قرآن مجید اور امّت کے عروج کا راستہ

قلبی و روحانی امراض سے سماجی و سیاسی مسائل تک قرآن میں سبھی کا حل موجود

ڈاکٹر ساجدعباسی

امتِ مسلمہ کے زوال کاایک اہم سبب ہے قرآن کی عظمت شناسی کا فقدان ۔اگر ہمارے دل میں قرآن کی عظمت اس طرح پیدا ہوجس طرح صحابہ کرام کے دلوں میں تھی توہمارے قلوب میں اور ہمارےمعاشرے میں ایک انقلابِ عظیم برپا ہوگا۔ اس صورت میں امّتِ مسلمہ قرآن کو کتابِ ہدایت بھی بنائے گی اوراس کو کتابِ دعوت بھی بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مسلمانوں کے عروج و زوال سے جوڑ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ ِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ(صحیح مسلم ۱۸۹۷)۔اللہ تعالیٰ اس کتاب( قرآن) کے ذریعے سے اقوام کو اٹھاتا ہے اور اسی قرآن( کو چھوڑنے)سے اقوام کو گراتا ہے۔ جب قرآن کی عظمت ہمارے ذہنوں میں جاگزیں ہوگی تو ہمارے اندر قرآن کے حقوق کو ادا کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور جب ہم قرآن کے حقوق ادا کریں گےتو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں اس عروج کے راستے پر ڈا ل دے گا جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا راستہ تھا۔قرآن کی عظمت کو جاننے کے لیے ہم کو قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گااور یہ جاننا پڑے گا کہ قرآن خود اپنے بارے میں کیا کہتا ہے۔
۱۔قرآن کی سب سے پہلے خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان تمام نقائص سے پاک ہے جو ہر انسانی کلام میں پائے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں سارے جنوں و انسانوں کو کھلا چیلنج دیا گیا ہے کہ : ’’کہہ دو کہ اگر انسان اورجن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے ، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں‘‘(سورۃ الاسراء ۸۸ )۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ساری دنیا کے جنوں اور انسانوں کو دیا گیا ہےلیکن کوئی اس کے جواب میں آج تک ایسا کلام پیش نہیں کرسکااور نہ ہی کرسکے گا۔ آخر قرآن کی وہ کون سی خصوصیت ہے جو انسانی کلام میں نہیں ہوسکتی ہے۔وہ خصوصیت سورہ النساء ۸۲میں پیش کی گئی ہے ۔’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘ ۔ (سورۃ النساء۸۲)۔
دنیا میں کئی فلسفی آئے اور خود ان کے مرنے سے پہلے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے فلسفے غلط ثابت ہوئے۔ دنیا میں کئی سائنس داں پیدا ہوئے اور ہر نیا سائنس دان پیش رو سائنس دان کے نظریات کو غلط ثابت کرتا رہا ہےاور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن قرآن نے جن حقائق کو پیش کیا ہے وہ ۱۴۰۰ سال سے ابھی تک حقائق ہیں اور تا قیامت حقائق ہی رہیں گے۔ اس اعتبار سے قرآن ان نقائص سے بالکل پاک ہے جوہر انسانی کلام میں لازماً موجود ہوتے ہیں اس لیے کہ کسی انسان کا علم لامحدود نہیں ہوسکتا۔ قرآن اندرونی تضاد سے بھی پاک ہے اور بیرونی تضاد سےبھی ۔اندرونی تضاد کا مطلب یہہے کہ کتاب کی ایک آیت اسکی دوسری آیت کی تردید کرے۔ بیرونی تضاد کامطلب کسی آیت کا ثابت شدہ حقیقت سے ٹکرانا ہے ۔ جیسے اُس زمانے میں جب قرآن کا نزول ہورہا تھا تو یہ تصور تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج متحرک ہے ۔ بعد میں جب سائنس کے میدان میں ترقی ہوئی تو یہ بتلایا گیا کہ سورج ساکن ہے اور زمین ایک سیارہ ہے جو سورج کے اطراف اپنے مدار میں گھومنے کے ساتھ اپنے محور پر بھی گھوم رہی ہے۔آج کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ سورج بھی اپنے نظام ِ شمسی سمیت اپنے ایک وسیع تر مدار میں چکر لگارہا ہے۔ جبکہ قرآن نے۱۴۰۰ سال قبل یہ فرمایا کہ :
(وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۔ ہر سیارہ و ستارہ اپنے اپنے مدار میں گردش لگا رہا ہے۔سورۃ یٰس ۴۰)
یہ ہے قرآن کی ابدی صداقت اور اس معیارپرکوئی انسانی کلام لایا نہیں جاسکتا۔
۲۔ دوسری خصوصیت قرآن کی یہ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے محفوظ ترین کتاب ہے۔قرآن میں ہی یہ اعلا ن کردیا گیا ہے کہ :(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ سورۃ الحجر۹۔ترجمہ: ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(۔ پچھلی الہامی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان کتابوں کے حاملین پر ڈالی گئی۔قرآن کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے خوداس کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اس کی تاقیامت حفاظت ہوتی رہے گی۔قرآن کی حفاظت تین مراحل میں ہوئی ہے۔کتابت ،تالیف و جمع۔کتابت کے مرحلےمیں کوئی آیت یامجموعۂ آیات یا سورۃ جب نازل ہوتی تو اس کو کسی چمڑے ،اونٹ کی ہڈی پر یا کھجور کی شاخ کے کشادہ حصے پر یا کسی سلیٹ نما پتھر پر لکھ لیا جاتا ۔دوسرے مرحلے میں جب بھی کوئی سورۃ مکمل ہوتی تو پوری سورۃ کو مرتب شکل میں چمڑے پر لکھ لیا جاتا۔ تیسرا مرحلہ جمع کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورتوں کی ترتیب بھی کردی گئی تھی لیکن ایک جلد میں قرآن جمع نہیں ہوا تھا۔حضرت ابو بکر کے زمانے میں ریاستی سطح پر ایک ہی سائز کے اوراق پر لکھواکر مکمل قرآن کو مجلد کروادیا گیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مصر ،عراق ،شام و یمن میں اس طرح کے ہزاروں نسخے موجود تھے۔حضرت عثمان کے زمانے میں قرآن کو ایک قرات پر جمع کیاگیا۔مجلد کتابت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے صحابہ کرام میں حفظ ِ قرآن کا بے حد شوق تھا جس سے قرآن کی حفاظت ہر زمانے میں ہوتی رہی یہاں تک کہ زمانہ پرنٹنگ پریس کے دور میں پہنچ گیا۔اس طرح کرۂ ارض پر خالص حالت میں قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا آخری کلام محفوظ حالت میں موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی کو معلوم کرنے کا ایک مستند ذریعہ قرآن کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ اب یہ امّتِ مسلمہ کی ذمہ دارای ہے کہ قرآن کی اس خصوصیت کو دنیا کے سامنے رکھیں اور خالقِ کائنات کے حقیقی پیغام کو بندوں تک پہنچائیں۔اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں پر حفاظت اور ابلاغ کی ذمداری ڈالی تھی۔ لیکن امتِ محمدؐیہ پر ابلاغ کی ذمہ داری ڈالی ہے۔حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے لی ہے اور یہ پیشین گوئی آج تک سچ ثابت ہورہی ہے۔ ہم نے قرآن کی اس خصوصیت کو تو خوب بیان کیا لیکن اس کے پیغام کو پہنچانے میں مجرمانہ غفلت برتی ہےاسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو حالات کے حوالے کردیا ہے۔چونکہ قرآن ھدی اللناس ہے اس لیےبھی امّتِ مسلمہ پر سارے انسانوں تک قرآن کو پہنچانے کی گراں قدرذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔ اور اسی بات پر مسلمانوں کی عزّت و ذلّت کا انحصار ہے۔ آج امّتِ مسلمہ کو جو مساِئل درپیش ہیں وہ بھی یقیناً اس بات سےجڑے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ہم وطن بھائیوں میں قرآن کا صحیح تعارف پیش کرکے اس کو ان تک پہونچاتے ہیں یا نہیں۔
۳۔قرآ ن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں اس طرح فرمایا :
’’لوگو ، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے ۔یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اورجو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہ نمائی اور رحمت ہے۔اے نبی ؐ ، کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ،اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ یونس ۵۸)
قرآن سب سے بڑی نعمت اس لیے ہے کہ یہ اس دنیا میں ایک قوم کو مقامِ قیادت پر پہونچاتی ہے اور آخرت میں لازوال نعمتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔آج امّتِ مسلمہ دنیا کے بہترین وسائل سے مالامال ہوکر بھی محروم، بے بس و مجبور نظر آتی ہے۔ یہ حالت بھی قرآن کو فراموش کرنے کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔لیکن تمام محرومیوں کے باوجود پھر بھی اللہ تعالیٰ نے امت کو اس قرآن سے نوازا ہے جو پھر امّت کو بامِ عروج پر پہونچانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا روڈمیپ وہی ہوگاجس کو اختیارکرکے اونٹوں کے چرانے والے عرب لوگ دنیا کی عظیم سلطنت کے خلیفہ بن گئے تھے۔ عروج کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے قرآن کو کتابِ تلاوت کے ساتھ کتابِ ہدایت اور کتابِ دعوت بنادیں۔ آج بھی اگر اپنی بدعملی سے اسلام کو بدنام کرنے والی امّت نہ ہوتی تو صرف قرآن کی سچی تعلیمات کے بل پر سارے عالم میں اسلام کی روشنی پھیل جاتی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بدعملی سے دنیا میں انسان ، قرآن سے بھی بدگمان ہوگئےہیں ۔ اور اسی بات کی امّت کو سزا مل رہی ہے۔
۴۔ قرآن کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب ِ ہدایت ہے۔کائنات ایک راز ہے اور قرآن اس راز کو کھولتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی علوم ہیں وہ اس سے بحث کرتے ہیں کہ :کائنات کیا ہے؟مگر وہ نہیں بتلاتے کہ یہ کائنات کیوں ہے؟کائنات کی حقیقت کیا ہے؟کس نے اس کو پیدا کیا ہے اورکیوں پیدا کیا ہے؟کون ہے وہ ہستی جو کروڑہا کروڑ سالوں سے اس کائنات کو چلارہی ہے؟کون ہے جو انسان جیسی ہوش مند مخلوق کو پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا؟ قرآن ان تمام رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے اور آفاق و انفس کی بے شمار نشانیوں کی طرف انسان کی سوچ کومتوجہ کرکے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی دریافت اور پھر حقیقی ایمان پیدا کرتا ہے ۔ایک ایسا ایمان جو زمانے کے حوادث سے متاثر ہوتا ہے نہ متزلزل ہوتا ہے۔قرآن ازل سے کائناتی تاریخ کو پیش کرتا ہے۔انسان کےآغاز و انجام پر مفصل کلام کرتا ہے اور تمام ماضی و مستقبل کے مناظر کی منظر کشی کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہوگی۔ جنت و دوزخ کے مناظر کو پیش کرتا ہے۔انسانوں کے وہ اوصافِ حمیدہ بیان کرتا ہے جو ان کو جنت کا مستحق بناتے ہیں اور وہ اوصافِ رذیلہ بھی پیش کرتا ہے جو انسانوں کو جہنم کا ایندھن بنانے والے ہیں۔قرآن اللہ کی آواز ہےاور انسانوں کے لیے اس کا طے کردہ دستور ہے۔یہ وہ ہدایت ہے جو انگلی پکڑ کر انسان کو نجات و کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔یہ وہ قانون ہے جو انسانی معاشرہ کو امن و انصاف کا گہوارہ بنا دیتا ہے۔یہ حکمت سے لبریز ہے جس سے ساری گتھیاں سلجھ جاتی ہیں اور ہر سوال کاجواب مل جاتا ہے۔یہ شفاء کل کا نسخہ ہے جس کے ذریعہ قلبی امراض سے لے کر معاشرتی ،سماجی و سیاسی مسائل کا حل ممکن ہے۔یہ وہ روشنی ہے جس سے ساری تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں ۔یہ وہ یاد دہانی ہے جس سے سوئی ہوئی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔یہ وہ نصیحت ہے جو بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر ڈال دیتی ہے۔غرض انسانوں کو جوہرِ انسانیت سے آشنا کرنے کا واحد نسخہ ہے جو اللہ تعالی ٰ کی شانِ کریمی کا مظہر ہے۔الرَّحْمَنُ ټعَلَّمَ الْقُرْآنَ ۔یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن جیسی نعمت نازل کرکےاسے انسان کو سکھایا۔قرآن کے بارے میں فرمایا گیا ہے : (وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍوَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہےاور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کردیا ہے۔النحل ۸۹)۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہےکہ دنیا کے تمام مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔یہ حقیقت خود اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حامل ِ قرآن امّت پر بہت بھاری ذمداری عائد ہوتی ہےکہ دنیا کےسامنے مسائل کا قرآن کی روشنی میں حل پیش کریں۔قرآن کی صورت میں جب روشنی ہمارے پاس ہے، شفا ہمارے پاس ہے، مسائل کا حل ہمارے پاس ہے اور ہدایت ہمارے پاس ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی ساری گمراہی ، تاریکی ، فتنہ و فساد کے ذمہ دارکون ہیں؟ سارے جہاں والوں میں کسی کے پاس ہدایت نہیں ہے اور جب ساری ہدایت ہمارے پاس ہے تو امّتِ مسلمہ ہی ان سارے مسائل کی ذمہ دار ہونی چاہیے۔ جب امتِ مسلمہ نے شر کے چھوٹے چھوٹے پودوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش نہیں کی تو وہی پودے آج شر و فساد کے بڑے تناور درخت بن گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو امّتِ مسلمہ ہی اس خارزار جنگل کے لیے ذمہ دار ٹھیرے گی۔ آج بھی امّتِ مسلمہ اس حقیقت کا اعتراف کرلے کہ دنیا کے شر و فساد ، تاریکی و گمراہی کے پھیلنے میں وہ بالراست یا براہ ِ راست ذمہ دار ہیں تو ان کے اندر اس بات کا عزم پیدا ہوگا قرآنِ حکیم کے نسخہ تسخیر کو لیکر نبی رحمت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے دنیا سے شر و فساد کو ختم کرے۔
۵۔ قرآن کی پانچویں خصوصیت یہ ہےکہ یہ کتاب ِ دعوت ہے۔اس میں پچھلے سارے انبیاء کی دعوتی سرگزشت کو بیان کیا گیا ہے۔قرآن دراصل دعوت اور مدعو کی تاریخی دستاویز ہے اور اس کواس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے داعیان ِ حق کے لیے یہ کیس اسٹڈیز کا بہترین مجموعۂ اورداعیانِ حق کے لیے زادِ راہ بن جائے۔ اس طرح سے قرآن اپنی صداقت کے لیے تاریخی استدلال پیش کرتا ہےکہ جب کبھی انبیاء مبعوث ہوئے ان کی قوموں کے سامنے دو ہی آپشن تھے ۔یا تو انبیاء کی دعوت کو قبول کرلیں یا پھر عذاب ِ الہی کے لیے تیار ہوجائیں۔قرآن نے جتنی قوموں کی تاریخ پیش کی قوموں کے ساتھ یہی اللہ کی سنت دہرائی گئی۔پھر قرآن نبی کریم ﷺ کی دعوتی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مراحل میں بروقت ہدایت اور لائحۂ عمل فراہم کرتا ہے۔ بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں جتنے مراحل آئے ہیں وہ ان تما م مراحل کا احاطہ کرتے ہیں جو قیامت تک پیش آسکتے ہیں اور سیرت رسول ﷺ ان حالات میں مکمل نمونہ ہے اور قرآن ان تمام مراحل میں ہدایت فراہم کرتا ہے ۔ داعی اور مدعو کے رشتہ کو قرآن نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔داعی کے نزدیک دعوت سے بڑہ کر کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہوتی اس لیے وہ بدی کو نیکی سے دفع کرتا ہےتاکہ دعوت کے لیے فضا سازگار رہے۔وہ ایسے صابرانہ کردار کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جانی دشمن بھی جگر ی دوست بن سکتا ہے(حٰم السجدہ 34)۔دعوت کے مختلف اسلوب کو پیش کیا گیا کہ کس طرح حکمت (دلائل ) کے ساتھ ،کبھی موعظت(عمدہ نصیحت ) کے ساتھ اور کبھی جدال ِ احسن (عمدہ بحث ) کے ذریعے سے مدعو کی رعایت کرتے ہوئے دعوت پیش کی جائے۔
ہم جانتے ہیں کہ شرک ،کفر ،شر و فساد انسانیت کے لیے اس دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہیں اور آخروی زندگی کے لیے یقیناً تباہ کن ہے ، اس کے باوجود ہماری صدیوں کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے؟کیا یہ ہماری بزدلی ہے ؟ کیا یہ ہماری خودغرضی ہے ؟ یا ہماری غیر یقینی ہے ؟ یا پھر ہماری انسانیت سے دشمنی؟ کیا ان چیزوں کی قیمت چکانی نہیں پڑے گی؟ آج بھارت میں حالات جس موڑ پر ہیں وہ ہماری سوچ کے منتظر ہیں۔ اگر اب بھی ہم بزدلی اور خودغرضی کو چھوڑکر انسانیت کی اخروی بھلائی کے لیے فکر مند ہوکر ان کو تاریکیوں میں سے نکال کر قرآن کی روشنی سے روشناس نہیں کروائیں گے تو پھر اللہ کا فیصلہ ہمارے خلاف آسکتا ہے۔ امّت کے ہوشمند افرادکا کام ہےکہ امت کے غافل افراد کو اس اہم ذمداری پر متنبہ کرکے ان کے اندر داعیانہ سوچ پیدا کریں۔یہ احساس پیدا کریں کہ :دنیا فساد سے بھر رہی تھی اور ہم نے صدیوں سے تماشائی بن کر خاموشی اختیا رکررکھی تھی ۔کیا یہ خاموشی ایک جرم نہیں ہے؟۔ اسی لیے اس امّت کو خیر امت کا لقب دیکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےلیے ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے نکالا گیا تھا(سورہ آل عمران ۱۱۰)۔یہ ہے ہمارا اصل منصب۔
آج قرآن ہی ہمارےعروج و زوال کا فیصلہ کرنے والا ہے کیونکہ یہ قو ل ِ فیصل ہے(طارق ۱۳)۔ قرآن کی عظمت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اس سائنٹیفک دور میں اسلام کو تعلیم یافتہ طبقے میں پیش کرنا آسان کردیا ہے۔ قرآن پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شاید سائنسی دلائل آج ہی کے دور کے لیے قرآن میں شامل فرمائے ہیں ۔ قرآن مجید ہر لحاظ سے اور ہر دور کے لیے دعوتی مواد فراہم کرتا ہےتاکہ مدعو حق کے سامنے عاجز ہوجائے۔
مشرک قوم کے پاس جو کتب مقدسہ ہیں ان کے اندر بھی کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جو توحید پر دلالت کرتی ہیں جو داعیانِ حق کے لیے نشان راہ ثابت ہوسکتی ہیں کم نہیں جن کے ذریعے ہم کو مدعو سے مانوس ہونے میں بہت مدد ملتی ہے۔بالخصوص جب کہ مسلم و ہندو قوم کے درمیان بہت غلط فہمیاں ہوں تو ایسے حالات میں کلمۃ سوآء کی بہت اہمیت بڑہ جاتی ہے۔ یہ دعوت کا بہترین اصول ہے جس کو قرآن میں ایک ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیاہے(سورہ آل عمران۶۴)۔
قرآن جتنی عظمت رکھتا ہے اتنی ہی ہم پر ذمہ داری عاید ہوتی ہےکہ ہم اس عظیم نعمت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو محروم ہونے نہ دیں تاکہ ان کی دنیا و آخرت سدھر جائے اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ہمارے اندروہ اخلاقی قوت و جراءت پیداہو جس کے بل پر ہم دنیا میں پائے جانے والے ظلم ،شر ،فساد ، برائیوں کے خلاف اٹھ سکیں ۔ ہمارےاندر انسانیت کو کفر و شرک میں ڈوبا ہوا دیکھ کر تڑپ پیداہو(سورہ کہف ۶)۔اورقرآن کو لےکر فکری میدان میں جہاد کبیر کرنے کا عزم کریں (سورہ فرقان ۵۲)۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022