رمضان کے ایام ہیں عاشور سے بدتر

پشت پر خنجر زنی کی بازگشت۔ سلیم الفطرت عناصر کی نرم دستک

مسعود ابدالی

غزہ کے مزاحمت کار بہت سخت جان ہیں ان کا خاتمہ آسان نہیں: امریکی خفیہ اداروں کی مشترکہ رپورٹ
آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا شکار اہل غزہ رحمت، برکت اور مغفرت کی برسات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے اور 11؍ مارچ کو نیکیوں کے موسم بہار کا اِن بدن دریدہ لوگوں نے انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ کئی دن پہلے سے سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ اجڑے لیکن قمقموں سے سجے خیموں کی تصویریں شائع کررہے تھے۔ چراغاں پر حیرانی کی کوئی بات نہ تھی کہ ان سخت جانوں کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسکرانے کا فن خوب آتا ہے اور سب کچھ لٹا کر بھی یہ لوگ تبسمِ رخِ زیست (ﷺ) کی سنت نہیں بھولے ۔ تاہم حیرت اس بات پر تھی کہ جہاں 7؍ اکتوبر سے بجلی بند ہو وہاں برقی قمقمے کیسے روشن ہیں؟
یہ کمال غزہ کے ننھے سائنسدانوں کا ہے جو ہوا سے بجلی بنانے کا ہنر سیکھ چکے ہیں ۔ تنکوں اور بانس کے کھانچوں سے Wind mill بناکر انہیں بحیرہ روم کے رخ پر نصب کردیا گیا ہے۔ نسیم بحری کے تیز لیکن خوشگوار جھونکوں سے جب یہ چرخی گھومتی ہے تو مقامی الیکٹریشنز کے تیار کردہ چھوٹے چھوٹے converter ہوا کی قوت کو برقی توانائی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ یہی بجلی ان کے قمقموں کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ہوا سے حاصل ہونے والی برقی توانائی کا بنیادی مقصد موبائل فون کو چارج اور انٹرنیٹ کو چالو رکھنا ہے۔
رمضان کے بارے میں قربانی و فرض شناسی کی ایک مثال سے ہم گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں کھجور و پانی سے سحر و افطار کو سادگی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن شمالی غزہ میں ٖڈاکٹروں سمیت طبی عملے کو کھجور بھی میسر نہیں اور وہ افطار دو گھونٹ پانی سے کر رہے ہیں۔ پاکستان کی الخدمت سے آنے والا تھوڑا سا غذائی سامان موجود ہے لیکن مسیحاوں نے وہ اپنے مریضوں کو دے دیا کہ فاقہ زدہ بچے اور پُر امید ماوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
عارضی فائر بندی کی کوششیں جاری ہیں لیکن اہل غزہ ، مستقل جنگ بندی، غزہ سے جارح فوج کا انخلا اور دربدر ہونے والے باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر تیار نہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے مستضعفین کو کچل ڈالنے اور فتحِ مبین کے دعووں کے علی الرغم ’طالوتیوں‘ کا طنطنہ قابلِ دید ہے۔ اہلِ غزہ خود کو طالوت کا لشکر اور اپنے میزائیلوں کو نیزہِ داودؑ کہتے ہیں۔
امریکی خفیہ اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا گہا گہا ہے غزہ کے مزاحمت کار بہت سخت جان ہیں اور ان کا خاتمہ آسان نہیں۔ یہ صابر و ثابت قدم لوگ کئی برس تک اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ امریکہ کے وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI) سی آئی ائے، ملٹری انٹیلیجنس اور قومی سلامتی کے مشیر نے تفصیلی مطالعے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں مزاحمت کو کچلنے میں کئی سال لگیں گے۔ عوام کی مدد اور راسخ مذہبی عقیدے کی بنا پر انہیں ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف غزہ قتل عام پر دنیا کا ردعمل سخت ہوتا جارہا ہے اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو امریکہ کے لیے اسرائیل کی حمایت مشکل ہوجائے گی۔
اپنے سراغ رسانوں کی رپورٹ کے باوجود صدر بائیڈن اسرائیل کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سات مارچ کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بے شرمی سے کہا ’ہمیں اندرونی چیلنجز کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں بھی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ اس بحران کا آغاز 7؍ اکتوبر کو دہشت گرد گروپ کے قتل عام سے ہوا، جب 1200 بے گناہ مردو عورت، لڑکیوں اور لڑکوں کو قتل کیا گیا، کچھ افراد سے زیادتی بھی کی گئی۔ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے یہ سب سے مہلک دن تھا ۔اسی کے ساتھ 250 معصوم افراد یرغمال بنالیے گئے‘ ۔ اسرائیلی بمباری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’اسرائیل کو جوابی حملوں کا حق حاصل ہے‘۔ فلسطینیوں کے لیے امن کا شرم ناک حل پیش کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولے ’ یرغمالیوں کو رہا اور ہتھیار ڈال کر دہشت گرد یہ تنازعہ آج ہی ختم کرسکتے ہیں‘ ۔ امریکی صدر کے بزدلانہ انداز پر مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی وزرائے خارجہ کے سابق مشیر اور کارنیگی انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دانشور ڈاکٹر ہارون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ ’ثابت ہوگیا کہ سُپر پاور کون ہے،کمزور جو بائیڈن کا نیتن یاہو سے کوئی مقابلہ نہیں‘ غزہ میں قوت قاہرہ کے ہولناک استعمال کے بعد بھی اسرائیل اب تک اپنے عسکری اہداف حاصل نہیں کرسکا چنانچہ رفح پر ہلاکت خیز حملے کی دھمکیوں کے ساتھ اسرائیلی موساد کے سربراہ قطر میں مستضعفین سے امن مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔ چند دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے رفح پر حملے کی منظوری دے دی ہے لیکن دوسرے ہی دن عسکری نامہ نگاروں نے شمالی خان یونس کے علاقے حمد ٹاون سے اسرائیلی فوج کی مشرقی سمت پسپائی کی خبر لگادی۔ اس علاقے میں دو دن سے گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ واضح نہیں کہ یہ پسپائی عارضی اور جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے یا امن معاہدے کے لیے اہل غزہ کی شرط پوری کرنے کی طرف ایک قدم۔ مستضعفین نے اسرائیلی فوجوں کی 7؍ اکتوبر کے نشان پر واپسی کو جنگ بندی کی کلیدی شرط قرار دیا ہے۔
اسی کے ساتھ اسرائیل نے اپنے عرب ہمدردوں سے مدد طلب کرلی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیرالبحر دانیال ہجری نے رفح حملے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے لیے وسط غزہ میں ایک ’انسانی جزیرہ‘ قائم کیا جا رہا ہے جہاں ان 14 لاکھ شہریوں کو عارضی طور پر رکھا بلکہ ٹھونسا جائے گا۔ یہ کام مصر کی مدد سے ہوگا۔
اس سے دو روز پہلے مقتدرہ فلسطین (PA) کے ڈائریکٹر محکمہِ سراغرسانی ماجد فراج نے اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر سلامتی ذکی نقبی Tzachi Hanegbi سے ملاقات کے بعد غزہ کی حفاظت کے لیے خصوصی فوج قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ایل او کے عسکری دستوں اور مصری سپاہیوں پر مشتمل اس فوج کی مالی اعانت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کریں گے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ جنگ بندی کے لیے اہل غزہ پر قطر کا دباو بڑھ گیا ہے اور دوحہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مستضعفین جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہ ہوئے تو ان کے رہنماوں کو قطر سے نکال دیا جائے گا۔ گویا اہل غزہ کو کچلنے کا ہدف اب مصر اور خلیجی ممالک کو دے دیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت ’فلسطینی فوج‘ کے غزہ اترتے ہی اسرائیلی دستے واپس بلالیے جائیں گے اور لڑائی کے مشکل لمحات میں اسرائیلی فضائیہ نصرت فراہم کرے گی۔
سازش کے خلاف عرب عوام کی متوقع مزاحمت کو کچلنے کی پیش بندی بھی کرلی گئی ہے۔ اخوان المسلمون کے مرشدِ عام سمیت صفِ اول کے 6 رہنماوں کو سنائی گئی سزائے موت پر رمضان کے دوران ہی عمل درآمد بعید از قیاس نہیں۔ دوسری جانب مصر کے طول و عرض سے خواتین اور بچوں سمیت اخوان کے ایک لاکھ کے قریب ہمدرد عقوبت کدوں کی زینت بنا دیے گئے ہیں۔ اس ’جرات مندانہ‘ قدم کی مغرب کی جانب سے فوری پزیرائی ہوئی اور عالمی مالیاتی فنڈ نے آسان شرائط پر قاہرہ کو 8 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کر دیا۔ مصر نے صرف تین ارب کی درخواست کی تھی۔ کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔
مستضعفین کے خلاف نئے سیاسی بیانئے کی ’رونمائی‘ بھی ہوگئی۔ پندرہ مارچ کو پی ایل او کے ترجمان نے مستضعفین کو غزہ نسل کشی کا موردِ الزام ٹہراتے ہوئے کہا کہ یہ سب سات اکتوبر کی غیر ذمہ دارنہ مہم جوئی کا شاخسانہ ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو 1948 کے نکبہ سے بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ ترجمان نے الزام لگایا کہ اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے دیگر فلسطینی رہنماؤں سے مشاورت نہیں کی گئی اور ذمہ داروں کی زمینی حقائق سے بے خبری و فلسطینی عوام سے لاتعلقی نے یہ دن دکھاے ہیں۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اہل غزہ اپنی پشت پر ہمدری کے زہر میں بجھے خنجروں کے وار کیسے برداشت کریں گے لیکن ان کے بے مثال صبر نے ساری دنیا کو متاثر کیا ہے۔امریکہ میں قرآن کی مانگ کے ساتھ قبول اسلام کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رمضان کے آغاز پر معروف سماجی کارکن اور لکھاری شون کنگ اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے دوسرے دن سات افراد قافلہِ توحید کے نئے رفیق بن گئے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل غزہ کی ثابت قدمی نے ہمیں اس کتاب کے مطالعے پر مجبور کیا جس نے کم زور وناتواں عورتوں کو استقامت کا پہاڑ بنا دیا اور کتاب اللہ کی ابتدائی چند آیات نے ہماری فکر بدل ڈالی۔
گزشتہ ہفتے آسکر (Oscar) کی تقریب کے موقع پر ایوارڈ کے لیے نامزد کیے جانے والے فن کاروں نے اپنے سینیوں پر Artists4Ceasfire کی سرخ پن آویزاں کی اور چار سو فن کاروں نے ایک مشترکہ خط میں فوری اور مکمل غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ تقریب کے دوران جب مظاہرین فلسطینی پرچم لے کر ہال میں داخل ہوئے تو فن کار احتراماً کھڑے ہوگئے اور زور دار تالیاں بجائیں۔
گلو کاروں اور فن کاروں کے ساتھ امریکی اہلِ قلم بھی غزہ نسل کشی پر مضطرب ہیں۔ امریکی ادیبوں کی نمائندہ تنظیم خامہ امریکہ (Pen America) کے درجنوں ارکان نے ادارے کی جانب سے مئی میں ہونے والے عالمی صوتی میلے World Voice Festival کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بورڈ کے نام اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ پین امریکہ غزہ جنگ بندی کا موثر و پر زور مطالبہ کرنے میں
ناکام رہی ہے جو تنظیم کے تاسیسی اصول یعنی "بلا امتیاز امن و مساوات اور ہر لکھنے والوں کے لیے دنیا بھر میں آزادی اور سلامتی’ سے پہلو تہی ہے۔ ادیبوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب غزہ کے اہل قلم وحشیانہ بمباری سے زندہ در گور ہو رہے ہیں، ہم امریکہ میں جشن کا تصور بھی نہیں کرسکتے یعنی جب دل زخمی ہو تو چراغاں نہیں ہوتا۔
دنیا کے سلیم الفطرت انسانوں اور حکومتوں کی جانب سے متکبرین اور ان کے سہولت کاروں کا قانونی تعاقب بھی جاری ہے۔ ہفتہِ رفتہ نکاراگوا (Nicaragua) نے عالمی عدالت انصاف کو دہائی دی کہ غزہ نسل کشی میں جرمنی بھی ملوث ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جرمنی اہل غزہ کی نسل کشی روکنے کے لیے اہم کردار ادا کرنے کے بجائے اسرائیل کی حمایت و استعانت کر رہا ہے اور اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو چندہ دینا بھی بند کر دیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ تفصیلی سماعت اور فیصلے سے قبل جرمنی کے خلاف عبوری تادیبی کارروائی کا حکم جاری کیا جائے۔ ہیگ میں قائم عالمی عدالت اس درخواست کی سماعت 8 اور 9 اپریل کو کرے گی۔
اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ امریکی سینیٹ کے قائد ایوان، چک شومر نے اسرائیلیوں کو نئی قیادت کے انتخاب کا مشورہ دیا ہے۔ فاضل سینیٹر، ایک راسخ العقیدہ یہودی اور اسرائیل کے پر جوش حامی ہیں۔اب سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 17؍ مارچ کو فاکس نیوز کے پروگرام Fox & Friends میں انہوں نے کہا کہ ہمیں امن چاییے، پر امن مشرق وسطیٰ دنیا کی ضرورت ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلی بار انتہائی غیر مبہم انداز میں جنگ بندی کی بات کی ہے۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ چک شومر کی جانب سے اسرائیل میں regime change کی خواہش پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف بولے کہ یہ سب (فلسطین کے حق میں) مظاہروں کا نتیجہ اور ووٹ بٹورنے کی ترکیب ہے۔
اعتراف: نبی مہربان (ص) کے لیے ’تبسمِ رخِ زیست‘ کا لفظ پروفیسر عنایت علی خان کے اس شعر سے لیا گیا ہے کہ
کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

 

***

 یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اہل غزہ اپنی پشت پر ہمدری کے زہر میں بجھے خنجروں کے وار کیسے برداشت کریں گے لیکن ان کے بے مثال صبر نے ساری دنیا کو متاثر کیا ہے۔امریکہ میں قرآن کی مانگ کے ساتھ قبول اسلام کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رمضان کے آغاز پر معروف سماجی کارکن اور لکھاری شون کنگ اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے دوسرے دن سات افراد نے قافلہِ توحید کے نئے رفیق بن گئے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل غزہ کی ثابت قدمی نے ہمیں اس کتاب کے مطالعے پر مجبور کیا جس نے کم زور وناتواں عورتوں کو استقامت کا پہاڑ بنا دیا اور کتاب اللہ کی ابتدائی چند آیات نے ہماری فکر بدل ڈالی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024