بشری ثبات روشن
جب سے تحریری سرمایے کو کتابی شکل دی جانے لگی تب سے اب تک موجودہ زمانے تک مختلف زاویوں اور پہلووں سے متعدد تفسیریں لکھی گئی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے اسے مردوں کے لیے مخصوص میدان سمجھ لیا ہے جب کہ اس میدان میں خواتین بھی پیش پیش رہی ہیں تاہم ان کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔
بات عالم عرب سے شروع کریں تو سب سے پہلا نام تو ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ کا آئے گا۔ خدمت قرآن میں حضرت عائشہ کے مقام ورتبے کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی مفسر قرآن کی تچریحات میں ام المومنین کی تعبیرات و تصریحات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں جہاں مرد و خواتین دونوں ہی قرآن سمجھنے میں دلچسپی لے رہے تھے وہیں حضرت عائشہؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ خواتین کے درمیان بخوبی کردار ادا کر رہی تھیں چناں چہ حضرت عائشہؓ کو قرآنی آیات کی تعبیر کی سب سے اہم شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی نے کم عمری میں وہ کچھ سیکھا اور حفظ کیا جو ناقابلِ بیاں ہے، ان کا حافظہ بہترین تھا، وہ بہت ہی ذہین اور علم دوست خاتون تھیں۔ بہت سے مسائل کو انہوں نے آپؐسے بالواسطہ سیکھا انہیں عامةالناس تک پہنچایا اور پھیلایا اور آپؓ کے وفات پا جانے کے بعد بھی پہنچاتی رہیں۔
حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں سورہ بقرہ اور سورہ نساء کی جو بھی آیات آپؐپر نازل ہوئیں میں اس وقت حضورؐ کے ساتھ ہی تھی۔
فاطمہ نیشاپوری مشہور مفسرہ تھیں اور فہم قرآن میں کمال رکھتی تھیں۔ ابن مالک کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ بزرگ عورت کبھی نہیں دیکھی۔ ایک دن میں نے ان کی عالمیت پر تعجب کرتے ہوئے حضرت ذوالنورین مصری سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہیں تو انہوں نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء میں سے ایک ولیہ ہیں اور میری استاذہ ہیں۔ (صفةالصفوة صفحه 16جلد4)
مندرجہ ذیل خواتین جنہوں قرآن کی تفسیر میں اپنے کمالات کے گر دکھائے۔
زیب النساء جو سلطان عالمگیر الہندی کی بیٹی تھیں۔ بچپن میں ہی قرآن حفظ کیا۔ خطاطی کا فن سیکھا۔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی ماہر تھیں۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ 1702ء میں دہلی میں فوت ہوئیں۔
زیب النساء نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے اس کا نام زیب التفاسیر فی تفسیر القرآن ہے۔ اصل میں یہ تفسیر امام رازی کی تفسیر کا فارسی مجموعہ ہے۔
خواتین کے سلسلے میں زیب النساء قرآن کریم کی پہلی مفسرہ مانی جاتی ہیں۔ ان کے بعد نصرت بیگم، زینب الغزالی، نائلہ ہاشم، فوقیہ اسربینی، کاملی بنت محمد، کریمن حمزہ ہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر باحیات ہیں۔ اس کے ساتھ ترک سے تعلق رکھنے والی سمرہ کورون اور نیضلہ یاسدیمن بھی ہیں۔
نصرت بیگم:- ان کا اصل نام نصرت بیگم امین تھا۔ یہ ایران سے تعلق رکھتی تھیں۔ والد کا نام محمد علی امین تھا۔ یہ پہلی عجمی خاتون تھیں جنہوں نے پورے قرآن کی تفسیر مخزن العرفان در تفسیر قرآن کے نام سے لکھی۔
زینب الغزالی جبیلی :- 1917ء میں قاہرہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں. گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے سماجی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیا اور 1937ء میں ’’السیدات المسلمات‘‘ نامی خواتین کے تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے ’’نظرات فی کتاب الله‘‘ کے نام قرآن کی تفسیر لکھی۔
عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی :- موصوفہ دمیاط مصر کی مشہور و معروف پروفیسر اور مفکرہ تھیں۔ الازھر یونیورسٹی کی پہلی خاتون لیکچرر تھیں۔ ان کی تفسیر کا نام ’’تفسیر البیانی‘‘ ہے۔
نائلہ ہاشم صبری :- نائلہ 1944ء کو قلقیلیہ فلسطین میں پیدا ہوئیں۔ المبصرلنوالقرآن کے نام سے قرآن کی تفسیر لکھی۔ موصوفہ فلسطینی مفتی ڈاکٹر عکرمہ سعید صبری کی زوجہ ہیں۔ المبصرلنور القرآن 16 جلدوں میں شائع ہوئی۔
فوقیہ اسربینی :- ان کا اصلی نام فوقیہ ابراھیم اسربینی ہے ۔فوقیہ نے عربی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور تیسیرۃ التفسیر کے نام سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔
کاملی بنت محمد :- کاملی بنت محمد بن قاسم بن علی قطر میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پچپن ہی میں قرآن حفظ کر لیا تھا اور اسلامی شریعہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، ان کی تفسیر کا نام تفسیر غریب القرآن ہے۔
کریمن حمزہ :- ان کا تعلق مصر سے ہے۔ کریمن حمزہ نے صحافت میں گریجویشن کیا۔ آن کی تفسیر کا نام تفسیر اللولو والمرجان ہے۔سمرہ کورون (Semra kurun):- ترکی زبان میں پہلی بار قرآن کی تفسیر جو کسی عورت نے لکھی وہ سمرہ کورون ہیں
ان کی تفسیر کا نام Okuyucu tefsiri ہے۔ مولفہ Malatya ترکی میں پیدا ہوئیں۔ اصل میں یہ تفسیر محاضرات کا ایک مجموعہ ہے۔
نیضلہ یاسدیمن (Necla yasdiman) :- سنہ 1962ء میں پیدا ہوئیں 1984ء میں اصول دین میں انقرہ سے گریجویشن کیا۔ ان کی تفسیر کا نام قرآن تحلیلی (kuran Tahlili) ہے
حافظات۔۔۔۔۔ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کو لوگ حافظ قرآن بنانے میں دلچسپی نہیں لیتے جبکہ دونوں کا اپنے اپنے میدان میں اہم کردار ہے۔
بہت سی حافظات، قاریات، مقریات، مفسرات اور محدثات گزری ہیں۔ اگر ہم ان کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کرتے ہیں تو اپنی زندگی کو قرآن وحدیث کی روشنی سے منور کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں ۔ یا ان کے کیے ہوئے اعمال کو اپنے بچوں کی زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسی کچھ حافظات ہیں جن کا ذکر بھی ضروری ہے
حفصہ بنت سیرین نے قرآن کریم کو مع اس کے معنی و مطالب بارہ برس کی عمر میں حفظ کر لیا تھا۔ (تہذیب التہذیب صفحہ 409 جلد نمبر 11)
فن تجوید میں بھی وہ مہارت رکھتی تھیں۔ ہشام راوی کا بیان ہے جب کبھی ان کے بھائی محمد بن سیرین کو قرأت کے بارے کوئی شبہ پڑ جاتا تو اپنے شاگردوں سے کہتے جاؤ حفصہ سے پوچھو کہ وہ اسے کس طرح پڑھتی ہیں۔ حفصہ ہر روز نصف قرآن پڑھا کرتی تھیں۔
( صفةالصفوة صفحه 16جلد4)
امام ضیاءالدین مقدسہ کی بہن آسیہ اپنے زمانے کی بے مثل عابدہ، زاہدہ اور حافظہ قرآن تھیں۔ اسی طرح ان کی زوجہ آسیہ بنت محمد بن خلف مقدسیہ قرآن کی بہترین عالمہ اور علوم قرآنی کی مہارت میں شہرت رکھتی تھیں، فن تجوید و قرآت سے خاص شغف تھا۔
(حاشیہ الاکمال صفحہ 92جلد1)
امام زین الدین ابو الحسن علی بن ابرہیم قاری دمشقی مصری 599ھ زبردست فقیہ، واعظ اور مفسر قرآن تھے اور یہ تمام فضائل ان کی ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھے جو خود بھی نہایت نیک حافظہ اور مفسرہ تھی۔
ناصح الدین راوی کا بیان ہے کہ: جب میں اپنے ماموں امام شرف الاسلام سے تفسیر پڑھ کر والدہ کے پاس جاتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتی کی بھائی نے آج کیا تفسیر بیان کی؟ جب میں کہتا کہ اس نے فلاں فلاں سورتوں کی تفسیر بیان کی تو پوچھتیں کہ کیا فلاں کا قول نقل کیا تھا؟ میں کہتا نہیں تو اس کو خود بیان کرتی اور کہتیں کہ اس نے اس کو چھوڑ دیا۔
تاہم دین کے معاملے میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے جس طرح مردوں کے دو درجے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی دو درجے ہیں ۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام درجہ وہ ہے جو ہر خاتون کے لیے ہے۔ یعنی ذاتی معاملات میں خدا اور بندوں کے حقوق ادا کرنا۔ خدا کے بارے میں عقیدے کی درستگی، خدا کے احکام کی بجا آوری، زندگی کے معاملات میں خدا کے انصاف پر قائم رہنا، نفسانی محرکات اور شیطانی وسوسے کا مقابلہ کرنا، اپنی ذات اور اپنے مال سے خدا کا حق نکالنا، ہمیشہ دنیا کے معاملے میں آخرت کو سامنے رکھنا، اپنے گھر اور اپنے متعلقین کے درمیان اسلامی اخلاق کے ساتھ رہنا، معاملات میں ہمیشہ وہ کرنا جو اسلام کا تقاضا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022