تکثیری معاشرہ کے لیے قرآنی ہدایات،بعض آیات پر اعتراض کی حقیت

اسلام غیر مسلمین کے انسانی حقوق میں کوئی کمی نہیں کرتا

محمد رضی الاسلام ندوی

قرآن کی آفاقی تعلیم میں ہر طرح کے سماج کے لیے امن و رواداری کا پیغام مضمر
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کے درمیان گوناگوں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ رنگ، نسل، زبان، علاقہ، تہذیب و تمدن، معاشرت، عقیدہ، مذہب، کسی معاملے میں وہ یکساں نہیں ہیں بلکہ ان سب پہلؤوں سے ان میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ ان اختلافات کو نظر انداز کرنے، انہیں گوارا کرنے اور ان کے باوجود مل جل کر رہنے اور پُر امن طریقے سے زندگی گزارنے کو موجودہ دور کی ایک اہم قدر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ایک اصطلاح Pluralism کی وضع کی گئی ہے۔اردو میں اس کا ترجمہ ’کثرتیت‘ یا ’تکثیریت‘ کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ علیٰحدگی پسند ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو انفرادیت پسندی سکھاتا ہے اور انہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے۔ حسنِ سلوک، ہمدردی، مساوات، ربطِ باہم، تعاون و امداد اور خوش گوار انسانی تعلقات کے سلسلے میں اس نے جو تعلیمات و ہدایات دی ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ رہے دوسرے مذاہب کے ماننے والے تو ان کے لیے اس کے پاس نفرت و حقارت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ رکھیں۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی ہمدردی اور خیر خواہی نہ کریں، بلکہ انہیں تنگ کرنے، نیچا دکھانے اور تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تکثیری معاشرہ کے لیے اسلام موزوں نہیں ہے۔ آج جب کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن گئی ہے مختلف قوموں، گروہوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان تعامل ناگزیر ہے، ایسے میں قرآن کی معاشرتی تعلیمات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ قرآن کی بعض آیتوں میں مسلمانوں کو دوسرے دھرموں کے پیروکاروں سے لڑنے جھگڑنے اور جنگ و جدال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب تک ان آیتوں کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا، دیش کے دنگوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ انہی الزامات کے تحت کچھ عرصہ قبل کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔
قرآنی تعلیمات کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن نے اصولی طور پر مسلم اور کافر کے درمیان فرق کیا ہے، لیکن اس فرق کا کچھ بھی اثر انسانی حقوق اور معاشرتی تعلقات پر نہیں پڑتا۔ اس نے انسان کے جو بنیادی حقوق متعین کیے ہیں ان سے ہر شخص بہرہ ور ہوگا، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے اسلام نے جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں ان کا اطلاق معاشرہ کے تمام افراد پر ہو گا، خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہوں، اس کے افراد کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں قرآن نے واضح ہدایات اور احکام دیے ہیں ان کی روشنی میں یہ تعلقات بغض و عداوت، نفرت و حقارت، کشیدگی اور بدگمانی پر مبنی نہیں ہوں گے بلکہ ان کی بنیاد حسن سلوک، ہمدردی، تعاونِ باہمی، نصح و خیر و خواہی اور حسن ظن پر قائم ہو گی۔
والدین اور رشتہ داروں سے تعلقات
معاشرہ میں انسان کا سب سے قریبی تعلق والدین اور رشتہ داروں سے ہوتا ہے۔ قرآن ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور اس معاملے میں مسلم اور کافر کی کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اگر کسی شخص نے اسلام کو دین حق سمجھ کر قبول کیا ہو لیکن اس کے والدین اس سعادت سے محروم ہوں تو بھی مذاہب کا یہ اختلاف اسے ان کی خدمت کرنے، ان کی خبر رکھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے باز نہیں رکھتا۔ یہی نہیں، بلکہ اگر اس کے والدین اس کے اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں اس سے ناراض ہو جائیں، اس پر طرح طرح سے دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اسلام سے پھر جائے اور اسے اذیتیں دیں تو ایسی صورت میں یہ عمومی ہدایت ہے کہ وہ دین حق سے دست بردار تو نہ ہو البتہ ردعمل کے طور پر طیش میں آکر اپنے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ترک نہ کردے بلکہ اس معاملے میں ادنیٰ سی بھی کوتاہی نہ کرے۔ چناں چہ قرآن کا واضح حکم ہے:
’’اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ۔‘‘(لقمان:۱۵)
یہ آیت مکی دور کے اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب آں حضرت ﷺ کی دعوت پر قریش کے نوجوان لبیک کہہ رہے تھے اور حلقہ بہ گوش اسلام ہو رہے تھے۔ دوسری طرف ان کے والدین، رشتہ دار اور خاندان کے لوگ انہیں اس سے روکنے اور اسلام سے پھیر کر آبائی مذہب کی طرف واپس لانے کے لیے ہر جتن کر رہے تھے اور اس میں ناکامی کی صورت میں انہیں جسمانی اذیتیں دے رہے تھے۔ ممکن تھا کہ ان حالات میں وہ نوجوان بھی ردعمل کی کیفیت کا شکار ہو جاتے اور والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ان میں انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا یا کم از کم ان سے وہ بے پروا ہوجاتے، لیکن انہیں تاکید کی گئی کہ وہ ناحق میں تو ان کی بات نہ مانیں، لیکن دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ بھلے طریقے سے پیش آئیں اور اچھا سلوک کرتے رہیں۔
والدین کے بعد رشتہ داروں کا درجہ ہے۔ وہ بھی اسی طرح حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ قرآن تاکید کرتا ہے کہ رشتہ دار خواہ ہم مذہب ہوں یا دوسرے مذہب کے ماننے والے، ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کی خبر گیری میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اس معاملے میں قرآن کتنا حساس ہے اس کا اندازہ ایک مثال سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی شریعت میں کسی شخص کے مستحقِ میراث ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی دوسرے ذریعے سے بھی اسے کسی طرح کا مالی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے اجازت دی ہے کہ غیر مسلم رشتہ داروں کو وصیت یا تحفے تحائف کے ذریعے اپنے مال کا کچھ حصہ دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس لیے اپنے اولیاء (دیگر متعلقین) کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو۔‘‘ (الاحزاب:۶)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق عام لوگوں پر مقدم ہیں۔ سورۂ احزاب ۵ھ میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے ہجرتِ مدینہ کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ اس تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ آیت بالا کے نزول کے بعد یہ طریقہ موقوف ہو گیا اور وراثت کی بنیاد رشتہ داری کو قرار دیا گیا۔ آیت کے آخری ٹکڑے إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُم مَّعْرُوفاً کا مطلب یہ ہے کہ (میراث کے مستحق) رشتہ داروں کے علاوہ اپنے دوسرے متعلقین کی مالی مدد کرنا چاہو تو دیگر کسی ذریعہ (مثلاً تحفے یا وصیت وغیرہ) سے ایسا کرسکتے ہو۔
محمد بن الحنفیۃؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کے ذریعہ غیر مسلم کے لیے وصیت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یعنی اپنے کافر رشتہ دار کے ساتھ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ مشرک رشتہ دار سے اگرچہ دین کا تعلق نہیں ہے لیکن نسبی اعتبار سے وہ رشتہ دار ہے، اس لیے اس کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے۔‘‘
قتادہؒ، حسنؒ اور عطاؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اجازت دی گئی ہے کہ مسلمان اپنے کافر رشتہ دار کو اپنی زندگی میں جو چاہے دے سکتا ہے اور مرتے وقت اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے۔‘‘
پڑوسیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات
رشتہ داروں کے بعد انسان کا سب سے قریبی تعلق اپنے پڑوسیوں سے ہوتا ہے۔ ان کا ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔ پڑوسی اچھے ہوں تو انسان اپنے اہل و عیال، گھر اور مال سے بے فکر ہوکر کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوتا ہے۔ ان کی طرف سے اطمینان نہ ہو تو اسے کبھی ذہنی یکسوئی نہیں مل سکتی۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان ایک اچھا پڑوسی بنے۔ اس کی ذات سے اس کے پڑوسیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ ان کے دکھ درد میں کام آئے اور ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہم سایہ سے، پہلو کے ساتھی سے … احسان کا معاملہ رکھو۔‘‘ (النساء:۳۶)
اس آیت میں تین طرح کے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے: ایک الْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی (رشتہ دار پڑوسی) دوسرا الْجَارِ الْجُنُب (اجنبی پڑوسی) اور تیسرا الصَّاحِبِ بِالجَنبِ (پہلو کا ساتھی، جس سے تھوڑی دیر کا ساتھ ہوجائے)۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ الْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی سے مراد مسلم پڑوسی اورالْجَارِ الْجُنُب سے مراد غیر مسلم پڑوسی ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔حضورؐ نے ایک موقع پر صحابہ کرام کی ایک مجلس میں تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں ہے۔‘‘ صحابہ نے دریافت کیا: ’’کون اے اللہ کے رسول؟ فرمایا:’’وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ ہو‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
حضرت مجاہدؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے پاس تھا۔ ان کے ملازم نے ایک بکری ذبح کی تو انہوں نے فرمایا: ’’اس کا گوشت تقسیم کرو تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کے یہاں بھیجو۔‘‘ ایک شخص نے کہا: ’’کیا آپ اس یہودی کے یہاں بھیجیں گے؟ فرمایا: ’’میں نے نبی ﷺ کو پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ آپ اسے وراثت میں حق دار قرار دے دیں گے۔‘‘(بخاری، الادب المفرد،۱؍۲۲، سنن ابی داؤد)۔
حسن معاشرت
جب کچھ لوگ ایک جگہ رہتے بستے ہیں تو ان کے درمیان سماجی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ باہم خوش گوار تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اپنے پڑوسیوں، ملاقاتیوں اور شرکاء کار کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آئیں۔ ان کی خوشیوں میں شریک ہوں، ان کے غم کو اپنا غم سمجھیں اور ان کی ہمدردی، مواسات، دل جوئی اور غم خواری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ اسلام انسانی جذبات کا پورا لحاظ کرتا ہے۔ وہ غیر مسلموں سے انسانی روابط میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں سمجھتا بلکہ ان کی تاکید کرتا ہے:
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(الممتحنۃ:۸)
تکثیری معاشرہ میں رہنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت اہم آیت ہے۔ اس میں دو جملے آئے ہیں: أَنْ تَبَرُّوْہُمْ اورتُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ۔ برّ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا۔اس میں زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
غریبوں کا مالی تعاون
سماج میں کچھ لوگ غریب محتاج بے کس اور لاچار ہوتے ہیں۔ صاحب حیثیت اور مال دار لوگوں کا فرض ہے کہ ان کی خبر گیری کریں، وقتِ ضرورت ان کے کام آئیں اور ان کا سہارا بنیں۔ قرآن اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق روا نہیں رکھتا۔ وہ غیر مسلموں پر بھی انفاق کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ساتھ ہی وہ یہ بھی صراحت سے کہتا ہے کہ غیر مسلموں پر محض اللہ کی خوش نودی کے لیے خرچ کیا جائے، ان سے کسی دنیوی منفعت کی امید نہ رکھی جائے اور انہیں مال کے ذریعے اسلام قبول کرنے کا لالچ نہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے نبی! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے، بخشتا ہے۔ اور راہِ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو، وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے ۔آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم راہِ خیر میں خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۲)
یہ آیت انفاق کے سیاق میں وارد ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کی آیات میں اہلِ ایمان سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اس سے کھلے چھپے ہر طرح سے اس کے ضرورت مند بندوں پر خرچ کرو اور شیطان کے پیداکردہ فقر و فاقہ کے اندیشوں میں مت مبتلا ہو اور اللہ کی راہ میں اپنا اچھا مال خرچ کرو، اس کے لیے خراب مال چھانٹ کر مت رکھو۔ اسی سیاق میں کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ خرچ کرو اس میں اللہ کی خوش نودی اپنے پیش نظر رکھو۔ اس کا فائدہ تمہاری ذات کو پہنچے گا اور تمہیں بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔ جو لوگ تمہاری مدد کے مستحق ہیں ان کا ہدایت یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ مت سوچو کہ ان لوگوں پر اس وقت خرچ کریں گے، جب وہ اسلام لے آئیں گے۔ انہیں ہدایت پر لانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ جس کو چاہے گا ہدایت سے نوازے گا۔ تمہارا کام یہ ہے کہ وہ خواہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں، اگر وہ ضرورت مند ہیں اور اللہ نے تمہیں نواز رکھا ہے تو ان کی ضرورت پوری کرو۔ روایات میں آتا ہے کہ ابتدا میں صحابہ کرام اپنے ان رشتہ داروں پر، جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، خرچ نہیں کرتے تھے، بعض صحابہ نے اس سلسلے میں آں حضرتﷺ سے دریافت کیا کہ جو لوگ ہمارے ہم مذہب نہیں ہیں، کیا ان کا کچھ مالی تعاون کیا جاسکتا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اعزاز و اکرام
خوش گوار معاشرت کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے تمام افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، ان کے ساتھ اعزاز و اکرام سے پیش آیا جائے اور انہیں اچھے انداز سے مخاطب کیا جائے۔ اس معاملے میں بھی قرآن نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے: ’’اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح۔‘‘ (النساء:۸۶)
حضرت ابن عباسؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’سلام کا جواب دو، خواہ سلام کرنے والا یہودی یا عیسائی یا مجوسی ہو۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو سلام کیا جا سکتا ہے، ان کے سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے اور ان سے مصافحہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آں حضرتﷺ کا ایک ایسی مجلس سے گزر ہوا جہاں مسلمانوں کے علاوہ یہود اور مشرکین بھی تھے۔ آپؐ وہاں پہنچے تو آپؐ نے سلام کیا۔(صحیح بخاری)
صحابۂ کرام کا بھی معمول تھا کہ جس سے بھی ان کی ملاقات ہوتی اسے سلام کرتے تھے اور اس معاملے میں کسی سے کوئی تفریق روانہ رکھتے تھے۔ وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تاکید کرتے تھے۔حضرت ابو امامہؓ کی راستہ چلتے ہوئے کسی سے ملاقات ہوتی تو اسے سلام کرتے خواہ ملنے والا مسلمان ہو یا کوئی اور چھوٹا ہو یا بڑا۔ ان سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیاکہ ہمیں سلام عام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(۱۶) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں بھی روایات میں آتا ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، خواہ ملنے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
معاملات
معاشرہ کے افراد کو قدم قدم پر ایک دوسرے کے تعاون، مدد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں باہم مختلف معاملات کرنے پڑتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو ان کے لیے زندگی گزارنا دشوار ہو جائے۔ جس سماج میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں وہ ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے معاملات کر سکتے ہیں۔ قرآن اس معاملے میں مذاہب کے اختلاف کو رکاوٹ نہیں بناتا۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اس کے ماننے والے غیر مسلموں کے اشتراک سے کاروبار کر سکتے ہیں، ان سے رہن، مزارعت وغیرہ کے معاملات کر سکتے ہیں، بغیر کسی کراہت کے ان کی مصنوعات استعمال کرسکتے ہیں اور انہیں اپنی چیزیں فروخت کر سکتے ہیں، ان کے یہاں اجرت پر کام کر سکتے ہیں اور انہیں اپنے یہاں کام پر لگا سکتے ہیں۔ غرض ہر طرح کے تجارتی وکاروباری معاملات غیر مسلموں کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔ مذاہب کے اختلاف سے اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس سلسلے میں قرآن کی اصولی تعلیم یہ ہے:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ ( المائدۃ:۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! معاہدوں کی پابندی کرو‘‘
احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام غیر مسلموں سے ہر طرح کے معاملات کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری دنوں میں ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن رکھ کر اس سے اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے کچھ غلہ لیا تھا۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مشرک نبیﷺ کے پاس کچھ بکریاں لے کر آیا۔
آپؐ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح خیبر کے بعد وہاں کی زمین یہود کے پاس رہنے دی، اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان میں کاشت کریں گے اور انہیں پیداوار کا نصف ملے گا۔
سفرِ ہجرت کے موقع پر ایک غیر مسلم کی خدمات حاصل کی گئیں اور اللہ کے رسول ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ نے اس کی رہ نمائی میں مدینہ کا سفر کیا تھا۔حضرت خبابؓ اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میں لوہار تھا۔ میں نے مکہ میں عاص بن وائل (مشہور مشرک) کا کچھ کام کیا تھا۔ امام نوویؒ ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل ذمہ اور دیگر کفار سے معاملات کیے جا سکتے ہیں بشرطے کہ ان معاملات میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو۔‘‘
رواداری
تکثیریت کا بنیادی عنصر رواداری ہے۔ یعنی اپنے عقیدہ و مذہب کوحق سمجھتے ہوئے اس سے اختلاف رکھنے والوں کی یہ آزادی تسلیم کرنا کہ وہ جو عقیدہ و مذہب چاہیں اختیار کر سکیں۔ قرآن اس کا علم بردار ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ (البقرۃ:۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ بے شک ہدایت گم راہی سے ممتاز ہو گئی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی رضا تو اس میں ہے کہ تمام انسان سیدھے راستے پر چلیں اور اس کی معصیت سے بچیں، لیکن اس کی مشیت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی سے اپنے لیے عقیدہ و مذہب کا انتخاب کریں۔ چنانچہ اس نے بہ جبر تمام انسانوں کو مسلمان نہیں بنایا ہے اور اپنے پیغمبر کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں جبر سے کام نہ لیں۔ قرآن میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے:
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن (یونس:۹۹)
’’اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘
قرآن میں یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق واضح کر دیا ہے، ساتھ ہی انہیں ارادہ و اختیار کی آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کرکے دائرہ اسلام میں آجائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر قائم رہیں:
إِنَّا ھدَیْْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً ۔ (الدھر: ۳)
’’ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَآئَ فَلْیَکْفُرْ۔ (الکہف: ۲۹)
’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔‘‘
دوسرے مذاہب کی محترم شخصیتوں کا احترام
قرآن اہلِ مذاہب سے مکالمہ کا قائل ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ حق واضح کیا جائے اور باطل کی تردید کی جائے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی مذہبی تعلیمات میں جو غلط باتیں شامل کر لی ہیں انہیں چھانٹ کر الگ کر دیا جائے، لیکن وہ تاکید کرتا ہے کہ مذاکرہ و مباحثہ میں سنجیدگی، متانت اور شائستگی ملحوظ رکھی جائے اور ایسا لہجہ نہ اختیار کیا جائے کہ ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔ اس سیاق میں اس نے ان شخصیتوں کے بارے میں جن سے وہ عقیدت رکھتے ہیں نازیبا کلمات منہ سے نکالنے سے منع کیا ہے۔ اس کی سخت تاکید ہے: ’’اور (اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘ (الانعام:۱۰۸) اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ سبحانہ نے اس آیت میں بتوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر انہیں برا بھلا کہا جائے گا تو ان کی پوجا کرنے والوں کی نفرت اور کفر میں اضافہ ہو گا۔ علماء کہتے ہیں کہ اس آیت کا حکم اس امت کے لیے ہر زمانے میں باقی ہے۔‘‘(تفسیر قرطبی)
امام رازیؒ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کفار کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس کے جواب میں وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں نا زیبا کلمات کہنے لگیں۔ اس سے اس پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر تمہارا مخالف جہل اور نادانی کا مظاہرہ کرے تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم بھی اسی طرح کی باتیں کرنے لگو۔ اس لیے کہ اس طرح باہم جھگڑے اور گالم گلوج کی نوبت آسکتی ہے اور یہ عقل مندوں کا شیوہ نہیں ہے۔‘‘(تفسیر کبیر)
غیر مسلموں سے’ دوستی‘ کی ممانعت کا صحیح مفہوم
قرآن پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ’دوستانہ تعلقات ‘رکھنے سے منع کیا ہے اور انہیں ’ دشمن‘ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں بغض و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ ان سے کسی طرح کا تعلق نہیں رکھا جاتا، بلکہ انہیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النساء: ۱۴۴)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ‘‘
ایسی آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیاء‘ نہ بنائیں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ اس کا مادہ ’و ل ی‘ اور مصدر ’ولاء‘ ہے۔ ولاء کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ان سے مغایر ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ قربت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ خواہ یہ قربت جگہ کی ہو یا تعلق کی یا مذہب کی یا دوستی، مدد اور عقیدہ کی۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا تعلق ہو اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولیٰ‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔ (المفردات فی غریب القرآن،۵۵۵) ایسی آیتوں میں لفظ ’اولیاء‘ انتہائی قربت کے معنیٰ میں آیا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد’کافروں کو اولیاء نہ بناؤ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان سے تمہارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں۔‘‘
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جن میں مسلمانوں کو ’کافروں‘ سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کر رکھی تھی اور انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ بھی کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انہوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کر رکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں سے ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انہیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔( ملاحظہ کیجیے آیات:النساء: ۱۴۴،المائدۃ: ۵۱،النساء: ۸۹) اس معاملہ میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انہوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مبادا ان کے واسطے سے ان کے اسرار کفار تک نہ پہنچ جائیں ( التوبۃ : ۲۳)
قرآن کریم کی بعض آیات میں ان اسباب کی وضاحت کر دی گئی ہے جن کی بنا پر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے انتہائی قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔‘‘
(المائدۃ: ۵۷)
سورۂ ممتحنہ میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء ۔ (آیت؍ ۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
اسی سورت میں آگے ہے:
إِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (آیت: ۹)
’’وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے، اس کو وہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ اللہ اور تمہارے دشمن ہیں اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کر رہے ہیں، تمہیں تمہارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں یوں مذکور ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔‘‘(آل عمران؍ ۱۱۸)
اس آیت میں لفظ ’بطانۃ‘ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ بطانۃ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جسے آدمی اپنا گہرا دوست اور ہم دم وہم راز بنالے۔ (۲۸) اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کر دو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمہارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے صرف ایسے قریبی تعلق سے منع کیا گیا ہے جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر منکشف ہو جائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے اور یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں: ’’غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انہیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے۔‘‘
مخالفوں سے لڑنے اور انہیں قتل کرنے کے احکام کا پس منظر
قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصور جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انہیں جہاں پائیں قتل کریں۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان کافروں سے جو تمہارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔‘‘(التوبۃ: ۱۲۳)
’’۔۔ تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔‘‘(التوبۃ:۵)
اس طرح کی آیات پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ آیات ہیں اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) جب مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا جانے لگا تب انہیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکتے ہیں:
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘(الحج: ۳۹-۴۰)
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور شمعِ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیں، لیکن اس وقت بھی انہیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۰)
(ب) قرآن کریم میں مذکور آیاتِ قتال کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے، بلکہ ان میں دورانِ جنگ کے سلسلے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جب کسی گروہ سے جنگ برپا ہو تو میدانِ جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں برتتا، بلکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے اور اس کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کر کے اس کی فوجی طاقت پارہ پارہ کردے۔ اس موقع پر کسی کم زوری اور نرمی کا مظاہرہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مثل ہے۔
(ج) جنگ ایک ناپسندیدہ لیکن ناگزیر صورت حال ہے۔ اسی لیے مختلف مذاہب میں اس کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔ جن مذاہب میں جنگ سے متعلق کسی طرح کی تعلیم نہیں ملتی ان کے پیرووں کو بھی مختلف مواقع پر جنگ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مذہبی کتابوں میں جنگ سے متعلق احکام و قوانین ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا تعلق دشمن قوم کے ساتھ عام برتاؤ سے ہے، بلکہ ظاہر ہے کہ ان میں جنگ کی مخصوص صورت حال کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہندو مت کی مذہبی کتابوں کے چند حوالے دیے جاتے ہیں:
’’اے اِندر، ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ، جو مال غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کر کے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ‘‘۔(رگ وید، ۶: ۱: ۸-۱۳)
’’اے اگنی، ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگا دے۔ اے اجیت، دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر‘‘۔(یجروید، ۹:۳۷)
’’اے مینو، طاقت ور سے زیادہ طاقت ور ہوکر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے، دشمنوں اور ورتیروں اور دسیوں کو قتل کرنے والے۔ تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا‘‘۔(اتھروید، ۴:۳۲:۱-۳)
بھاگوت گیتا کا تو موضوع ہی جنگ ہے۔ یہ در اصل کرشن جی کے اس طویل اپدیش پر مشتمل ہے جو انہوں نے پانڈؤوں کے سردار ارجن کو جنگ پر ابھارنے اور لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے دیا تھا۔
(د) ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان آیات کا خطاب اسلامی ریاست اور اس کی فوج سے ہے۔ قرآن نے تمام مسلمانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں غیر مسلموں کو قتل کر دیں، بلکہ اسلامی ریاست سے دشمنی رکھنے والے غیر مسلموں سے جنگ کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سربراہِ ریاست کو ہے۔ اسی کو طے کرنا ہے کہ جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور کی جائے تو کب اور کیسے؟ رعایا پر ہر حال میں اس کی اطاعت لازم ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
’’جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے۔‘‘
جن آیات میں ’کفار و مشرکین‘ سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اگر ان کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہو گا بلکہ پڑھنے والے پر ان کی معقولیت آشکارا ہو گی۔
مضمون نگار شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری اور معاون مدیر سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ ہیں)
EMail:[email protected]
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022