پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم

معاشیات کے جنگل اور سود کے دلدل میں نجات کی راہ ڈھونڈھنے والا مفکر

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

پروفیسرنجات اللہ صدیقی کا اسلامیات اور معاشیات کی دنیامیں بڑا نام ہے ۔ علمی دنیا میں بڑانام اس شخص کا ہوتا ہے جس نے بڑا علمی اور تحقیقی کام کیا ہو ۔ کوئی کار تجدید ، کسی فکر انگیز مضمون کی تصنیف ،کوئی دعوت انقلاب کوئی فکر نایاب کوئی کتاب لا جواب۔پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے کئی بہت فکرافروز انقلاب انگیزکتابیں لکھی ہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں بہت سے ایوارڈ ان کو دیے گئے ہیں۔ شاہ فیصل ایوارڈ ان کو۱۹۸۲ میں دیا گیا امریکن فائنانس ایوارڈ اور تکفل فارم نیویارک ایوارڈ ان کو ۱۹۹۳ میں دیا گیا ہندوستان میں معروف علمی ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نے ۲۰۰۳ میں انہیں شاہ ولی اللہ ایوارڈ عطا کیا ۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقی کا کارنامہ حیات یہ ہے کہ انہوں نے عہد جدید کے علم الاقتصاد کو مشرف بہ اسلام کیا ہے وہ معاشیات کی دنیا میں ہمہ گیر تبدیلی کے داعی اور علم بردار تھے بینکنگ کے سودی نظام کو وہ بدلنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کا اسلامی متبادل پیش کیا تھا یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے دین کے تصور میں خلافت ارضی کو صحیح مقام عطا کیا ہو اور خاک کی آغوش میں تسبیح ومنا جات ان کی آخری منزل نہ ہو ۔ہمارے گرد وبیش میں بہت سے اللہ والے ایسے ملیں گے جنہوں نے مقامات آہ وفغاں اور سلوک کی تمام منزلیں طے کرلی ہوں گی لیکن جہاد زندگانی کی تدبیروں سے اوررزم گاہ حیات کی شمشیروں سے ان کو کئی سروکار نہیں ہوگا ، احیاء اسلام اور غلبہ اسلام کی کوششوں سے وہ بے تعلق ہوں گے ۔ یقین کیجیے کہ وہ اسلام کے آئیڈیل پیروکار نہیں ہوں گے۔صحابہ کرام کے باے میں یہ آتا ہے کہ وہ رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار ہوتے تھے۔ ،پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے بلند علمی اور تحقیقی مقام تک پہنچنے کے لیے تیاریاں کی تھیں، انہوں نے عربی زبان سیکھی ، اسلامی علوم کے طالب علم بنے، مولانا ابواللیث اصلاحی نے رامپور میں ان کے لیے تعلیم کا خصوصی انتظام کیا، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیوِرسیٹی میں طالب علم بنے اور پھروہاں اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں استادہوئے اور پھر اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے ۔یونیورسٹی میں صرف استاد ہونا بڑی بات نہیں ، نگارِ علم کا فرہاد ہونا بڑی بات ہے ، جویائے تحقیق بننا بڑی بات ہے کوہکن اور تیشہ زن ہونا بڑی بات ہے۔ زیادہ تر یونیورسٹی کے اساتذہ ایک بار یونیورسٹی میں آگئے تو پھر اپنی شاہانہ تنخواہ وصول کرتے رہتے ہیں لکچرر سے ریڈر بننے اور ریڈر سے پروفیسر بننے کے لیے انٹرویو میں دکھانے کے لیے رسمی سا کچھ تحریری کام ضرور کرلیتے ہیں ورنہ افکار ونظریات اور علم وتحقیق کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا ہے ۔ ورنکلر لینگوجز اور سماجی علوم کے شعبوں کا حال یہی ہے ۔ان میں مشکل سے کوئی شخصیت ایسی پیدا ہوتی ہے زمانہ جس کا طواف کرتا ہے ۔
راقم سطور نے پہلی بار ان سے ملاقات اسوقت کی تھی جب اس نے ان کے قلم سے سید قطب کی عربی کتاب کا ارد ترجمہ اسلام کا نظام عدل اجتماعی پڑھا تھا اس وقت وہ مسلم یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ میں استاد تھے پھر ایک بار دہلی میں بہت مختصرملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ہمارے اس مضمون کو سراہا تھا جو ’’زندگی ‘‘میں شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’حاکم کے خلاف خروج کا مسئلہ ‘‘جس میں میں نے عرب ملکوں میں حکومت کے خلاف عوامی شورش کی حمایت کی تھی۔پروفیسر نجات اللہ صدیقی کا اصل موضوع معاشیات تھا تصوف کی کتابوں نے ،مولانا علی میاں کی تحریروں نے اور اقبال کی شاعری نے مجھے اس سبجیکٹ سے ہم آہنگ ہونے نہیں دیا تھا۔اقبال نے یوں تو نثر میں معاشیات پر پوری کتاب لکھی تھی لیکن شعر وادب کی دنیا میں وہ فقر واستغنااور درویشی کی تلقین کرتے رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے ’’ہے کس اور کی خاطر یہ نصاب زرو سیم‘‘ ۔ قرآن میں مال کو’’ قیام ‘‘ کا یعنی طاقت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اس لیے مالیات اورمعاشیات ایسی چیز نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جائے۔ یوں تو میں نے سود اور جدید معاشی نظریے مولانامودودی کی کتابیں پڑھ لی تھیں لیکن اس لیے نہیں کہ معاشیات کے سبجیکٹ سے دلچسپی تھی بلکہ اس لیے کہ مولانا مودودی کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں ہم پڑھا کرتے تھے نجات اللہ صدیقی صاحب کے بارے مں اہل علم کی تعریفین ہم سنا کرتے تھے کہ علم الاقتصاد کی دنیا میں انہوں انقلابی کام انجام دیے ہیں انہوں نے اسلام کے نظام محاصل پر کام کیا ہے ، اسلام بینکنگ پر کام کیا ہے، غیر سودی بینک کاری اور انٹرسٹ فری فائنانس ، اسلامک بینکنگ اور شرکت اورمضاربت کے شرعی اصول پر علمی اور تحقیقی کتابیں لکھی ہیں، اجتماعی نظم زکوٰۃ پر بھی وہ کتاب لکھنے والے تھے ۔ اسلامی دنیا میں ان کا موں کا اعتراف کیا گیا ہے اور مختلف ایوارڈ کے ذریعہ ان کی تحسین وستائش کی گئی ہے ،دور تک دیکھنے اور دیر تک سوچنے پر بھی ان کا کوئی ہمسر کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ایسے مجتہدانہ ذہن رکھنے والے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور بہت زمانہ کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔
پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے مجتہدانہ ذہن اور ان کی عبقریت کی روشن مثال ان کی کتاب ’’ مقاصد شریعت ‘‘ بھی ہے اس کتاب کی تصنیف کے لیے انہوں نے ماضی کے ذخیرہ علم سے پورا استفاد ہ کیا ہے امام الحرمیں جوینی ، عزالدین ابن سلام ، امام غزالی امام شافعی ، شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتابیں پڑھی ہیں عہد جدید کے مشہور عالم یوسف القرضاوی کی تصنیفات سے فائدہ اٹھایا ہے اور پھر قدیم مقاصد شریعت میں کئی نئے مقاصد کا اضافہ کیا ہے یہ کتاب پروفیسرنجات اللہ صدیقی کے مجتہدانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے ان کے بہت سے نتائج فکر سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ان کی عبقریت اس کتاب سے عیاں ہوتی ہے ، مقلدانہ ذہن رکھنے والا کوئی شخص ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا ہے ۔ بقول اقبال
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022