ہیں اور حلق مخارج میں آخری مخرج ہے جس سے نیچے کوئی مخرج نہیں ہوتا۔ یعنی جو شخص چاہے مخارج کا لحاظ کرتے ہوئے قرآن پڑھے لیکن سمجھے نہیں تو قرآن حلق تک تو پہنچے گا لیکن دل تک نہیں پہنچے گا۔ حلق سے دل تک کا سفر ترجمے اور تفاسیر سے ہی ممکن ہے اور جب تک قرآن قلب تک نہیں پہنچے گا قلوب میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ رسول اللہ ﷺکے قلب پر قرآن کا نزول ہواتھا۔جب تک قرآن نہیں سمجھیں گے افراد کے اندر روحانی و اخلاقی تبدیلی نہیں آئے گی اور قرآنی اخلاق سے لوگ محروم رہیں گے۔ لوگ ناظرہ قرآن پڑھ کر دھڑلے سے مشرکانہ اعمال اختیارکرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ قرآن واضح انداز میں کہتا ہے کہ دوسرے گناہ قابل ِ معافی ہوسکتے ہیں لیکن شرک نہیں (سورۃ النساء۴۸، ۱۱۶) شرک کرنے والوں پر جنت کو حرام کر دیا گیا ہے (سورۃ المائدہ ۷۲)۔شرک کرنے والے کے تمام اعمال غارت ہو جاتےہیں (سورۃ الانعام ۸۸، سورۃ الزمر ۶۵) شرک سے متعلق اتنی خوف ناک آیا ت جب ترجمہ کی مدد سے سمجھ کر پڑھی جائیں گی تو کون شرک کے قریب بھی پھٹکنے کی جرأت کرے گا؟
الحمدللہ آج ہمارے معاشرہ میں رمضان میں تراویح پڑھنے کا اہتمام بڑی تن دہی سے کیا جاتا ہے۔ہر مسجد میں تراویح میں پورے قرآن کو سنایا جاتا ہے اور شبِ قدر میں ختم القرآن کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں جس میں قرآن سننے اور ناظرہ پڑھنے کے فضائل بتلائے جاتے ہیں لیکن قرآن کو ترجمہ و تفسیر کی مدد سے سمجھنے پر نہیں ابھارا جاتا الاماشاءاللہ ۔چونکہ صدیوں سے قرآن کو بیشتر ثواب کی نیت سے پڑھا جاتا ہے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس لیے قرآن سے ہمارا تعلق حسی رہ گیا ہے نہ کہ روحانی؟ یعنی ہمارے کان سنتے ہیں کان کے پردوں سے ٹکرا کر قرآن واپس لوٹ جاتا ہے ۔کانوں کی سماعت سے دل تک پہنچنے کا راستہ مسدود ہے۔پڑھنے والوں کا قرآن حلق تک پہنچ پاتا ہے لیکن دل تک نہیں پہنچ پاتا ۔دل سے مراد دھڑکنے والا دل نہیں بلکہ دل سے مراد روح ہے جو ارادہ، شعور و ادراک رکھتی ہے۔ تراویح سے فائدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تراویح میں جتنا قرآن پڑھا جائے گا اس حصہ کا ترجمہ پڑھ کر مسجد جائیں تاکہ تراویح کی نماز میں دل سے حضوری ہوسکے۔
جب تک قرآن ہمارے شعورکا حصہ نہ بنے ہماری شخصیت میں انقلاب نہیں آسکتا ۔قرآن اللہ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو انسان کو اندر سے تبدیل کرتی ہے اور اس کے اندر ایک زور دار صالح انقلاب پیدا کرتی ہے۔ پھر قرآن ایک صالح معاشرہ بناتا ہے۔ ایسا معاشرہ ظلم و ناانصافی کے مقابلے میں چٹان بن کر کھڑا ہوتا اور عدل و انصاف کا نقیب بن کر دنیا میں چھا جاتا ہے۔ مکی دورِ نبوت میں فکری انقلاب رونما ہوا اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آیا اور وہ عدل وانصاف کی ایسی طاقت بن گیا کہ چند سالوں میں وہ عالمی فلاحی ریاست بن گیا۔ قرآن نہ صرف افراد کی اخروی کامیابی کا ضامن ہے بلکہ وہ دنیا میں امن ،عدل و انصاف کے قیام کا بھی ضامن ہے۔افسوس کہ ہم قرآن کے الفاظ کو پڑھ کر اور اس کو حفظ کرکے سمجھتے ہیں کہ قرآن کا حق ادا ہو گیا ہے۔ اس کا اصل حق یہ ہے کہ اس کو تدبرانہ نظر کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں تاکہ قرآنی آیات ہماری روح میں جذب ہو کر ہمیں قرآن کا مثالی انسان بنائیں جیسے کہ ارشادِ ربانی ہے: كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:۲۹) ترجمہ: یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو اے محمدؐ ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
دوسر امقصد نزول قرآن کا یہ ہے کہ اس کو لے کر دنیا میں فکری جہاد کے ذریعے باطل افکار پر کاری ضرب لگائیں جس کو قرآن جہاد کبیر کہتا ہے: فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (فرقان:۵۲) ترجمہ: پس، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔
قرآن امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کو آخرت میں جنت پانے کا راستہ دکھاتا ہے اور اس دنیاوی زندگی میں امت کو امامت و قیادت کے مقام تک لے جانا چاہتا ہے تاکہ امت کے افراد تمام اقوام عالم کو اللہ کی تائید واذن سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں جو کہ قرآن کے نزول کا ایک مقصد ہے: كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (ابراہیم:۱) اے محمدؐ ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاو، ان کے رب کی توفیق سے، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
دنیا میں ہر کتاب، ہر رسالہ، ہر میگزین یا ہر اخبار سمجھ کربہی پڑھاجاتا ہے۔برصغیر کے لوگوں نے قرآن کے ساتھ ایسا ظلم کیا کہ یہ دنیا میں ایک ایسی واحد کتاب بن گئی ہے جو بغیر سمجھی پڑھی جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ قیامت میں اس ظلم کے خلاف قرآن فریادی بن کر ہمارے خلاف کھڑا ہو جائے۔ نہ سمجھنے کا گناہ، تلاوت کے ثواب سے کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔رسولؐ قیامت میں شکایت کریں گے کہ اے میرے رب، میری قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (سورۃ الفرقان ۳۰) قرآن کو چھوڑنے میں یہ معنی شامل ہیں کہ قرآن کے حقوق ادا نہ کیے جائیں۔ قرآن کے حقوق یہ ہیں: اس پر ایمان لایا جائے، ،اس کی تلاوت کی جائے، اس پر تدبر کیا جائے اسے سمجھا جائے، اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
سیدنا عمرؓ نے کہا: خبردار! تمہارے نبی ‌ نے فرمایا تھا: بے شک اللہ تعالیٰ اقوام کو اس کتاب کے ذریعے اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے گراتا ہے۔ (مسند احمد)
قرآن ہمارے سامنے عروج کی منزلیں سامنے رکھتا ہے اور حکمتوں کا سمندر پیش کرتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اس سے چند قطرے لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

 

***

 چونکہ صدیوں سے قرآن کو بیشتر ثواب کی نیت سے پڑھا جاتا ہے اور سمجھنے کی سعی نہیں کی جاتی اس لیے قرآن سے ہمارا تعلق حسی رہ گیا ہے نہ کہ روحانی۔یعنی ہمارے کان سنتے ہیں کان کے پردوں سے ٹکراکر قرآن واپس لوٹ جاتا ہے ۔کانوں کی سماعت سے دل تک پہونچنے کا راستہ مسدود ہے۔پڑھنے والوں کا قرآن حلق تک پہنچ پاتا ہے لیکن دل تک نہیں پہنچ پاتا ۔دل سے مراد دھڑکنے والا دل نہیں بلکہ دل سے مراد روح ہے جو ارادہ ،شعوروادراک رکھتی ہے۔تراویح سے فائیدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تراویح میں جتنا قرآن پڑھا جائے گا اس حصہ کا ترجمہ پڑھ کر مسجد جائیں تاکہ تراویح کی نماز میں دل سے حضوری ہوسکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024