پریاگ راج: کارکن جاوید محمد کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کا مطالبہ

نئی دہلی، جولائی 17: انڈین ایکسپریس نے اتوار کو اطلاع دی کہ پریاگ راج ضلع انتظامیہ نے 10 جون کو شہر میں ہونے والے تشدد سے متعلق ایک معاملے میں کارکن جاوید محمد کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ تشدد بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل شدہ ترجمان نپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں کئے گئے توہین آمیز رتبصروں کے خلاف احتجاج کے دوران ہوا تھا۔ پولیس نے جاوید محمد کو 11 جون کو گرفتار کیا تھا، وہ اس وقت دیوریا ضلع جیل میں بند ہیں۔

دی وائر کی خبر کے مطابق جاوید کے وکیل کے کے رائے نے کہا کہ اگرچہ ان کے مؤکل کے خلاف اس ایکٹ کی درخواست کی گئی ہے، لیکن انھیں حکام سے اس سلسلے میں دستاویزات موصول ہونا باقی ہیں۔

یہ قانون کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور اگر حکومت اس شخص کے خلاف تازہ ثبوت فراہم کرتی ہے تو اس مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

جاوید کے وکیل نے کہا ’’ہم جو محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان الزامات کا مقصد جاوید محمد کو منتخب طور پر نشانہ بنانا ہے کیوں کہ پولیس اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے کہ وہ تشدد میں ملوث تھے یا انھوں نے کسی بھیڑ کو اکسایا۔‘‘

رائے نے کہا کہ جاوید کے تشدد پر اکسانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ’’اس کے علاوہ پریاگ راج میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھی گئی تھی – کوئی کرفیو بھی نہیں لگایا گیا تھا – لہذا بنیادی طور پر [قومی سلامتی ایکٹ] کی درخواست کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘‘

شہری حکام نے جاوید محمد کی گرفتاری کے ایک دن بعد 12 جون کو ان کے گھر کو مسمار کر دیا تھا۔

اگرچہ ہندوستانی قانون کے تحت کسی ملزم کے گھر کو منہدم کرنے کی کوئی دفعات نہیں ہیں، تاہم یہ نمونہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں باقاعدگی سے دیکھا گیا ہے۔ جن لوگوں کے گھر اس طریقے سے گرائے گئے ان میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔

پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 10 مئی کو جاوید محمد کو وجہ بتاؤ نوٹس دیا تھا اور 24 مئی کو سماعت کے لیے حاضر ہونے کو کہا تھا۔

تاہم جاوید محمد کی چھوٹی بیٹی صومیہ فاطمہ نے بتایا کہ انھیں گھر کی مبینہ غیر قانونییت کے بارے میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔

رائے نے ان کے گھر کے انہدام کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ مکان جاوید محمد کی بیوی کا تھا، لیکن حکم نامے میں ان کا نام نہیں تھا۔