قرآنی تعلیمات اور دور جدید کے اقتصادی چیلنجز

قرآن کی صرف تین آیات پر عمل کرکے عام آدمی کی معاشی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے

ڈاکٹر فرحت حسین،اتر اکھنڈ

قرآن معاشیات کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں انسانی زندگی کے اس اہم شعبہ سے متعلق بہت ضروری اور بنیادی ہدایات اور رہنمائی اللہ کی طرف سے مہیا کرادی گئی ہیں، جن کو روبہ عمل لا کر ہر زمانہ میں معاشی سرگرمیوں کو منظم اور منضبط کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تعلیمات کو بنیاد بناکر مدینہ منورہ میں جو نظام قائم کیا اس کے ذریعہ بہت کم مدت میں معاشی بدحالی کو خوشحالی، آسودگی اور عدل اجتماعی میں بدل دیا تھا۔ حضرت محمد ﷺ کا انقلاب ایک ہمہ جہتی انقلاب تھا۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں خوش گوار تبدیلی کی۔
قرآن مجید کی سو سے زیادہ آیات براہ راست معاشی اور مالی معاملات سے متعلق ہیں جبکہ دیگر بہت سی تعلیمات میں بالواسطہ طور پر معیشت زیر بحث آئی ہے۔ میں نے یہاں تین آیات کا انتخاب کیا ہے جن پر آگے روشنی ڈالوں گا۔ اس سے قبل دو باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
1۔ قرآنی تعلیمات کی معنویت
مسلم مفکرین جب بھی اس حقیقت کو سامنے لاتے ہیں کہ قرآنی اصول انسانی زندگی کے سبھی شعبہ جات کے ساتھ ساتھ اقتصادی شعبہ کے لیے آج بھی موثر ہیں۔ ان کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے جو معاشی ماڈل بنایا اور اسے عملاً نافذ کیا اسی کے بہترین نتائج سامنے آئے تھے اس ماڈل پر آج بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے جواب میں مغربی مفکرین یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں یہ چودہ سو برس پہلے کے نظریات ہیں جو دور حاضر کے پیچیدہ مسائل میں کارآمد نہیں ہوسکتے۔ اس زمانہ میں ان اصولوں نے معیشت کوبہتر بنایا ہوگا مگر آج ان کی معنویت (Relevance) ختم ہوچکی ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہی مفکرین اور دانشور حضرات اسلام سے بھی ایک ہزار سال پہلے کے یونانی افکار و نظریات کوبہت اہمیت دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ماہرین مضبوط دلائل کے ساتھ جدید پیرائے میں اسلامی اصولوں کی معنویت کو آج کے چیلنجز کے تناظر میں پیش کریں۔
2۔ معاشی میدان میں بہترین رہنمائی
معیشت کے شعبہ میں اسلام نے بہترین رہنمائی کی ہے، اس کو اسلام کے مکمل نظام حیات سے مربوط کیا ہے۔ بنیادی عقائد اور کائنات کے بارے میں اس کے نظریے (World View) کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جامع اور متوازن نظم معیشت (Economic System) دیا ہے۔ اسلام معاشی سرگرمیوں کو معدہ اور مادہ تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے اخلاقیات سے بھی جوڑتا ہے۔ اسی لیے معاشی سرگرمیوں کے دوران بھی اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ قرآن میں معاشی وسائل کو اللہ کا فضل قرار دے کر بنی نوع انسان کو کسب معاش کے زیادہ سے زیادہ مواقع عطا کیے گئے ہیں۔ ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سماجی مفاد میں کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اسی طرح معیشت آزاد تو ہے مگر ’بے قید‘ نہیں یعنی مفاد عامہ میں کچھ ضابطہ بھی ہیں جن کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے روحانی پہلو اور مادی ضرورتوں دونوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ مذاہب عموماً ترک دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ دنیوی معاشی نظام صرف مادی ضرورتوں روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ کی بات کرتے ہیں انہیں انسان کے اخلاقی اور روحانی معاملات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اسلام ان دونوں طرح کی انسانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ وہ خدائے واحد پر ایمان لانے اور بندگی رب کی دعوت دیتا ہے اور یہ حکم بھی دیتا ہے کہ جب نماز پوری کرو تو زمین پر پھیل جاو اور اللہ کا فضل یعنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ کرو۔ بخل اور فضول خرچی دونوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک معتدل اور متوازن راہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نشہ آور اشیا کے کاروبار ’جوا‘ قحبہ گری، دھوکہ کے کاروبار، ضروری اشیا کی جمع خوری، چور بازاری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ناپ تول میں گڑبڑی ملاوٹ اور دیگر معاشی جرائم کی روک تھام کرتا ہے۔ سودی نظام کو ناجائز قرار دے کر نفع، نقصان میں شرکت کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غربت و افلاس کو دور کرنے اور لوگوں میں انفاق اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے زکوۃ جیسے اعلیٰ نظام کو نافذ کرتا ہے جسے ٹیکس کے بجائے عبادت کے زمرے میں رکھا گیا ہے جو آمدنی پر نہیں دولت (Wealth)کی ایک خاص مقدار سے زیادہ ہونے پر لگایا جاتا ہےاور تجارت کے اسٹاک اور زرعی پیداوار وغیرہ پر بھی لگایا جاتا ہے۔ آج کے معاشی ماہرین دولت پر ٹیکس کے سسٹم کو ترجیح دے رہے ہیں مگر زکوۃ کے اخلاقی روحانی اور دینی پہلو بہرحال اس کو امتیازی مقام دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لیے دوسرے شعبہ جات کی طرح اقتصادی اور مالی معاملات کی درستگی کے لیے بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔ یہاں میں صرف تین ہدایات پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالوں گا۔
قرآن کی تین اہم معاشی تعلیمات
1۔ ملاحظہ ہو سورہ الحشر کی ساتویں آیت کا ایک حصہ
کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ
ترجمہ: ایسا نہ ہو کہ تمہارا مال صرف مالداروں میں ہی گردش کرتا رہے(59:7)
اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں
’’یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں‘‘۔
تدبر قرآن میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں
’’اس سے اسلامی اقتصادیات کا یہ اصول واضح ہوا کہ اسلام یہ نہیں پسند کرتا کہ دولت کسی خاص طبقہ کے اندر مرتکز ہوکر رہ جائے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا بہاو ان طبقات کی طرف بھی ہو جو اپنی حلقی کمزوریوں یا فقدان وسائل کے سبب سے اس کے حصول کی جدوجہد میں پورا حصہ نہیں لے سکتے‘‘۔
قرآن کے پیش کردہ اس اہم اصول سے دنیا کے مروجہ معاشی نظام (Economic System) پوری طرح نابلد ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کا تو پورا زور ہی اس بات پر ہے کہ سرمایہ کی قوت کے ذریعہ معاشی میدان کے وسائل (Resources) کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف کھینچ لیا جائے۔ دولت کا بہاو (Flow)غریب اور محروم طبقات کی طرف نہ ہوکر امیر اور سرمایہ دار کی طرف ہی رہے۔ اس سسٹم میں اس کے لیے سب سے کارآمد ہتھیار سودی نظام ہے جس کے ذریعہ غریبوں، محنت کشوں اور عوام کی محنت کی کمائی سود خواروں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظم معیشت میں اپنائی جانے والی پالیسیاں سرمایہ داروں کے مفاد میں ہی ہوتی ہیں۔ اس طرح دولت کا بہاو فطری نہیں رہ پاتا۔
کمیونزم (Communism)اور سوشلزم(Socialism)نے مزدوروں، محنت کشوں اور مالی اعتبار سے کمزور طبقات کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن اس نے ایک دوسری انتہا (Extreme) کو اپنایا جس میں معاشی عوامل اور وسائل کی ملکیت سے غریب اور امیر سب کو محروم اور دستبردار کردیا۔ معاشی قوت کا ارتکاز سرمایہ داروں کے بجائے سرکار کے پاس ہےہوگیا۔ اس نئی دوا نے مرض کو اور پیچیدہ بناڈالا۔
قرآن نے بہت مختصر الفاظ میں ایک ہدایت ایک اصول بیان کیا۔ اس کے لیے سودی نظام کو ختم کیا، زکوۃ کا ایک مضبوط نظم قائم کیا جس کا مقصد بھی معاشی اعتبار سے کمزور اور محروم طبقات تک دولت کا بہاو جاری کرنا تھا۔ پھر انفاق، صدقات اور کَفّاروں کی ترغیب دلاکر مسئلہ کو حل کیا گیا۔ وراثت کے قانون کے ذریعہ دولت کے ارتکاز (concentration)کو کم کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی اس طرح کی پالیسیاں بنائی گئیں اور ماحول تیار کیا گیا جس سے تاجروں، صنعت کاروں، کاشتکاروں اور سرمایہ کاری کرنے والوں لوگوں کو جائز معاشی سرگرمیوں اور صنعت و تجارت اور کاشتکاری میں مدد ملے، ان کے مفادات محفوظ رہیں۔ قرآن کے اس اصول میں حد درجہ کا اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے۔
(2) دوسری اہم معاشی تعلیم سورہ الذاریات سے ہے
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
ترجمہ:ان کے مالوں میں سائل،اور محروم کا حق ہے (51:19)
تقریباً یہی بات سورہ المعارج میں آئی ہے
’’جن کے سالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے(70:24-25)
یہاں بڑی عجیب بات فرمائی گئی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے پاس جو دولت، جائیداد اور وسائل ہیں وہ اس کی اپنی ذاتی ملکیت ہیں۔ اس میں سے وہ جو بھی صدقہ خیرات (Charity) کرنا چاہے ثواب کی نیت سے کرسکتا ہے جسے نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں عجیب و غریب بات کہی گئی کہ اہل مال کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ یعنی اس میں مدد چاہنے والوں کا بھی حق ہے اور ان کا بھی ہے جو ضرورتمند تو ہیں مگر اپنی خود داری کی وجہ سے کسی کے سامنے اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اہل مال کو تعلیم دی جارہی ہے کہ آپ جو مدد کررہے ہیں وہ کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں۔ یہ تو ان کا حق تھا جو آپ ان کو دے رہے ہیں۔ ضرورتمندوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سارے خزانوں کا مالک ہے اس نے آپ کا حصہ کسی دوسرے کے پاس پہنچایا تھا جو اس کے ذریعہ سے آپ کو حاصل ہورہا ہے اس لیے اس پر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت نازک نفسیاتی پہلو ہے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا اس پر صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کا غالب ہونا، اس پر احسان نہ جتانا نہ کسی کا دل دکھانا اس کی تلقین، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے۔ موجودہ دور میں قرآن کی اس آیت کی معنویت بہت بڑھ گئی ہے۔ عالمی فلاحی ادارے ہوں یا این جی اوز ہوں وہ ایک طرف تو خوب تشہیر کرکے مدد کرتے ہیں پھر اس مدد کے بدلے اپنے نظریات کی تائید اور ان کا نفاذ چاہتے ہیں اس سے معاشی مسائل حل ہونے کے بجائے معاشرتی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر مالدار کے مال میں غریب کا حق (Right) تسلیم کرلیا جائے تو ایک بڑا مسئلہ خود حل ہوجائے گا۔
(3)تیسرا اصول سورہ البقرہ سے ہے
ترجمہ:اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں، کہدو جو ضرورت سے بچ رہے (219:2)
ویسے تو یہ ایک سیدھی سی بات ہے۔ لوگوں نے سوال کیا کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں، جواب دے دیا گیا کہ جو تمہاری اپنی ضرورت سے بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ لیکن آیت کے اسی ٹکڑے میں دور جدید کے ایک اہم اقتصادی مسئلہ کا حل موجود ہے۔ آج کے ماحول میں سرمایہ کو روکنے یعنی بچت (Saving) کرکے رقم کو جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زر (Money) بازار میں نہیں آتا اور بے مصرف پڑا رہتا ہے۔ اگر بنکوں میں جمع کیا جاتا ہے تو وہ اسے من مانے ڈھنگ سے لوگوں کو قرض دیدیتے ہیں جو بسا اوقات معاشی ترقی میں مددگار نہیں ہوتا۔ سرمایہ کا چلن اگر بازار میں رہتا ہے تو وہ لین دین ، کاروبار ، سامان کی پیداوار اور روزگار میں اضافہ کا سبب بنتا ہے وہ لین دین استعمال ہوا ہے وہ ہے العفو جسے ہم زائد یا فاضل (Surplus) کہہ سکتے ہیں۔ اس فنڈ کو خرچ کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ جب یہ سرمایہ بازار میں آتا ہے تو اس کے ذریعے بازار میں طلب (Demand) پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر صنعت کار سامان کی پیداوار کرکے مارکٹ میں لاتا ہے جسے رسد(Supply) کہتے ہیں اسی سلسلہ (Chain)کے ذریعہ معاشی پہیہ گھومتا ہے۔
معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے لوگوں کو روزگا ملتے ہیں اور خوشحالی آتی ہے۔
قرآن لوگوں کوبخیلی اور اسراف دونوں سے روک کر اعتدال کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وسائل کی بربادی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں جو وسائل و ذرائع مہیا کئے ہیں ان کا بہترین استعمال کرکے عوام الناس کو فائدہ پہنچایا جانا ہیے۔
قرآن مجید کے ان تین مختصر فقروں پر عمل کرکے معاشی میدان میں خوش گوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پہلی ہدایت کی روشنی میں ایسے اصول و ضوابط اور پالیسیاں وضع کی جاسکتی ہیں جن سے سرمایہ کے بہاو کو غریب کی پہنچ تک یقینی بنایا جائے۔ دوسری آیت میں مالدار لوگوں کی خوبصورت ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں غریب کے حق کو تسلیم کریں اور برضا و رغبت ان تک پہنچائیں۔ تیسری ہدایت یہ ہے اپنے فاضل سرمایہ کو خرچ کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ دوسرے عوامل۔ محنت ، زمین اور تنظیم وغیرہ کے ساتھ مل کر پیداوار اور روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔ ان تین آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں بندوں کی دنیوی خوشحالی اور اخروی فلاح کی تعلیم کا قیمتی خزانہ موجود ہے۔ انسانوں کو اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اسی میں ان کی کامیابی ہے۔

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022