افروز عالم ساحل
’ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اپنی اپنی ’دکان‘ علیحدہ سجانے کے بجائے سب ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں۔ یہ میٹنگ اسی کوشش کا نتیجہ تھی۔ اس میٹنگ کے اندر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس میں تمام مسلکی اعناد سے اوپر اٹھ کر لوگوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس میں دیوبندی بھی تھے، بریلوی بھی تھے، شیعہ بھی تھے اور سنی بھی تھے۔ یہ اپنی جگہ خود بڑی بات ہے۔‘
یہ باتیں مشہور اسلامی اسکالر و پدم شری پروفیسر اختر الواسع کی ہیں۔ واضح رہے کہ پروفیسر واسع مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھ پور کے وائس چانسلر ہیں۔ آپ حکومت ہند میں نیشنل کمشنر برائے لسانی اقلیات کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔انہیں حکومت امریکہ کی جانب سے مشہور علمی وقار ’’فل برائٹ فیلو شپ کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے۔ دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں پروفیسر اور ہیڈ فیکلٹی آف ہیومنٹیزکے ڈین، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔ گزشتہ ۸ اگست کو دہلی کے جامعہ نگر علاقے کے ہوٹل ریور ویو میں منعقد ’اتحاد ملت کانفرنس‘ میں آپ بھی شامل تھے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اس میٹنگ میں شامل لوگوں نے حالات کی حساسیت کا پوری طرح خیال کیا۔ دوسری بات ہمیں یہ سمجھنی چاہیے کہ جو لوگ اس میں شریک ہوئے تھے اس کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت تو نہیں تھی اور ملت کے ہر فرد اور جماعت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اپنے انداز سے فیصلے لے۔ اس میٹنگ میں سب نے اس بات پر فکرمندی کا اظہار کیا کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں ہمیں مل بیٹھ کر ایک متفقہ اور مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ یہی اس میٹنگ کا اصل مقصد بھی تھا۔
کیا کوئی حکمت عملی تیار ہوئی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ایک گروپ تشکیل دیا گیا ہے کہ اپنی اپنی جماعتوں میں، اپنے اپنے فرقوں میں اور اپنے اپنے مسالک میں لوگ جوں کے توں رہیں، لیکن ان لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنی ہے۔ اب وہ بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ مستقبل میں کیا کریں گے۔ اگر ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کی تائید کریں اور اتفاق نہیں کرتے تو تنقید کا حق بھی آپ کے پاس موجود ہے۔ تنقید کرنے سے کوئی کسی کو روک نہیں رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر جو تنقید ہورہی ہے، اس پر آپ کیا کہنا چا ہیں گے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں، میں کسی کے اختلاف کے حق کو مسترد نہیں کرتا ہوں۔ سب کو اپنے انداز سے سوچنے اور اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ جب تک خراب نتائج برآمد نہ ہوں، اس وقت تک تنقید نہیں کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو کل تک ایک دوسرے کے ساتھ کسی بھی شرکت کے لیے تیار نہیں تھے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک مشترکہ کامن مینیمم پروگرام بنانے کے لیے تیار ہوئے ہیں، میری نظر میں اس کی تائید ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ہمیں ان نوجوانوں کے جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ لیکن ان سے بھی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں اور ایسا کوئی ’فتویٰ‘ نہ دیں جو ان کے لیے مناسب نہ ہو۔ نوجوان نسل کی پریشانی وتکلیف کو میں سمجھ سکتا ہوں، لیکن انہیں تھوڑا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے لوگ ہیں۔ آپ ان سے جو چاہے اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن ان کی نیک نیتی اور اخلاص پر شبہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں کم از کم اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ
’ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں،
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ میں پھر سے کہوں گا کہ میرے نزدیک تو سب سے بڑی جو بات ہے جس کی ستائش ہونی چاہیے اور جس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ لوگ جو کہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے الگ الگ تھے، اور ابھی بھی علیحدہ علیحدہ ہیں، انہوں نے کم از کم اتفاق رائے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ یہ بڑی بات ہے، اس کی قدر ہونی چاہیے۔ میڈیا کو دور رکھنے کے سوال پر پروفیسر اخترالواسع کہتے ہیں یہ میٹنگ بالکل ابتدائی نوعیت کی تھی، اس لیے جب کوئی متحدہ لائحہ عمل سامنے آئے گا تو سب کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ جب بلانے کا وقت آئے گا تو آپ کے بغیر بات کیسے بنے گی۔ لیکن جو بلانے والے لوگ ہیں، ہمیں ان کی صوابدید پر بھی بھروسہ کرناچاہیے اور میڈیا کو دور کہاں رکھا گیا۔ اس میٹنگ کی پریس ریلیز تو جاری ہوئی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021