الہ آباد ہائی کورٹ نے ہندو مورتیوں کی موجودگی کی جانچ کے لیے تاج محل کے بند کمرے کھولنے کی عرضی خارج کر دی

نئی دہلی، مئی 12: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جمعرات کو ایک عرضی کو مسترد کر دیا جس میں آگرہ میں تاج محل کے 20 کمروں کو کھولنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی تاکہ وہاں ہندو مورتیوں یا صحیفوں کی ممکنہ موجودگی کی جانچ کی جا سکے۔

جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور سبھاش ودیارتھی کی دو ججوں کی بنچ نے عرضی گزار کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ’’کل آپ آئیں گے اور ہم سے معزز ججوں کے چیمبر میں جانے کو کہیں گے۔ براہ کرم PIL [عوامی مفاد کی قانونی چارہ جوئی] کے نظام کا مذاق نہ اڑائیں۔‘‘

یہ عرضی ایودھیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے میڈیا ڈیسک کے انچارج رجنیش سنگھ نے دائر کی تھی۔

مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1632 میں تاج محل کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا اور یہ منصوبہ 1653 میں مکمل ہوا تھا۔ تاہم کچھ ہندوتوا مورخین نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ یہ مقبرہ شاہ جہاں سے پہلے کا ہے اور اس کی تعمیر مسلم حکمرانی کے آغاز سے بہت پہلے کی گئی تھی۔

اپنی درخواست میں سنگھ نے عدالت سے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو حقائق تلاش کرنے والی کمیٹی تشکیل دینے اور تاج محل میں چھپے ہوئے مورتیاں اور نوشتہ جات جیسے ’’اہم تاریخی شواہد کی تلاش‘‘ کرنے کی ہدایت مانگی تھی۔

ججوں نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’آپ ہمارے ساتھ ڈرائنگ روم میں اس پر بحث کریں نہ کہ عدالت میں۔‘‘

ججوں نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار نے ’’مکمل طور پر غیر منصفانہ مسئلہ‘‘ پر فیصلہ دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

عدالت نے درخواست گزار کے اس استدلال پر بھی استثنیٰ لیا کہ اس نے حق اطلاعات قانون کے تحت درخواستیں داخل کی ہیں۔ حکام نے ان کے جواب میں کہا تھا کہ تاج محل کے کمرے سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے بند ہیں۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق عدالت نے کہا ’’آپ کمیٹی کے ذریعے حقائق کی کھوج کیا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔‘‘