پی ایف آئی پر پابندی، سرکاری بیانیے پر میڈیا کی مہر؟

احتشام الحق آفاقی

وزارت داخلہ نے اگرچہ پی ایف آئی سے ملک کی سالمیت کو خطرہ قرار دیتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے تاہم اب تک اس موضوع پر تبادلہ خیال کا دور جاری ہے۔ پی ایف آئی پر پابندی عائد ہونے کے بعد بھارت کے تمام اخباروں نے پی ایف آئی کے تعلق سے ایسے ایسے "انکشافات” کیے ہیں جو اب تک این آئی اے جیسی تنظیمیں بھی کرنے سے قاصر رہیں۔
پی ایف آئی پر پابندی عائد ہونے کے بعد دی ہندو نے 30ستمبر کے شمارے میں اپنے اداریہ میں لکھا ’’پاپولر فرنٹ آف انڈیا( پی ایف آئی)کو انتہا پسند اسلامی تنظیم قرار دیے جانے پر تشویش کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔ حکومت نے اسے علیحدگی پسندی اور فرقہ پرستی کی سیاست کی تشہیر کرنے والی تنظیم قرار دیا ہے۔ تنظیم کے دعوے کے مطابق اس نے ملک بھر کے مسلمانوں کے مفاد میں سماجی اور عدالتی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے جو آئینی اقدار کے مطابق ہیں۔ کیرالا اور ساحلی کرناٹک میں پی ایف آئی اراکین کی تحریک اس فیصلے کے لیے خاص طور پر ذمہ دار ہے جس نے وہاں مذہبی اور سیاسی تشدد کو جنم دیا اور مذہبی عقیدے کو مجروح کرنے کے نام پر نگرانی کے دستے بنائے۔ 2006ء میں اپنے قیام کے بعد سے ایک تنظیم کے طور پر پی ایف آئی نے نمایاں طور پر ترقی کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی سیاسی منظر نامے میں ایک غالب طاقت کے طور پر ہندوتوا کے ابھرنے کے متوازی سماجی اور عدالتی میدان میں اس کی جارحانہ کارروائی رہی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا، جسے اس کا سیاسی اور انتخابی ونگ سمجھا جاتا ہے، کو زیادہ حمایت نہیں ملی، کیونکہ اقلیتی ووٹروں نے سیکولر پارٹیوں یا اعتدال پسند سماجی قوتوں کو ووٹ دینے کو ترجیح دی۔ پی ایف آئی بھارت کے کئی حصوں میں موجود فرقہ وارانہ سیاست اور اکثریت پسندی کا اسلامی ورژن ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے کارکنان جو تشدد پھیلانے کے نام پر گرفتار کیے گئے ہیں، ویجیلنس اسکواڈ کے طور پر سرگرم ہیں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کی قانونی طور پر تحقیقات اور سزا ہونی چاہیے۔ لیکن جس طرح سے وزارت داخلہ نے پی ایف آئی اور اس سے منسلک تمام تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کی ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کا سخت فیصلہ لینا درست ہے؟ صرف ایس ڈی پی آئی کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کا پی ایف آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
’’پی ایف آئی کی پر تشدد دہشت گردانہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے مشکوک مرکزی و ضمنی تنظیموں پر پابندی کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے۔ ملک کی سالمیت اور تحفظ سے کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنے والی کسی بھی تنظیم یا شخص کو بخشا نہیں جانا چاہیے‘‘ یہ اقتباس 29ستمبر کے شمارے میں امرا جالا کے اداریہ ’’کوئی سمجھوتا نہیں‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس دن سے حکومت نے پی ایف آئی پر کارروائی کا آغاز کیا اسی دن سے حکومت کے کاسہ لیس اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے پی ایف آئی پر پابندی لگانے کے سمت میں ماحول بنانے کا کام شروع کردیا ہے۔ امر اجالا نے اپنے اداریہ میں لکھا ’’پچھلے کچھ دنوں این آئی اے اور ای ڈی نے متنازع تنظیم پی ایف آئی ( پاپولر فرنٹ آف انڈیا ) کے خلاف جس طرح تابڑ توڑ کارروائی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت مشکوک دہشت گرد تنظیم پر پابندی عائد کرنا کسی بھی صورت میں غیر متوقع نہیں ہے۔ ‘‘ اخبار مزید لکھتا ہے ’’ یہ دہرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ملک کی سالمیت اور تحفظات اور قومی ہم آہنگی سے کسی بھی صورت میں سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنے والی تنظیم اور اشخاص کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔ پابندی عائد ہونے کے بعد جانچ ایجنسیوں کو پی ایف آئی سے جڑے مشتبہ لوگوں کے خلاف کارروائی کا حق مل گیا ہے۔ ایسے میں یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس حق کا کسی طرح سے غلط استعمال نہ ہو۔ ‘‘
حیرت کی بات نہیں کہ پی ایف آئی پر پابندی لگنے سے قبل آر ایس ایس سے وابستہ اخبار دینک جاگرن نے ایک ہفتہ کے اندر 3بار پی ایف آئی کے خلاف اداریہ لکھا ہے۔ ہر اداریہ کا مقصد قارئین کو پی ایف آئی کے خلاف بھڑکانا پی ایف آئی کو ایک متشدد تنظیم کے طور پر پیش کرنا تھا۔ جس روز پی ایف آئی پر پابندی عائد کی گئی اس دن یعنی 28ستمبر کے شمارے میں دینک جاگرن نے ایک بار پھر پی ایف آئی اور اس سے وابستہ لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دینک جاگرن نے لکھا کہ ’’پی ایف آئی ہندوؤں کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کے ساتھ سماجی تانے بانے اور قانون و انتظام کے لیے ایک سنگین مسائل کھڑے کررہی تھی۔ ۔۔۔ پی آیف آئی ہندو فوبیا کو بھارت ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہوا دینے کی کوشش میں ملوث تھی‘‘ اخبار نے حالیہ دنوں میں انگلینڈ میں ہونے والے ہندو مسلم تناؤ کے لیے بھی پی ایف آئی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کانگریس پارٹی میں قیادت سنبھالنے کی ہوڑ نے پارٹی کو دو راہے پرلا کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف جہاں راہل گاندھی پیدل یاترا کے ذریعہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جد وجہد میں مصروف ہیں وہیں پارٹی کے سینئر لیڈر پارٹی کمان سنبھالنے کے لیے جوڑ توڑ اور گٹھ بازی پر بھی آمادہ ہو گئے ہیں۔ ہندی روزنامہ امر اجالا نے اپنے 27 ستمبر کے شمارہ میں’’ قیادت کو چیلنج ‘‘ کے عنوان سے اس موضوع پر اداریہ میں لکھا کہ ’’کانگریس کی یہ دھڑے بندی راجستھان میں سامنے آئی ہے جہاں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ پنجاب میں انتخابات سے قبل کانگریس اعلیٰ کمان دو دھڑوں کے داؤ پیچ میں بے بس نظر آیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس کے ہاتھ سے یہ ریاست بھی چلی گئی۔ کل ملاکر صدارت کے انتخاب میں راجستھان کا بحران جس طرح سامنے آیا ہے اس سے نمٹنا کانگریس اعلیٰ کمان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔‘‘
اب جبکہ راجستھان بحران پر کانگریس اعلیٰ کمان نے کسی قدر قابو پالیا ہے اور صدر کے انتخاب کے لیے سینئر لیڈر ششی تھرور اور ملکارجن کھرگے نے پرچہ داخل کیا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت بالخصوص گاندھی خاندان کی مکمل حمایت ملکارجن کھرگے کو حاصل ہو گی اور وہی کانگریس کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ دینک بھاسکر نے اپنے 28 ستمبر کے شمارہ میں لکھا: کیا بھاجپا اپنے سی ایم کا انتخاب حقیقت میں اپنے اراکین اسمبلی کی مرضی سے کرتی ہے؟ بھارتی سیاست میں انتخاب کے بعد یا وزیر اعلیٰ بدلنے کے لیے ہر صوبہ میں اراکین اسمبلی کی میٹنگ محض ایک خانہ پری ہوتی ہے۔ قومی پارٹیاں ہوں یا علاقائی پارٹیاں سی ایم بنانے کا فیصلہ اکثر باس ہی کرتا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ پچھلے 70سالوں میں جب بھی غیر نہرو خاندان کا کوئی ممبر پارٹی صدر کا انتخاب جیتا، اس کے ووٹوں کا فرق دوسرے نزدیکی امیدوار سے کافی زیادہ تھا۔ اس لیے نہرو خاندان کے ذریعہ وجود میں آنے والے نئے صدر کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس کا کام مرکز یا ریاستی سطح پر ’’کس کو ہٹانا کس کو گرانا‘‘ یا ’’اپنا آدمی اس کا آدمی‘‘ نہ ہو بلکہ تنظیم کو بلاک کی سطح پر مضبوط کرنا اور کیڈر میں نئی توانائی کو پروان چڑھانا ہو، لیکن کیڈر میں یہ پیغام جاتا رہے کہ صدر کے فیصلے پر 10 جن پتھ کی رضامندی شامل ہے‘‘
ششی تھرور اور ملکارجن کھرگے کے مابین سخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ وہیں دوسری جانب دینک جاگرن نے اپنے یکم اکتوبر کے شمارہ میں’’چناؤ یا چین‘‘ کے عنوان سے لکھا ’’جب یہ ہر طرح سے صاف ہو چکا ہے کہ کانگریس صدر وہی ہو گا جسے گاندھی خاندان چاہے گا تو ایسی صورت میں انتخاب کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا ایسے کسی انتخاب کو جمہوری عمل پر مبنی، غیر جانب دار اور جمہوریت کو فروغ دینے والا کہا جاسکتا ہے جس میں سب کچھ بلکہ امیدوار کا انتخاب بھی پارٹی چلانے والے خاندان نے کیا ہو؟ بھلے ہی پارٹی صدر کے انتخاب کے دوران یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہو کہ کانگریس میں تنظیمی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی ہونے والی ہے لیکن حقیقت دوسری ہے، پارٹی پہلے بھی گاندھی خاندان کے فیصلوں کے مطابق چلتی تھی اور آگے بھی اسی کے مطابق چلے گی۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ اب یہ خاندان پردے کے پیچھے سے پارٹی چلائے گا ٹھیک اسی طرح جس طرح ابھی تک راہل گاندھی پارٹی کو چلا رہے تھے۔ اسے میں کیا کوئی امید کرسکتا ہے کہ صدر کے طور پر کھرگے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کر پائیں گے؟‘‘
دسمبر 2021 میں بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت کی اچانک موت کے نو ماہ بعد حکومت نے بدھ کو 61 سالہ سابق آرمی ایسٹرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل انیل چوہان کو اگلے سی ڈی ایس کے طور پر تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ تقریباً چار سال تک اس عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔ ان کی تقرری اگلے احکامات تک یا 65 سال کی عمر تک ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل چوہان مسلح افواج کی تبدیلی اور تنظیم نو کے زیر التوا سرگرمیوں کی قیادت کریں گے اور اس ہم آہنگی کو یقینی بنائیں گے جس کا اس عہدے کی تخلیق کے ساتھ تصور کیا گیا تھا۔ نئے نقطہ نظر کا ایک پرجوش پہلو مسلح افواج کی ایک متحد کمان میں مجوزہ تنظیم نو ہے، جس پر اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان اتفاق ہونا باقی ہے۔دی ہندو نے اس ضمن میں اپنےاداریہ میں کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس تقرری میں لگنے والے نو ماہ اور اس کی اہلیت کے معیار میں کی گئی تبدیلیاں اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں کہ سی ڈی ایس اب بھی ایک ابھرتا ہوا ادارہ ہے۔
سی ڈی ایس کے طور پر تقرری کے اہل امیدواروں کے دائرہ کار میں توسیع کے مقصد کی جانے والی تبدیلیوں نے اس عہدہ کے وقار کو گھٹا دیا ہے۔ سال 2019ء میں وزارت دفاع کی تنظیم نو کی گئی اور سی ڈی ایس کے ساتھ اس کے سکریٹری کے طور پر ملٹری امور کا ایک نیا محکمہ بنایا گیا۔ تاہم اس تنظیم نو نے وزارت دفاع میں ذمہ داریوں اور کرداروں کے متعلق وضاحت نہیں کی ہے۔ سی ڈی ایس وزیر دفاع کے پرنسپل ملٹری ایڈوائزر اور چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے مستقل چیئرمین بھی ہیں، جس کے لیے ان کو مختلف انتظامی اور آپریشنل ذمہ داریاں انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے سی ڈی ایس کی ذمہ داریوں کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے، خاص طور پر آپریشنل کرداروں اور انتظامی فرائض کے متعلق تینوں سروسز کے سربراہان کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں۔ اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل چوہان کا بنیادی طور پر کوآرڈینیشن کے عمل پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے، ان کے پاس دیگر اہم ذمہ داریاں بھی ہوں گی جیسے کہ مالیاتی حکمت عملی کو بروئے کار لانا اور دفاعی بجٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانا وغیرہ۔
***

 

***

 پی ایف آئی بھارت کے کئی حصوں میں موجود فرقہ وارانہ سیاست اور اکثریت پسندی کا اسلامی ورژن :دی ہندو
دہشت گرد سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے پابندی کا فیصلہ غیر متوقع نہیں : امر اجالا
پی ایف آئی بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوفوبیا کو فروغ دینے کے لیے کوشاں تھی: دینک جاگرن
کانگریس میں انتخاب سے قبل بغاوت‘ قیادت کو جگانے کی آواز ہے : دینک بھاسکر
کانگریس صدر وہی ہوگا، جسے گاندھی خاندان چاہے گا: دینک جاگرن


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022