قرآن کی روشنی میں جنت اور جہنم کے خلود کا قضیہ
کیا آخرت میں ایک مدت کے بعد جہنم کو ختم کر دیا جائے گا؟
ابو فہد ندوی، نئی دلی
قرآن کریم میں اہل جنت اور اہل جہنم کے لیے’خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا‘ اور’خَالِدِينَ فِيهَا‘ کی تراکیب کم وبیش چالیس مقامات پرآئی ہیں۔ اور بیشتر مقامات پر پہلا جملہ جنتیوں کے لیے ہے اور دوسرا جہنمیوں کے لیے۔ جنتیوں کے لیے جب یہ کہا گیا کہ وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے تو اس میں مزید تاکید اور زور بیان پیدا کرنے کے لیے’خَالِدِينَ فِيهَا‘ کے بعد ’أَبَدًا‘ کا بھی اضافہ کیا گیا، لیکن جب جہنمیوں کے لیے یہی بات کہی گئی کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے تو صرف ’خَالِدِينَ فِيهَا‘ کہنے پر ہی اکتفا کیا گیا، یعنی ’أَبَدًا‘ کے اضافے کے بغیر۔ معانی تو دونوں جملوں کے ایک ہی ہیں، البتہ جس میں ’أَبَدًا‘ کا اضافہ ہے اس میں تاکید اور زور زیادہ ہے۔
سورہ تغابن میں اہل جنت اورا ہل جہنم دونوں کا ذکر ہے۔ جنتیوں کے لیے ’خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا‘ فرمایا گیا ہے اور جہنمیوں کے لیے ’أَبَدًا‘ کے اضافے کے بغیر صرف ’خَالِدِينَ فِيهَا‘ فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٩﴾ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿سورۃ التغابن:١٠﴾
’’ جس دن اللہ تم سب کو جمع کرے گا اور وہ خسارہ ظاہر ہونے کا دن ہوگا۔ تو جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہوگا اور دنیا میں نیک اعمال بھی کرتا رہا ہوگا، اللہ اس کی برائیوں کو مٹادے گا اور اس کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ایسے تمام لوگ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ایمان والے نہیں ہوں گے بلکہ انہوں نے ہماری (قولی وفعلی) آیات کو جھٹلایا ہوگا، وہ آگ والے ہوں گے یعنی انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘
تعجب خیز بات یہ ہے کہ قرآن میں بیشتر مقامات پر یہی ترتیب قائم رکھی گئی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ کم وبیش چالیس مقامات پر یہ دونوں فقرے استعمال ہوئے ہیں اور بیشتر جگہ اسی فرق کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں ۔
اس حوالے سے قرآن کے خاص اہتمام سے استدلال کرتے ہوئے اور بعض دیگر استدلال کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اللہ جنت کو تو ہمیشہ باقی رکھے گا لیکن جہنم کو اپنی رحمت کے سبب ایک مدت کے بعد ختم فرما دے گا۔ یعنی جنت میں جنتیوں کا خلود ابد الآباد ہوگا اور جہنم میں جہنمیوں کا خلود مؤقت ہوگا۔ مگر اس استدلال سے یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ اللہ نے اہل جنت کے لیے’خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا‘ اور اہل جہنم کے لیے ’خَالِدِينَ فِيهَا ‘فرمایا ہے تو صرف اسی سے مذکورہ نتیجہ نکال لینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ کیونکہ کم از دو مقامات پر قرآن کریم میں اللہ نے اہل جہنم کے لیے بھی ’خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا‘ کی ترکیب استعمال کی ہے، یعنی اہل جہنم کے لیے بھی ’خَالِدِينَ فِيهَا‘ کے بعد لفظ ’أَبَدًا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ذیل کی آیات دیکھیں :
إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللہ وَرِسَالَاتِهِ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿الجن: ٢٣﴾
’’اے نبی! کہہ دو کہ میرے ذمہ تو صرف اللہ کی بات اور اس کے پیغامات کو تمام انسانوں تک من وعن پہنچا دینا ہے۔ اب (اللہ کے پیغامات آجانے کے بعد) جوکوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، تواس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ایسے نافرمان لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے‘‘
إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا، خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (سورۃ الاحزاب-۶۴،۶۵)
’’ انکار کرنے والوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور اللہ نے ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ کے لیے پڑے رہیں گے اور ان کا کوئی دوست اور مددگار بھی نہیں ہوگا کہ وہ ان کی مدد لے سکیں‘‘
قرآن کریم کے مزید دو مقامات پر ’ خَالِدِينَ فِيهَا‘ کے بعد ’ أَبَدًا ‘ کے اضافے کے بجائے ’’مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اور یہ دونوں کے لیے ہیں، جنتیوں کے لیے بھی اور جہنمیوں کے لیے بھی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ان مقامات پر دونوں کے ساتھ استثنیٰ بھی ہے۔ یعنی اللہ اگر کچھ اہل ایمان کوجہنم سے نکال لے گا تو کچھ اہل ایمان کو جنت میں داخل ہونے سے بھی روک دے گا۔ سورۂ ھود کی ذیل کی آیات دیکھیں:
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿هود: ١٠٧﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ﴿هود: ١٠٨﴾
’’پھر جو لوگ بدبخت ہوں گے ان کے لیے جہنم ہے، جہنم میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ آگ کی تپش کی وجہ سے وہ چیخ چلا رہے ہوں گے اور پھنکاریں مار رہے ہوں گے، یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے جب تک زمین وآسمان قائم ہیں، الا یہ کہ آپ کا رب کچھ اور فیصلہ کرنا چاہے یعنی وہ جس کو چاہے اسے ہمیشہ جہنم میں نہ رکھے۔ اور آپ کا رب جو کرنا چاہتا ہے وہ کر ڈالتا ہے۔ اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے ان کے لیےجنت ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، جب تک زمین وآسمان قائم ہیں، الا یہ کہ آپ کا رب کچھ اور فیصلہ کرنا چاہیے، یعنی کسی کو جنت میں تاخیر سے بھیجے۔ اور جنتیوں کے لیے اللہ کی نعمت غیر محدود ہوگی۔‘‘
تفسیر المیسر میں ہے:
’’وأما الذين رزقهم الله السعادة فيدخلون الجنة خالدين فيها ما دامت السموات والأرض، إلا الفريق الذي شاء الله تأخيره، وهم عصاة الموحدين، فإنهم يبقون في النار فترة من الزمن، ثم يخرجون منها إلى الجنة بمشيئة الله ورحمته، ويعطي ربك هؤلاء السعداء في الجنة عطاء غير مقطوع عنهم۔‘‘
’’اور جنہیں اللہ نے نیک بخت کیا ہو گا، وہ جنت میں داخل ہوں گے اور جب تک زمین وآسمان قائم رہیں گے وہ جنت میں ہی رہیں گے۔ البتہ ان میں ایک گروہ ایساہوگا جس کو اللہ جنت میں داخل کرنے میں تاخیر کرے گا اور یہ اہل توحید میں سے گنہگار لوگ ہوں گے، یہ مجرم لوگ ایک زمانے تک جہنم میں ہی رہیں گے۔ پھر اللہ انہیں اپنی رحمت ومشیت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور ان نیک بخت لوگوں کو اللہ جنت میں غیر محدود اور لازوال نعمتیں دے گا۔‘‘
اوراسی ضمن میں صاحب تفسیر ابن کثیر رقمطراز ہیں کہ:
’’معنى الاستثناء هاهنا:أن دوامهم فيما هم فيه من النعيم ، ليس أمرا واجبا بذاته ، بل هو موكول إلى مشيئة الله تعالى ‘‘
’’یہاں استثنٰی کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں ان کا دوام بذات خود کوئی واجب امر نہیں ہوگا بلکہ اللہ کی مشیت کے تابع ہوگا۔‘‘
مزید ایک آیت دیکھیں جس میں اہل جہنم کے لیے استثنیٰ کیا گیا ہے۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿الأنعام: ١٢٨﴾
’’ ذرا اس دن کے بارے میں سوچو! جس دن اللہ تمام جن وانس کو جمع کرے گا اور جنات کے گروہ کو مخاطب کرکے فرمائے گا، تم نے انسانوں کو خوب گمراہ کیا۔ ان شیاطین جنات کی پیروی کرنے والے انسان کہیں گے، اے ہمارے رب! بے شک ہم (ظلم وعدوان کے کاموں میں) ایک دوسرے کو خوب استعمال کرتے رہے، یہاں تک ہم اس مقررہ میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمادی تھی۔ تو اللہ فرمائے گا، اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے الا یہ کہ اللہ کچھ اور فیصلہ فرمادے، یعنی کسی کے عذاب میں کچھ تخفیف فرما دے۔ اے نبی! بے شک آپ کا رب بہت حکمت والا اور بہت علم والا ہے۔‘‘
لیکن چونکہ اللہ مختار کل ہے اور جیسا کہ’ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ‘ ﴿هود: ١٠٧﴾ کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سامنے اپنے ارادے کو مکمل کرنے کے لیے کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہے اور جیسا کہ مذکورہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ’إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ‘ ﴿الأنعام: ١٢٨﴾ اللہ دانا وبینا اور علیم وخبیر ہے۔ اور جیسا کہ سورہ ٔاعراف میں ہے ’وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ‘ ﴿الأعراف: ١٥٦﴾ اللہ کی رحمت ہر چیز کو وسیع ہے۔ اور جیسا کہ اللہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اور پھر سیئات اور گناہوں کی سزا اللہ اتنی ہی رکھتاہے جتنی کہ واجب اور لازم ہو جبکہ نیکیوں اور حسنات کو اللہ دو چند اور سہ چند کر دیتا ہے بلکہ ہزار گنا تک بھی بڑھا دیتا ہے۔ اور جیسا کہ نیکی کا صرف ارادہ کرنے پر ہی اللہ ایک نیکی لکھ لیتا ہے جبکہ برائی کے محض ارادے پر کوئی مؤاخذہ نہیں کرتا جب تک کہ بندہ اس برائی کو عمل میں نہ لے آئے۔۔۔۔ تو اللہ کے اس مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اگر چاہے گا تو جہنم کو ختم فرما دے گا اور صرف جنت کو باقی رکھے گا۔ لیکن اس سب کا مدار اللہ کی اپنی مشئیت پر ہے، خارج سے اس پر کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
***
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اور پھر سیئات اور گناہوں کی سزا اللہ اتنی ہی رکھتاہے جتنی کہ واجب اور لازم ہو جبکہ نیکیوں اور حسنات کو اللہ دو چند اور سہ چند کر دیتا ہے بلکہ ہزار گنا تک بھی بڑھا دیتا ہے۔ اور جیسا کہ نیکی کا صرف ارادہ کرنے پر ہی اللہ ایک نیکی لکھ لیتا ہے جبکہ برائی کے محض ارادے پر کوئی مؤاخذہ نہیں کرتا جب تک کہ بندہ اس برائی کو عمل میں نہ لے آئے۔ تو اللہ کے اس مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اگر چاہے گا تو جہنم کو ختم فرما دے گا اور صرف جنت کو باقی رکھے گا۔ لیکن اس سب کا مدار اللہ کی اپنی مشئیت پر ہے، خارج سے اس پر کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024