رام راجیہ میں ‘بنت حوا ہوں یہ میرا جرم ہے’
منوسمرتی کو نافذ کرنے کا غیر اعلانیہ طریقہ یا پھر کچھ اور؟
ڈاکٹر سلیم خان
کانپور میں دو لڑکیوں کی عصمت دری اور ٹرپل خودکشی پر خاموشی، چہ معنی دارد
سندیش کھالی جاکر سیاست کرنے کے لئے اسمرتی ایرانی کے پاس وقت ہے۔اپنی ریاست کے مظلوموں کے لئے نہیں!
8؍ مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ بی جے پی امسال انتخابات کے پیش نظر یہ دن سندیش کھالی کی نذر کرنا چاہتی تھی لیکن کانپور نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ۔ کانپور دراصل کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں پر وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں رام راجیہ قائم ہوچکا ہے۔ بابا کا بلڈوزر جرائم پیشہ افراد کے گھروں کی بو سونگھ کر انہیں زمین دوز کردیتا ہے۔ یوگی کی پولیس مجرم پیشہ لوگوں کا انکاونٹر کردیتی ہے لیکن اس کے لیے ملزم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ وہ اگر نام نہاد اونچی ذات کا یا راجپوت ہے تو بلڈوزر کی بینائی چلی جاتی ہے اور پولیس کے ہاتھ مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاملے میں مظلوم اگر نام نہاد اونچی ذات سے تعلق رکھتا ہو تو قانونی کاروائی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے لیکن اگر وہ دلت ہے تو اس کی جانب سے آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔ اس رام راجیہ میں مظلومین کی حمایت کرنے والے صدیق کپن جیسے لوگوں کو معتوب کیا جاتا ہے۔ منو سمرتی کے انہی تقاضوں کے نفاذ کے لیے وزیر اعظم مودی نے رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ مئو سے لے کر ہاتھرس اور کانپور کے واقعات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سندیش کھالی میں شاہ جہاں شیخ ٹی ایم سی کا ایک ضلعی لیڈر ہے۔ اس پر راشن گھوٹالہ معاملہ میں 5؍جنوری کو ای ڈی نے چھاپہ مارا مگر شاہ جہاں کے دو سو سے زیادہ حامیوں نے انہیں مار بھگایا۔ اس کے بعد شاہ جہاں شیخ کو مفرور قرار دیا گیا مگر مقامی لوگوں کے مطابق وہ کہیں نہیں گیا بلکہ وہیں تھا۔ آگے چل کر اچانک شاہ جہاں شیخ اور اس کے دو ساتھیوں شیبو ہزارہ اور اتم سردار پر سندیش کھالی کی خواتین کے جنسی استحصال اور زمینوں پر غیر قانونی قبضے کا الزام لگ گیا۔ پہلے تو ٹی ایم سی نے اس کا انکار کیا مگر میڈیا، بی جے پی اور عدالت کا دباؤ آیا تو پولیس نے پہلے شیبو ہزارہ اور اتم سردار سمیت اٹھارہ افراد اور بعد میں شاہ جہاں شیخ کو بھی گرفتار کرلیا۔ اس کے ساتھیوں کا نام چھپا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ٹی ایم سی نے شاہ جہاں شیخ کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین پر باہر سے سیاسی تحریک چلانے کے لیے لائے جانے کا الزام لگا کر جنسی استحصال کی تردید کر دی۔ خیر اس معاملہ میں بہت جلد تحقیق و تفتیش کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔
شاہ جہاں شیخ کی آڑ میں خواتین واطفال کے فلاح وبہبود کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے اپنے سیاسی حریف راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندیش کھالی میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی ہندوستانی کی سمجھ سے باہر ہے۔ کانگریس کے دیگر لیڈر سندیش کھالی جا کر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن سیاست کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے شہزادے نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ کانپور میں جنسی زیادتی کے بعد ٹرپل خود کشی کے واقعات پر اسمرتی ایرانی کی خاموشی نے یہی الزام ان کی جانب لوٹا دیا۔ انہیں بنگال کی ہندو خواتین کا درد تو ستا رہا ہے مگر کانپور میں خواتین کی خود کشی کرنے والی دو بہنیں یاد نہیں آتیں حالانکہ وہ بھی تو ہندو ہیں۔ دونوں معاملات میں بس یہ فرق یہ ہے کہ کانپور میں جنسی استحصال کرکے ویڈیو بنانے کا الزام کسی مسلمان پر نہیں ہے۔ وہ اگر مسلمان ہوتا تو اب تک اسمرتی ایرانی سمیت وزیر اعظم مودی بھی اظہار تاسف کرچکے ہوتے کیونکہ دونوں کے حلقہائے انتخاب اتر پردیش میں ہیں۔ بابا کا بلڈوزر نہ جانے کتنے گھر برباد کرچکا ہوتا اور یو پی پولیس کے انکاونٹر میں کئی اضافے ہوگئے ہوتے۔ میڈیا صبح سے شام تک ان واقعات پر اسمرتی، یوگی اور مودی کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دیتا مگر سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ چہار جانب ایک پر اسرار سناٹا چھایا ہوا ہے کوئی ایک معمولی ٹویٹ کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
سندیش کھالی پر اسمرتی ایرانی کا کہنا ہے کہ جن خواتین نے برسوں تک ممتا کا ساتھ دیا، انہیں اغوا کیا گیا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔یہی بات کانپور کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ یوگی، مودی اور اسمرتی کو ووٹ دینے والوں کو جنسی استحصال کے بعد خو دکشی پر مجبور کیا گیا مگر سبھی کی زبان پر قفل لگا ہوا ہے۔ عالمی یوم خواتین کی تیاری کم از کم ایک ہفتہ پہلے شروع ہوجاتی ہے لیکن اس دوران اتر پردیش کے سب سے بڑے صنعتی شہر کانپور میں مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کے بعد دو لڑکیوں کی خودکشی کے 6 دن بعد ان میں سے ایک کے باپ نے بھی خود کشی کر لی۔ یہ سانحہ یوم خواتین کے عین پہلے والی شام کو منظر عام پر آیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) دیکشا شرما نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ سیسولر تھانہ علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک 45 سالہ شخص کی نعش بدھ کے روز نامعلوم حالات میں درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ متوفی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ عصمت دری معاملے کے مجرموں کے گھر والوں کے سمجھوتہ کرنے کی دھمکیوں سے پریشان ہوکر مدعی نے خود کشی کرلی۔
کانپور کے گھاٹم پور علاقے میں 29؍ فروری کو 16 اور 14 سال کی نابالغ لڑکیاں ایک درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں۔ ان کے خاندان والوں نے الزام لگایا کہ ان نابالغوں کی چند روز قبل عصمت دری کی گئی تھی۔ یہ بدنصیب لڑکیاں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی تھیں۔ متوفی لڑکیوں کے اہل خانہ نے ٹھیکیدار رام روپ نشاد، اس کے بیٹے رجوّن اور بھتیجے سنجے پر اجتماعی زیادتی کا الزام لگایا۔ ان درندوں کا بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیو بنانا ان کی خود کشی کا بنیادی سبب بنا۔ اس معاملے میں 48 سالہ ٹھیکیدار رام روپ نشاد یوگی کے راون راج میں رام کا نیا روپ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے ساتھ 18 سالہ بیٹے راجو اور 19 برس کے بھتیجے سنجے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ سب ضلع ہمیر پور ضلع کے رہنے والے ہیں۔ اس سانحہ کی خاموشی کو توڑتے ہوئے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نےان لڑکیوں کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بارے میں کہا کہ اتر پردیش میں جنگل راج ہے، اور قانون نام کی چیز نہیں باقی نہیں رہ گئی ہے۔ ایسے میں آخر ریاست کی کروڑوں خواتین کیا کریں، کہاں جائیں؟
پرینکا گاندھی نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ ’’کانپور میں اجتماعی عصمت دری کا شکار دو نابالغ لڑکیوں نے خودکشی کر لی۔ اب ان لڑکیوں کے باپ نے بھی خودکشی کر لی ہے، یہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔ الزام ہے کہ متاثرہ کے خاندان پر سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا‘‘۔ پرینکا گاندھی نے خودکشی کے ان واقعات کی وجہ بتاتے ہوئے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید کہا کہ انصاف مانگنے والی لڑکیوں اور خواتین کا انصاف مانگنا اتر پردیش میں ان کے خاندانوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ اناؤ اور ہاتھرس سے لے کر کانپور تک جہاں کہیں بھی خواتین پر تشدد کیا گیا ان کے خاندان کو بھی تباہ کر دیا گیا تاکہ ظلم کے خلاف ان کی آواز کو دبا دیا جائے۔ فی الحال اس مقصد کے حصول کے لیے پولیس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اتر پردیش میں پولیس کی تساہلی سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مجرمین کو بچانا چاہتی ہے۔ یو پی میں نشاد سماج بی جے پی کا بہت بڑا حامی ہے اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی خاطر مظلوموں کی جانب سے نظریں پھیر لی گئی ہیں کیونکہ اس مفروضے کے حق میں کئی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
اس سانحہ کی ایک چشم دید گواہ یعنی متوفیہ کی چھوٹی بہن نے روزنامہ بھاسکر کے نامہ نگار کو بتایا کہ جس وقت دونوں بدمعاش گھر میں گھسے تو ان کے والد گاؤں گئے ہوئے تھے۔ دوپہر دو بجے کے وقت ٹھیکیدار کے بیٹے رجوّ اور سنجے نے کمرے میں گھس کر پہلے تو لڑکیوں کو شراب پلائی اور پھر ان کے ساتھ زیادتی کی۔ان میں سے ایک بدمعاش جب دست درازی کر رہا تھا تو دوسرا ویڈیو بنا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر گواہ لڑکی نے ملزم کے ہاتھ سے فون چھین لیا تو اس کی پٹائی کی گئی۔ سنجے نے دھمکی دی کہ بھاگ جا ورنہ تیری دیدی اور والد کو بہت ماریں گے۔ بی جے پی ہندوؤں کو جس دلیری کی تعلیم دیتی ہے یہ اس کا ایک نمونہ ہے۔ منی پور سے لے کر کانپور تک بھگوا درندے خواتین کی آبروریزی کرتے ہوئے ویڈیو بناتے ہیں اس لیے کہ انہیں یقین ہے ’جئے شری رام‘ کا ایک نعرہ ان کی رہائی کے لیے کافی ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ دونوں یکلخت حمایت میں آجائیں گے اور ان کے خلاف سارے ثبوت مٹا دیے جائیں گے۔ منوسمرتی کو نافذ کرنے کا یہ غیر اعلانیہ طریقہ ہے۔ اس لڑکی نے اپنے والد کو فون پر ساری تفصیل بتادی۔ رات میں والد گھر لوٹنے پر وہ لوگ ٹھیکیدار کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو وہ مار پیٹ پر اتر آیا۔ اس اہم ترین گواہ کا بیان تک نہیں لیا جانا پولیس کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔
فوت ہونے والی دونوں لڑکیاں چچا زاد بہنیں تھیں۔ ان میں سے ایک کے والد نے تو خود کشی کرلی مگر دوسری کے باپ نے نامہ نگار کو بتایا کہ رجوّ کے باپ ٹھیکیدار رام روپ کے اینٹ کے بھٹے پر کام کرنے والے بیس لوگوں میں اس کا بھائی اور دونوں کی ایک ایک بیٹی شامل تھے۔ 27؍ فروری کو بیشتر مزدو چھٹی پر تھے۔ شام کو پانچ بجے بھتیجے نے فون کرکے کے بتایا کہ ٹھیکیدار کے بیٹے اور بھتیجے نے دونوں بہنوں کے ساتھ زبردستی کی اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ جلدی سے آجائیے۔ وہ گھر پہنچا تو لڑکیاں لپٹ کر رونے لگیں۔ انہوں نے ساری تفصیل بتا کر ویڈیو بنانے کی شکایت بھی کی۔ وہ لوگ رام روپ کے گھر شکایت لے کر پہنچے تو اس نے مارپیٹ کے بعد دھمکی دی کہ اگر بیٹی کی زندگی چاہتے ہو تو منہ بند رکھو۔ اس کے پیش نظر تو خود کشی کے بجائے قتل کے زاویہ سے تحقیق ہونی چاہیے۔ اگلے دن ویڈیو کی بات پھیل گئی تو وہ پھر ٹھیکیدار کے پاس گیا لیکن اسے پھر مار پیٹ کر بھگا دیا گیا۔ گھر آنے کے بعد ایک مظلومہ نے کھانا دیا اور رفع حاجت کے لیے گئی تو دو گھنٹے نہیں لوٹی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دو گھنٹوں سے دوسری بہن بھی غائب ہے۔
تلاش بسیار کے بعد کھیت کی پگڈنڈی پر پہلے چپل ملی اور پھر بیر کے پیڑ سے لٹکی ہوئی لاشیں مل گئیں جو دوپٹے سے جھول رہی تھیں۔ پولیس کی مدد اگر صحیح وقت پر ملتی تو یہ سانحہ ٹل سکتا تھا۔ اس واقعہ کے 6 دنوں بعد ایک لڑکی کے والد نے بھی خود کشی کر لی۔ اس کی بیوی کے مطابق رام روپ کے علاوہ دو لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے بعد بھٹے پر ٹھیکیدار نے پریشان کرنا شروع کردیا تھا اور گاؤں میں لوٹے تو اس کی بیوی نرملا نے جینا حرام کر دیا۔ وہ لوگ مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ پولیس کے مطابق چونکہ پوسٹ مارٹم میں تاخیر ہوئی اس لیے موت کا سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ تاخیر کیوں ہوئی؟ اب وِسرا کی جانچ ٹال مٹول کا بہانہ ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے آنر کلنگ کے زاویہ سے بھی جانچ کا اشارہ دیا ہے، یعنی اب یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ باپ نے پہلے اپنی عزت کے ڈر سے بیٹی اور بھتیجی کو قتل کیا اور پھر خودکشی کرلی۔ پولیس اگر ایسا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے تو سارے مجرم باعزت بری ہوجائیں گے۔ یوگی کی اندھی نگری چوپٹ راج میں اس کا قوی امکان ہے۔
اتر پردیش کے کانپور میں خواتین پر مظالم کے ایسے واقعات صرف غریب طبقہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ امسال 18 جنوری کو آئی آئی ٹی کانپور میں خودکشی کا ایک ماہ میں تیسرا واقعہ پیش آیا۔ اس میں جھارکھنڈ کی ایک طالبہ پرینکا جیسوال نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اس سے قبل ماہِ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اڈیشہ کی ریسرچ فیکلٹی ڈاکٹر پلوی نے بھی خودکشی کی تھی۔ علاوہ ازیں نئے سال کے پہلے ہفتہ میں میرٹھ کے پی ایچ ڈی طالب علم وکاس مینا نے کیمپس کے اندر جان دے دی تھی۔ اتفاق سے ملک کے نامور تعلیمی ادارے میں بھی حال میں دو خواتین اور ایک مرد نے خودکشی کی۔ اس سے قبل جون میں بی اے ایل ایل بی طالبہ انجلی وشوکرما نے گنگا بیرج میں چھلانگ لگا کر جان دے دی۔ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ نعرے کی یہ حقیقت ہے۔ اس کو ڈیڑھ سال قبل اسمرتی ایرانی نے سماج میں ایک بڑی تبدیلی کا شاخسانہ کہا تھا۔ ان کے بعد وزیر مملکت برائے خواتین و اطفال نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں ناری شکتی’خواتین کی قوت‘ نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور وہ نئی بلندیوں کی جانب گامزن ہے۔ کیا اس سنہری دور کی یہی نشانیاں ہیں؟
سمرتی ایرانی پچھلے پانچ سال سے خواتین و اطفال کی فلاح وبہبود کی وزیر ہیں۔ 27؍ جولائی 2021 کو انہوں نے ملک بھر میں خواتین کی حفاظت اور ان کے تحفظ کو مزید بہتر بنانے، نیز ان کی بہبود کو ہر لحاظ سے یقینی بنانے کے لیے خواتین کے قومی کمیشن کی ساتوں دن چوبیس گھنٹے چلنے والی ہیلپ لائن نمبر۔ 7827170170 کا افتتاح کیا تھا۔ اس ہیلپ لائن کا مقصد تشدد کا شکار خواتین کو مدد فراہم کرنا اور انہیں پولیس، اسپتال، قانونی اور نفسیاتی خدمات بہم پہنچانا ہے۔ سمرتی ایرانی کے مطابق یہ ڈیجیٹل ہیلپ لائن خواتین کو پیغام دیتی ہے کہ جب بھی انہیں مدد کی ضرورت ہوگی ان کی حکومت اور ان کا کمیشن ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اس ہیلپ لائن کا مقصد تشدد کا شکار خواتین کو 24 گھنٹے شکایات کے ازالے اور کاؤنسلنگ کی خدمات فراہم کرنا ہے تاکہ ان کو پولیس، ہسپتال، قانونی خدمات کے ضلع حکام اور نفسیاتی مدد کے لیے متعلقہ افراد تک رسائی مل سکے۔
خواتین کا یہ واحد نمبر اگر فعال ہوتا اور اس کے ذریعہ ملک بھر میں حکومت کے پروگراموں کی معلومات مظلومین تک پہنچتیں تو یہ سارت سانحات نہ ہوتے مگر یہ ساری ڈھکوسلہ بازی محض جملہ کی حد تک محدود ہے ورنہ ان تین لوگوں کی جانیں نہیں جاتیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے شائع ہو جانے کے بعد اسمرتی ایرانی کو خود جا کر مظلوم لڑکیوں سے ملاقات کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایک امیٹھی سے دو سو کلومیٹر سے کم فاصلے پر ہے، لیکن ان کو سندیش کھالی کی سیاست سے فرصت ملے تو اپنے صوبے کی جانب توجہ دیں گی۔ راہل گاندھی کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ ’’نریندر مودی کی ڈبل انجن حکومتوں میں ہونے والے ’ڈبل انیائے‘ (دہری ناانصافی) کو ان دو واقعات سے سمجھیے۔ یو پی میں دو بہنوں نے عصمت دری کے بعد پھانسی لگا لی اور انصاف نہ ملنے اور مقدمہ واپس لینے کے دباؤ میں ان کے والد کو بھی پھانسی لگانی پڑی۔ مدھیہ پردیش میں ایک خاتون کی عزت سر بازار تار تار ہوئی، اس کے غریب شوہر نے انصاف کی اپیل کی لیکن سماعت نہ ہونے سے مایوس ہو کر اپنے دونوں بچوں سمیت پھانسی پر جھول گیا۔‘‘ یہ مودی کے راون راج کی چند مثالیں ہیں جن سے قوم کا سر شرم سے مزید جھک گیا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024