’’فلسطین‘‘ فیفا ورلڈ کپ کا اصل فاتح

اسرائیل کے لیے ’’فیصلہ کن دھچکا‘‘: سفیرِ فلسطین ریاض منصور

قطر (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)

’’اسرائیل کا قطر میں خیر مقدم نہیں ہے‘‘ : عربی مداح
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے سفیر اور مستقل مبصر، ریاض منصور کا کہنا ہے کہ ’’ٹورنامنٹ میں فلسطین کے حامیوں کی بھر پور انداز سے نمائندگی نے اسرائیل کی خوش فہمیوں کو فیصلہ کن دھچکا دیا ہے‘‘
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے قطر میں جاری فیفا 2022 ورلڈ کپ میں ریاست کے لیے یکجہتی کے اظہار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ٹورنامنٹ میں فلسطین کے حامی جذبات نے اسرائیل کو واقعتاً حیران کر کے رکھ دیا ہے، کیونکہ فلسطین کی سربلندی اور شان و شوکت کا ایک مظہر فلسطین کے پرچم اور بڑے بڑے اشتہارات ہیں جن کے اوپر اسٹیڈیم کے اسٹینڈز میں ’’آزاد فلسطین‘‘ کا نشان لگا ہوا ہے۔
منصور نے کہا: ’’قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ نے اسرائیل کی خام خیالیوں کو فیصلہ کن دھچکا پہنچایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ورلڈ کپ کا فاتح پہلے ہی سے معلوم تھا کہ وہ فلسطین ہے، جس کا پرچم اہلِ عرب اور دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ اٹھائے ہوئے ہیں۔ نیز تقریبا سبھی مقابلوں میں لوگوں نے بلند بانگ نعرے بھی لگائے‘‘
اس عالمی کھیل میں جب کہ کئی اسرائیلی صحافی بھی موجود ہیں تو منصور نے کہا کہ ’’ورلڈ کپ میں موجود اسرائیلی صحافیوں سے پوچھیں کہ کیا حالات جلد معمول پر آئیں گے؟ تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ کوئی بھی چیز اسرائیلی قبضے کو بآسانی معمول پر نہیں لا سکتی۔ بالکل اسی طرح کوئی بھی چیز فلسطین کو بھی لوگوں کے دل و دماغ سے ختم نہیں کر سکتی۔‘‘
سفیر نے مزید اپنے بیان میں اسرائیل اور تین عرب ریاستوں، مراقش، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان 2020 اور 2021 میں کیے گئے ’سیریز آف نارملائزیشن‘ معاہدوں کی بھی مذمت کی ہے۔
جمعرات کو کینیڈا کے خلاف اپنی ٹیم کی فتح کے بعد مراقش کے ڈیفینڈیر جواد الیامق کو میدان میں فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے دیکھا گیا، جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ مراقش کے اسرائیل کے ساتھ کسی ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے احتجاج میں ہیں اور اسی لیے انہوں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھا ہے۔
تیونس کے آسٹریلیا کے ساتھ کھیل کے دوران بھی ایسا ہی ہوا، افریقی حامی فلسطینی پرچم تھامے ہوئے تھے۔ نیز اسی طرح فرانس کے ساتھ اپنے ملک کے کھیل کے دوران تیونس کا ایک پرستار بھی میدان میں دوڑتا ہوا نظر آیا جس نے عرب ریاست کی حمایت میں لکھا ہوا فلسطینی جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔
اسرائیل کا قطر میں استقبال نہیں ہے!
غیر ملکی نیوز ڈیسک کے سربراہ اسرائیلی پبلک براڈکاسٹر موو وردی پولینڈ کے ہاتھوں سعودی عرب کی شکست کے بعد ایک مداح سے بات کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں سعودی عرب کی ٹی شرٹ پہنے ہوئے مداح نے کہا ’’یہ اسرائیل نہیں ہے، براہ کرم آپ یہاں سے چلے جائیں، یہاں آپ کا استقبال نہیں ہے۔ قطر ہمارا ملک ہے آپ کو یہاں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ ہمارے نزدیک صرف فلسطین نام کا ملک ہے، اسرائیل نام کا کوئی ملک نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور خاتون سے سوال کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے پہلا سوال اسرائیلی صحافی سے یہی کیا کہ:
’’آپ کس چینل سے ہیں جناب؟‘‘ جب اس نے کہا کہ ’’اسرائیلی چینل سے‘‘ تو وہ خاتون بغیر کچھ بات کیے وہاں سے چلی گئی گویا زبانِ حال سے کہہ رہی ہو ’’واذا خاطبھم الجاہلون قالوا سلاما‘‘
ایک اور اسرائیلی صحافی راز شیچنک (جو ٹورنامنٹ کی کوریج کر رہا تھا) نے اپنی قومیت کی بنیاد پر قطر میں تجربات کا تفصیلی خاکہ ٹویٹر پر پیش کیا ہے۔ جس میں اس نے بتایا کہ کس طرح قطر میں اسرائیل کی کھل کر مخالفت کی گئی اور فلسطین کی حمایت میں کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ اس نے لکھا کہ ایک مقامی شخص نے یہاں تک کہا کہ ’’آپ آئے ہیں ٹھیک ہے لیکن آپ کوئی بہترین یا قابلِ مبارکباد شخصیت نہیں ہیں لہذا جتنا جلدی ممکن ہو سکے یہاں سے چلے جائیں‘‘
اگرچہ یہ ایک نمایاں پہلو ہے کہ قطر کے مقامی لوگوں نے اسرائیل کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن اس سے زیادہ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی اسرائیلی کے ساتھ تشدد یا غیر اخلاقی حرکت مقامی افراد کی جانب سے نہیں کی گئی۔ بس امید یہی ہے کہ ٹورنامنٹ کا خاتمہ بالخیر ہو۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں اماراتی سماجیات کے محقق میرا الحسین نے ان تمام حالات کے پس منظر میں بتایا کہ ’’یہ یکجہتی ایک باہمی اتحاد و اتفاق کو ظاہر کرتی ہے جس کی عکاسی ہمیشہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے نہیں کی جاتی ہے جو کہ کی جانی چاہیے۔
الغرض! فلسطین جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے وہاں کے باشندوں کو ماضی قریب تک بھی نہایت ہی نامساعد حالات سے گزرنا پڑا اور آج بھی کئی سارے مسائل انہیں در پیش ہیں۔ فیفا ورلڈ کپ جیسے عالمی مقابلے میں معمولی سی شرکت بھی فلسطینیوں اور وہاں کے صحافیوں کے لیے کسی خواب سے کم نہیں تھی، ایسے میں ان کا قطر میں داخل ہونا ان کا اہل عرب کی جانب سے والہانہ استقبال کیا جانا اور ان کی پُر زور حمایت کرنا فلسطینیوں کے لیے یقینا سکون و اطمینان کا باعث بھی ہے اور خوش آئند پہلو بھی ہے کہ ’’وقت بدلتے دیر نہیں لگتی‘‘
اسی لیے اس عالمی مقابلے کے پس منظر میں کہا جارہا ہے کہ 2022 فیفا ورلڈ کپ کا حقیقی فاتح اگر کوئی ہے تو وہ صرف ’’فلسطین‘‘ ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022