پولیس نے ‘دی کشمیر والا’ کے عبوری ایڈیٹر کو ایک ایسے ‘باغیانہ’ مضمون کے لیے طلب کیا جس کی اشاعت کے وقت وہ محض 12 سال کا تھا
نئی دہلی، جون 2: دی وائر نے رپورٹ کیا کہ جموں اور کشمیر پولیس کے انسداد انٹیلی جنس ونگ نے دی کشمیر والا کے عبوری ایڈیٹر یشراج شرما کو 2011 میں ایک آن لائن میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی نے 23 سالہ نوجوان کو جمعرات تک جموں کے مشترکہ تفتیشی مرکز میں آنے کو کہا ہے۔
دی کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ پہلے ہی ایک مضمون کے سلسلے میں ریاستی تحقیقاتی ایجنسی کی تحویل میں ہیں، جس کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’انتہائی اشتعال انگیز اور فتنہ انگیز‘‘ ہے۔ پولیس کے مطابق وہ مضمون ریسرچ اسکالر عبدالاعلیٰ فاضلی نے لکھا تھا، جنھیں 17 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق شرما، جنھوں نے شاہ کی گرفتاری کے بعد دی کشمیر والا کے ادارتی امور سنبھالے ہیں، اس وقت 12 سال کے تھے جب وہ مضمون شائع ہوا۔ انھوں نے 2018 میں اس میگزین میں شمولیت اختیار کی۔
پولیس نے کہا ’’عبدالاعلیٰ فاضلی کا مضمون ’’غلامی کی بیڑیاں ٹوٹ جائیں گی‘‘ کا مقصد جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانا اور نوجوانوں کو دہشت گردی کو بڑھاوا دے کر تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے لیے اکسانا ہے۔‘‘
پولیس کے بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ مضمون نے ’’علاحدگی پسند اور دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے کے لیے ایک غلط بیانیہ کو فروغ دیا جس کا مقصد ہندوستان کی علاقائی سالمیت کو توڑنا ہے۔‘‘
18 مئی کو جموں کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کے حکم میں کہا گیا کہ فاضلی نے اپنی تفتیش کے دوران یہ مضمون لکھنے سے انکار کیا تھا۔ حکم میں مزید کہا گیا ہے ’’لہٰذا تحقیقاتی ایجنسی کے لیے حقائق سامنے لانے کے لیے دی کشمیر والا کے ایڈیٹر انچیف [فہد شاہ] کی تحویل ضروری ہے۔‘‘
شاہ کے خلاف یہ پانچواں مقدمہ ہے، جسے پہلی بار پلوامہ پولیس نے فروری میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ملک مخالف مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
شرما کو جاری کیے گئے سمن میں الزام لگایا گیا ہے کہ کچھ میڈیا پرسن ’’کشمیر میں ہونے والے واقعات کا جھوٹا اور مسخ شدہ بیان‘‘ پیش کرنے کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنے قارئین کو یہ باور کرا سکیں کہ ’’جب تک کشمیر انڈیا کا حصہ ہے تب تک کچھ
اچھا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔‘‘
کشمیریت کے مطابق سمن میں کہا گیا ہے کہ ’’ذرائع کے مطابق میڈیا کے اندر منتخب ہندوستان مخالف عناصر، جن میں سے بہت سے آئی ایس آئی [انٹر سروسز انٹیلی جنس] کے پے رول پر ہیں، میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنائے ہیں، جو سستے ہیں لیکن ان کی رسائی وسیع ہے اور ان کے غیر ملکی ایجنسیوں اور دہشت گرد اور علاحدگی پسند اداروں کے ساتھ روابط ہیں اور ان سے ہی فنڈ حاصل کرتے ہیں۔‘‘
سمن میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ دی کشمیر والا کی طرف سے شائع ہونے والا مضمون ’’عسکریت پسندوں میں شامل ہونے کے بعد بہت سے نوجوانوں کو دہشت گرد اور علاحدگی پسند بننے کی ترغیب دے گا۔‘‘
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر شاہ کو ضمانت مل جاتی ہے تو وہ اس کیس میں ثبوت کو تباہ کر سکتے ہیں۔ سمن میں لکھا گی ہے کہ ’’ہمیں یہ خدشہ بھی ہے کہ وہ بہت سے دوسرے صحافیوں کی طرح ملک سے فرار ہو سکتا ہے۔‘‘
میگزین نے ایک بیان میں کہا کہ فاضلی کے علاوہ دی کشمیر والا کے ’’بے نام ایڈیٹر‘‘ اور ساتھیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعہ 13 اور 18 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 120B (مجرمانہ سازش) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’کشمیر والا کی ٹیم کے لیے یہ ایک اور سخت دھچکا ہے کیوں کہ ہم جموں میں جے آئی سی میں شاہ کی صحت اور تندرستی کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم منوج سنہا کی زیر قیادت جموں و کشمیر انتظامیہ سے اپنی اپیل کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ شاہ اور دی کشمیر والا کے صحافتی کام کے خلاف تمام الزامات کو ختم کریں اور ان کی فوری رہائی میں سہولت فراہم کریں۔‘‘