قرآنی تعلیمات کی عصری معنویت

کلام الٰہی سے رجوع ہو کر ہی مسلمان حالات سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

بھارتی سماج میں موجود چھوت چھات کی لعنت اور سماجی برائیوں کے خلاف کام کرنے کی ضرورت
اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنی بے شمار نعمتیں نچھاور کی ہیں۔ ان ساری نعمتوں میں قرآن مجید وہ عظیم ترین نعمت ہے جس سے رہنمائی پا کر انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ وہ نسخہ کیمیاء ہے جس میں گروہ انسانی کے سارے مسائل کا حل موجود ہے۔ قرآن مجید زندگی کی رہنما کتاب (Guide Book) ہے۔ قرآنی تعلیمات کی معنویت ہر دور میں رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں ہی جب مخالفین و منکرینِ قرآن نے اس کی صداقت پر سوال اٹھایا تو ان کو ایک سے زائد بار اس کتاب کے ذریعہ چیلنج کیا گیا کہ وہ ایسی کوئی سورت یا چند آیتیں ہی اس کے بالمقابل پیش کریں لیکن یہ چیلنج چودہ صدیاں پوری ہونے کے باوجود کوئی بھی آج تک قبول نہ کرسکا۔ یہ اس کتاب کی حقانیت کا واضح ثبوت ہے۔ عصر حاضر میں پھر ایک مرتبہ قرآن مجید کی تعلیمات سے منحرف کرنے اور انسانیت کو اس کے پیغام سے دور رکھنے کے لیے مذموم کوششیں باطل طاقتوں کی جانب سے پورے زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خود امت مسلمہ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس کی آفاقی ہدایات کو دوسروں تک پہنچانے میں غفلت کا شکار ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کی اسی بے توجہی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں قرآنی تعلیمات کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ملک کی عدالتوں میں قرآن پر پابندی کے مقدمے دائر کئے جا رہے ہیں۔ شر پسند عناصر کی جانب سے قرآن مجید کو جلانے کی انسانیت سوز حرکتیں ہو رہی ہیں۔ حالات کے اس تناظر میں حاملینِ قرآن کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے قرآن مجید کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبہ کو واضح کر تے ہوئے اس کی حکمت و دانائی پر مبنی تعلیمات سے لوگوں کو واقف کرائیں۔ ملک میں یہ عظیم فریضہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (۱۷۰۳۔۱۷۶۲ء ) نے اس وقت انجام دیا تھا جب یہاں مسلمانوں کی حکومت ہونے کے باوجود مسلم عوام تو عوام، خواص بھی قرآن سے دور ہو گئے تھے۔ بادشاہ، امراء، علماء، صوفیاء اور سرکاری افسران میں قرآن سے کوئی خاص تعلق رکھنے کا جذبہ مفقود ہو گیا تھا۔ ایسے نازک وقت میں حضرت شاہ صاحب نے اپنی اصلاحی تحریک شروع کی اور پوری امت کو "رجوع الی القرآن والسنتہ” کی دعوت دی۔ انہوں نے مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے یہ ضروری سمجھا کہ جب تک امت کو قرآن و سنت پر جمع نہ کیا جائے ان کے امراض کا علاج ممکن نہیں ہے۔ ان کی اس تحریک کا یہ نتیجہ نکلا کہ لوگ پھر ایک مرتبہ قرآنی تعلیمات کو اپنانے کی طرف راغب ہوئے۔ موجودہ حالات بھی اس بات تقاضا کرتے ہیں کہ امت کو قرآن کی طرف رجوع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ یہی وہ سرچشمہ ہدایت ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کی آلودگیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ملک و ملت کی اس بگڑتی صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ ساری گتھیوں کو سلجھانے کے لیے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ یہ اس لیے کہ قرآن کے پیغام کی معنویت کسی خاص زمانے یا کسی خاص قوم تک محدود نہیں ہے۔ اس کی تعلیمات ہر دور کے انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ آج انسانیت خطرناک مسائل کا شکار ہو کر سسک رہی ہے۔ اس کو اس ہولناک کیفیت سے نکالنے میں قرآنی آیات تیر بہدف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آج ہر طرف فتنہ و فساد، انتشار و افتراق اور بدامنی اور بے اطمینانی کا دور دورہ ہے۔ افراتفری کے اس ماحول میں رجوع الی القرآن کی دعوت دینا ہی دراصل امت مسلمہ کا اہم فریضہ ہے۔
موجودہ دور میں انسانیت کو درپیش سب بڑا چیلنج انسانی حقوق کے تحفظ کا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس عصری دور کو انفجارِ علم (Explosion of Knowledge) کا دور کہا جا رہا ہے۔ علوم و فنون کے دریا اس وقت بہتے نظر آ رہے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے فروغ کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان ساری ترقیوں کے باجود ایک دوسرے کے حقوق کو ہڑپ لینا، حکومتوں کی جانب سے کسی مخصوص طبقہ کی آزادیوں کو سلب کرلینا اور جمہوری طرز حکومت میں بھی اظہار رائے پر قدغن لگا دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ عصری دنیا انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں ابھی بھی فکر مند نہیں ہے۔ قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے احترام آدمیت کا درس دیا تھا۔ قرآن مجید میں جہاں عبادات پر زور دیا گیا وہیں انسانوں کی جان و مال، ان کی عزت و آبرو اور آزادی رائے کو انسانوں کے بنیادی حقوق قرار دیتے ہوئے ان کے تحفظ کی ذ مہ داری معاشرہ اور حکومت پر رکھی۔ قرآن نے واضح کر دیا کہ ہر انسان بلا لحاظِ مذہب، ذات، رنگ و نسل، جنس و علاقہ عزت و تکریم کا مستحق ہے۔ قرآن نے جا بجا انسان کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سب سے محترم و مکرم ہستی قرار دیا۔ ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘ (سورہ التین :۴) لیکن آج دنیا میں انسانوں کی تقسیم اس کے مذہب اور ذات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ انسانوں کو اعلیٰ اور ادنی ذاتوں میں تقسیم کر کے ان کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ ملک میں کئی ایسی ذاتیں ہیں جنہیں مندر میں جا کر پوجا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے بچے اسکولوں میں اعلیٰ ذات کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ آج بھی بھارتی سماج ذاتوں کے بندھن سے آزاد نہیں ہو سکا ہے۔ حاملین قرآن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذات پات کی اس لعنت کو دور کرنے کے لیے آگے آئیں اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس سماجی برائی کا خاتمہ کریں۔ آج اسلام پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ دنیا میں خونریزی کی وکالت کرتا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں یہ بھی کہنے لگی ہیں کہ مسلمان ایک خونخوار قوم ہیں، ان سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اس زہریلے پروپیگنڈے کا جواب قرآن سے دیتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ قرآن کریم نے نہ صرف قتل و غارت گری کی سخت مذمت کی ہے بلکہ کسی بے قصور انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ قرآن ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کو اس کے زندگی کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ قرآن کہتا ہے "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کا قتل کیا” ( سورہ المائدہ؍۳۲) موجودہ دور میں وہ عناصر جو خوں آشام بربریت کے مظاہرے کرتے نہیں تھکتے اور نفرت و عناد پر ان کی پوری عمارت ٹِکی ہوئی ہے وہ اسلام کو الزام دے رہے ہیں کہ قرآن میں جو فلسفہ جہاد بیان کیا گیا اسی سے دنیا کا امن و سکون تہہ و بالا ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ خود جانتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کی جو تعلیم دی گئی اس کا مقصد دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنا ہے۔ عصر حاضر میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو لے کر بھی کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ مغربی دنیا نے آزادیِ نسواں کے جو نعرے بلند کیے تھے اس کے نتائج بھی یوروپ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ اس کھوکھلے نعرے نے مغرب میں خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ مقدس رشتوں کا تقدس بھی ختم کر دیا۔مغرب کی نقالی کرتے ہوئے مشرق نے جب عورتوں کو بے لگام کردیا تو اس کے کڑوے کسیلے پھل آج مشرقی دنیا کھانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ یہاں بھی خاندانی روایات اب قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ Faminist Movement نے عورتوں کو ان کا مستحقہ حق تو نہیں دلایا الٹا ان کے Right to Privacy کو بھی ختم کر دیا ہے۔ ماڈرن سماج میں عورت اب ایک Product بن کر رہ گئی ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں جو معاشرہ بنتا ہے اس میں معاشی یا سماجی عدم مساوات کا کوئی شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ قرآن نے اجتماعی طور پر ہر ایک کو دوسروں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں یہ ممکن نہیں کہ سارے وسائل پر چند افراد کا قبضہ ہو جائے۔ ہر انسان کی حیثیت ایک امین یا ایک Trustee کی ہے۔ اس لیے وہ اس میں خیانت نہیں کر سکتا۔ سارا مال، ساری صلاحیت اور ساری زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن تاکید کرتا ہے کہ اس کے استعمال میں بھی اللہ کے احکام کو سامنے رکھا جائے۔ خاص طور پر معاشرہ میں معاشی عدل کے قیام کے لیے قرآنی تعلیمات سے بہت کچھ رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کہتا ہے "ان کے مال میں مانگنے والوں اور ناداروں کا حق ہے "(الذاریات ؍۱۹) قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی۔ زکوٰۃ کو اسلام کا اہم رکن قرار دیا گیا۔ صاحب استطاعت زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی برتتا ہے تو اس کے لیے سخت وعید آئی ہے۔ قرآن زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ و خیرات کی بھی ترغیب دیتا ہے تاکہ سماج سے مفلوک الحالی کا خاتمہ ہو اور کوئی معاشی بدحالی کا شکار نہ ہو۔ دنیا میں بہت سارے نظام یہ دعوی لے کر آئے کہ وہ دنیا سے غربت کو ختم کر دیں گے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا، اس لیے کہ ان کے پاس کوئی پائیدار اور مستحکم نظریہ نہیں تھا۔ لیکن اسلام نے قرآن کے ذریعہ انسانوں کی اس طرح ذہن سازی کی کہ غلبہ اسلام کے بعد کہیں پر بھی معاشی عدم مساوات یا امیر و غریب کا فرق نظر نہیں آیا۔ آج اسی تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اہل ثروت اپنی دولت کا کچھ حصہ غرباء اور حاجت مندوں میں تقسیم کریں۔ اس وقت جو عالمی منظر نامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے اس سے کئی قسم کے خدشات اور اندیشے عام انسانوں کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر امت مسلمہ کے لیے عالمی سطح سے لے کر ملکی سطح تک حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ سخت اور آزمائش کے دور میں دین اور شریعت پر جمے رہنا ہی ایمان کی استقامت کا ثبوت ہے۔ اس وقت عام مسلمانوں کو اسلام، قرآن اور رسول کریمﷺ سے برگشتہ کر دینے کی غیر اخلاقی اور ناشائتہ حرکتیں زوروں پر ہو رہی ہیں۔ اسلام کے اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام کو نشان ملامت بنایا جا رہا ہے۔ New World Order کے اب Clash ofCivilisations کا ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اہل مغرب کے ساتھ اہل مشرق بھی اس میں سّر ملارہے ہیں۔ ملک کے روز بدلتے ہوئے حالات بھی اسی سلسہ کی کڑی ہیں۔ دھماکو حالات کو مثبت سمت دینا یہی دراصل اصل کامیابی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ باطل کے اس گھناؤنے کھیل کا شکار ہوئے بغیر اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنے میں انتہائی درجہ تک تگ و دو کرتے ہوئے قرآنی فکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائے۔ خیر امت اور شہادت حق کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے یہ ذ مہ داری پوری امت پر عائد ہو تی ہے کہ قرآن کے پیغام سے دنیا کو روشناس کرائیں۔ پورے دلائل و شواہد کے ساتھ قرآنی تعلیمات کو پیش کیا جائے تو کوئی عجب نہیں کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں۔
یہی وہ اصل سر چشمہ ہدایت ہے جو ہمیں ہر محاذ پر کامیابی و سربلندی عطا کرتا ہے۔ امت کا تعلق قرآن سے کمزور ہو جائے تو پھر امت باہمی اختلاف اور انتشار کا شکار ہو جائے گی، امت قرآنی تعلیمات پر کار بند ہو کر پوری دنیا کو یہ پیغام دے کہ قرآنی تعلیمات کے ذریعہ ہی عصری دنیا کے سارے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ قرآن ہی دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو رہتی دنیا تک اپنی معنویت باقی رکھے گی، اس کے برخلاف کوئی اور کتاب یہ دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اس لیے رجوع الی القرآن کی مہم وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ اس مہم میں امت کے سارے افراد بالخصوص علماء، نوجوانوں اور خواتین کی شمولیت ملک و ملت میں ایک انقلاب پیدا کردے گی۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022