پولیس صرف اس بنیاد پر کسی صحافی کا فون ضبط نہیں کر سکتی کہ اس کے فون میں کسی جرم سے متعلق معلومات ہیں: کیرالہ ہائی کورٹ
نئی دہلی، جولائی 10: کیرالہ ہائی کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ پولیس کسی صحافی کا فون صرف اس لیے ضبط نہیں کر سکتی کہ اس کے پاس کسی جرم کے بارے میں معلومات ہیں۔
جسٹس پی وی کُنہی کرشنن نے کہا کہ صحافیوں کو مختلف جرائم کے بارے میں معلومات ملتی ہیں لیکن یہ بات ان کے فون ضبط کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی۔
عدالت ملیالم اخبار کے لیے کام کرنے والے صحافی جی وشاکن کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ دی نیوز منٹ کے مطابق وشاکن نے الزام لگایا کہ پولیس نے اسے شاجن سکریا کے خلاف ایک کیس کے سلسلے میں ہراساں کیا تھا۔
ساکریا پر درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل ایکٹ کی دفعات کے تحت ایسی خبریں نشر کرنے کے لیے مقدمہ درج کیا گیا تھا جس نے مبینہ طور پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ایم ایل اے پی وی سری نیجن کو بدنام کیا تھا۔
وشاکن نے عدالت کو بتایا کہ اس کا فون پولیس نے تب بھی قبضے میں لے لیا جب کہ وہ ساکریا سے متعلق کیس میں ملزم نہیں تھا اور اس کے خلاف کوئی مجرمانہ ثبوت نہیں تھا۔ وشاکن نے عدالت کو بتایا تھا کہ ساکریا کے ساتھ اس کا واحد تعلق معاوضے کے لیے وقتاً فوقتاً خبریں شیئر کرنا تھا۔
صحافی نے اس پولیس افسر کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جس نے اس کے گھر کی تلاشی لی تھی۔
پیر کو سماعت کے دوران جسٹس کُنہی کرشنن نے کہا کہ اگر کسی کیس کے سلسلے میں صحافیوں کا موبائل فون درکار ہے تو فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعات پر عمل کرنا ہوگا۔
جج نے پولیس کو بیان درج کرنے کی ہدایت کی کہ وشاکن کا موبائل فون کن حالات میں ضبط کیا گیا۔ کیس کی سماعت 21 جولائی کو ہوگی۔
ایک الگ پیش رفت میں سپریم کورٹ نے پیر کو ساکریا کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا۔