پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ پر زی نیوز کی زہر افشانی

مسلمانوں کی آباد ی میں اضافہ سے متعلق بے بنیاد باتیں

افروز عالم ساحل

گزشتہ دنوں زی نیوز پر سدھیر چودھری نے ایک رپورٹ کے حوالے سے اپنے خاص پروگرام ’ڈی این اے‘ میں اپنی ایک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کی شروعات میں سدھیر چودھری نے کہا کہ ’آج ہم آپ کو ایک ایسی ریسرچ کے بارے میں بتائیں گے جو دوسری خبروں کے نیچے دب کر رہ گئی تھی جس کا آپ کو کبھی پتہ نہیں چلتا اگر ہم آپ کو نہیں بتاتے۔ یہ ریسرچ امریکہ کے مشہور تھینک ٹینک ’پیو ریسرچ سنٹر‘ نے شائع کی ہے۔ لیکن یہ نہ تو وائرل ہوئی ہے نہ اس کے بارے میں کسی نے کوئی بات چیت کی اور نہ ہی یہ رپورٹ ٹرینڈ کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ ریسرچ کہتی ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول آج بھی بنا ہوا ہے۔۔۔‘

لیکن زی نیوز ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی اس رپورٹ کو دکھانے میں کئی کھیل کھیل گیا۔ کئی ایسی باتیں اس رپورٹ کے حوالے سے کہہ ڈالی جو اس رپورٹ میں کہیں درج ہی نہیں ہیں، یعنی جس رپورٹ کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا دینا تھا اسی رپورٹ کو زی نیوز نے نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنانے میں ذرا سا بھی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

واضح رہے کہ 29 جون 2021 کو ’پیو ریسرچ سنٹر‘ نے ’’ہندوستان میں مذہب: رواداری اور علیحدگی پسندی‘‘ کے (Religion in India: Tolerance and Segregation) موضوع پر اپنی ایک رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ ہندوستان کے شہروں میں سترہ نومبر 2019 سے لے کر تیئیس مارچ 2020 کے درمیان 29,999 ہندوستانی بالغ افراد کے ساتھ سروے پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ میں ہندوستانی معاشرے میں مذہبی شناخت، قوم پرستی اور رواداری کا قریب سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سروے میں 22,975 ہندو، 3,336 مسلم، 1,782 سکھ، 1,011 عیسائی، 719 بودھسٹ، 109 جین اور 67 ایسے لوگ تھے جو دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے یا غیر مذہبی ہیں۔ اس سروے کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ دیگر سولہ زبانوں میں سوالنامہ تیار کیا گیا تھا۔

زی نیوز کی ویب سائٹ پر ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کے ذریعے جاری اس رپورٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ زی نیوز کی اس رپورٹ کی سرخی میں ہی کہا گیا ہے کہ ’اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے‘۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت برقرار رہے گی لیکن ہندوستان میں مسلم آبادی دنیا کے کسی بھی ملک کی سب سے بڑی آبادی ہو گی، جو انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔ وہیں اس رپورٹ کے ہائی لائٹس میں بھی ’پیو اسٹڈی‘ کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ’تحقیق میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اسلام تمام مذہبی گروہوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘

آگے مزید کہا گیا ہے کہ اگلی چار دہائیوں میں عیسائی سب سے بڑا مذہبی گروہ بنے رہیں گے، لیکن اسلام کسی بھی بڑے مذہب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو سال 2050 تک مسلمانوں کی تعداد پوری دنیا کے عیسائیوں کی تعداد کے برابر ہو گی۔ زی نیوز کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوروپ میں مسلمان مجموعی آبادی کا دس فیصد ہوں گے، جبکہ امریکہ میں یہودیوں کی بہ نسبت مسلمان زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ مجموعی حیثیت سے سال 2050 تک مسلمان 2.8 ارب یا دنیا کی آبادی کا 30 فیصد اور عیسائی 2.9 ارب یا دنیا کی آبادی کا 31 فیصد حصہ ہوں گے جو کہ ممکنہ طور پر یہ تاریخ میں پہلی بار ہو گا۔ اس رپورٹ کے آخر میں زی نیوز یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’تمام حقائق، اعداد وشمار اور اندازے پیو اسٹڈی کی تحقیق پر مبنی ہیں۔‘‘

حیرت کی بات یہ ہے کہ زی نیوز نے مسلمانوں کی آبادی کو لے کر جتنی بھی باتیں لکھی ہیں وہ انتیس جون 2021 کو جاری کردہ ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی رپورٹ میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں۔

دراصل اس رپورٹ میں کچھ باتیں ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی ایک دوسری رپورٹ سے لی گئی ہیں جنہیں اس سنٹر نے اپریل 2015 اور اگست 2017 میں جاری کیے تھے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2050 تک ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی ملا کر دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہو گی۔ یورپ میں بھی 2050 تک تمام یوروپین باشندوں میں سے دس فیصد مسلمان ہوں گے۔ لیکن زی نیوز نے اپنے ایجنڈے کے تحت اس سنٹر کی رپورٹ کو نہ صرف توڑ مروڑ تک پیش کیا ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے اپنے طور پر اعداد وشمار پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ دراصل یہ زی نیوز کی اپنے مسلم مخالف پروپیگنڈے کو صحیح ٹھیرانے کی ایک کوشش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زی نیوز نے اپنی اس بات کو صحیح ٹھیرانے کے لیے دو جگہوں پر ہائپر لنک کیا ہے، لیکن وہ دونوں لنکس ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی رپورٹ کی نہیں ہیں بلکہ زی نیوز کی ہی پہلی والی اسٹوری کی ہیں اور دونوں لنکس کا ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

یہ کارنامہ صرف زی نیوز کی ویب سائٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کہانی کے کچھ حصے کو سدھیر چودھری نے اپنے خاص پروگرام ’ڈی این اے‘ اور امن چوپڑا نے اپنے پروگرام ’تال ٹھوک کے‘ میں دُہرایا ہے۔ یہ دونوں اینکرس نے ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی اس رپورٹ کو جس کا مقصد دراصل میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا دینا تھا لیکن انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے نفرت پھیلانے کا ہی کام انجام دیا ہے۔

امن چوپڑا نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ آج ’ڈر گینگ‘ ایکسپوز ہو چکی ہے۔ انہوں نے اس شو میں یہ بتایا کہ ’سیکولر گینگ‘ یا ’ڈیزائنر گینگ‘ کے ذریعہ ہندوستان کو کئی بار بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کئی مثالیں دے کر واضح کیا کہ انہیں دکھا کر کہا جاتا ہے کہ مسلمان ڈرا ہوا ہے۔ خاص طور پر امن چوپڑا نے سی اے اے، ٹرپل طلاق اور رام مندر کا حوالہ دے کر بتایا کہ ’ڈر والی دکان‘ نے ان معاملوں کے ذریعے ڈرانے کا کام کیا۔ پھر اس شو میں ڈیبیٹ کے ذریعہ اس سوال پر بحث کی گئی کہ اگر یہ رپورٹ ہندوستان کے خلاف ہوتی تو کیا ہوتا؟ اس پورے بحث میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو نشانے پر رکھا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ ہندوستانی مسلمان پھر سے ایک نیا پاکستان بنانے کی سیاست کر رہا ہے اور جو مسلمان مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرتا ہے وہ روادار ہو ہی نہیں سکتا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس شو میں جب کانگریس کے رکنِ راجیہ سبھا حسین دلوائی نے این آر سی کی مثال دی تو امن چوپڑا حسین دلوائی پر ڈر اور فیک نیوز پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے ان سے بھڑ گئے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد شو کے درمیان سے ہی حسین دلوائی کو واپس ہونا پڑا۔ جیسے ہی حسین دلوائی نے شو چھوڑا امن چوپڑا نے چیخ کر کہا کہ ’میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ این آر سی کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے‘

سدھیر چودھری نے بھی یہی کام انجام دیا اور بار بار کہا کہ ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی یہ رپورٹ میڈیا آپ کو نہیں دکھائے گی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس شو کے پہلے ہی زیادہ تر انگریزی اخبارات اس سے متعلق اسٹوریز شائع کر چکے تھے۔ اس طرح زی نیوز کے ان دونوں اینکروں نے اس رپورٹ کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’مسلمانوں کے لیے ہندوستان جنت ہے‘ جبکہ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتائج کو ہندوستان کی 95 فیصد مسلم آبادی پر نافذ کیا جا سکتا ہے جبکہ یہ رپورٹ کشمیر جیسے مسلم اکثریتی علاقوں کے جواب دہندگان کو شامل کرنے سے قاصر رہی۔ ساتھ ہی اس سروے میں سکم، منی پور، دادر نگر حویلی، دمن و دیو، لداخ، انڈمان ونکوبار اور لکشدیپ کے لوگ شامل نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اسی پیو اسٹڈی کے سروے میں مزید کئی باتیں کہی گئی ہیں جن پر زی نیوز کے ان اینکروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

تبدیلی مذہب پر کیا کہتی ہے پیو اسٹڈی کی یہ رپورٹ؟

ہندوستان میں تبدیلئ مذہب کو لے کر ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ’ تبدیلئ مذہب‘ ایک متنازعہ سیاسی مسئلہ رہا ہے۔ 2021 کی شروعات میں نو ریاستوں نے تبدیلئ مذہب کے خلاف قانون بنائے ہیں اور گزشتہ کچھ سرویز سے پتہ چلا ہے کہ نصف ہندوستانی شہری مذہبی تبادلوں پر قانونی پابندی کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ ہمارے اس سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تبدیلئ مذہب ہندوستان کے مذہبی گروہوں کی مجموعی سائز پر کافی کم اثر ڈالتا ہے۔ ہندوستان کے مذہبی منظرنامے میں وقت کے ساتھ تبدیلی بڑی حد تک مذہبی گروہوں کے درمیان زرخیزی کی شرح میں فرق کا نتیجہ ہیں نہ کہ تبدیلئ مذہب؟

اس سروے میں جواب دہندگان سے تبدیلئ مذہب کو سمجھنے کے لیے دو الگ الگ سوالات پوچھے گئے: ’آپ کا حالیہ مذہب کیا ہے؟‘ اور ’آپ کس مذہب میں پلے بڑھے ہیں؟‘ مجموعی طور پر 98 فیصد جواب دہندگان نے ان دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب دیا ہے۔

اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ 0.8 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ ہندو نہیں تھے لیکن اب ان کی شناخت ہندو کے طور پر ہے۔ ہندو مذہب کے ان نئے پیروکاروں میں سے زیادہ تر کی شادیاں ہندوؤں میں ہی ہوئی ہیں۔ وہیں 0.7 فیصد لوگ ہندو مذہب چھوڑ کر دیگر مذاہب میں شامل ہوئے ہیں۔ صرف 0.3 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہوں نے بچپن میں ہی اسلام چھوڑ دیا ہے، وہیں تقریباً اتنے ہی فیصد کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش دوسرے مذہب میں ہوئی ہے یا ان کا بچپن میں کوئی مذہب نہیں تھا اور اب وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ تاہم عیسائیوں کے لیے مذہب کی تبدیلی سے کچھ فائدہ ہوا ہے: سروے کے جواب دہندگان میں 0.4 فیصد سابق ہندو یا دیگر مذہب سے ہیں جو اب عیسائی ہو گئے ہیں۔ وہیں 0.1 فیصد لوگ عیسائی مذہب چھوڑ کر دیگر مذاہب میں شامل ہوئے ہیں۔ بوڈھسٹ مذہب میں شامل ہونے اور چھوڑنے والوں کی تعداد صرف 0.1 فیصد ہے۔ 0.1 فیصد لوگ جین مذہب چھوڑ کر دیگر مذہب میں شامل ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے کی اس فائنڈنگ پر انڈین میڈیا نے کہیں کوئی بحث نہیں کی ہے۔

ہندوستان کے حالات کے بارے میں کیا کہتی ہے یہ رپورٹ؟

’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کے جو کہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے، تاریخی اعتبار سے ہندو اکثریت کے ساتھ پیچیدہ تعلقات رہے ہیں۔ عام طور پر یہ دونوں مذہبی اکائیاں صدیوں سے ایک ساتھ رہتی آئی ہیں لیکن ان کی مشترکہ تاریخ شہری بدامنی اور تشدد سے متاثر ہے۔ جب یہ سروے کیا جا رہا تھا، نئی دہلی کے کچھ حصوں اور دیگر جگہوں پر حکومت کے نئے شہریت قانون کو لے کر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ اس سروے میں پایا گیا ہے کہ ہندو اپنی مذہبی اور ہندوستانی قومی شناخت کو آپس میں جڑا ہوا دیکھتے ہیں۔ تقریباً دو تہائی یعنی 64 فیصد ہندو کہتے ہیں کہ ’سچا‘ ہندوستانی بننے کے لیے ہندو ہونا بہت ضروری ہے۔ وہیں 59 فیصد ہندو، ہندوستانی شناخت کو ہندی زبان کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں اور یہی لوگ الیکشن میں اپنے ووٹ بی جے پی کو دیتے ہیں۔ رپورٹ میں حالیہ برسوں میں وزیر اعظم مودی کی سربراہی میں بی جے پی کو ہندو قوم پرست نظریہ کو فروغ دینے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود آج ملک کے پچانوے فیصد مسلمان متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ انہیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے اور وہ ہندوستانی ثقافت کے لیے بڑے جوش وجذبے کا اظہار کرتے ہیں۔ پچاسی فیصد اس بیان سے متفق ہیں کہ ’ہندوستانی لوگ کامل نہیں ہیں، لیکن ہندوستانی ثقافت دوسروں سے بالاتر ہے۔‘ اس طرح اس رپورٹ میں بہت کچھ ہے، جسے پڑھنا اور سمجھنا ہر ہندوستانی شہری کے لیے ضروری ہے، لیکن ہندوستانی میڈیا نے ان معاملات پر کوئی بات نہیں کی ہے۔

***

اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ 0.8 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ ہندو نہیں تھے لیکن اب ان کی شناخت ہندو کے طور پر ہے۔ ہندو مذہب کے ان نئے پیروکاروں میں سے زیادہ تر کی شادیاں ہندوؤں میں ہی ہوئی ہیں۔ صرف 0.3 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہوں نے بچپن میں ہی اسلام چھوڑ دیا ہے، وہیں تقریباً اتنے ہی فیصد کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش دوسرے مذہب میں ہوئی ہے یا ان کا بچپن میں کوئی مذہب نہیں تھا اور اب وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ تاہم عیسائیوں کے لیے مذہب کی تبدیلی سے کچھ فائدہ ہوا ہے: سروے کے جواب دہندگان میں 0.4 فیصد سابق ہندو ہیں جو اب عیسائی ہو گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے کی اس فائنڈنگ پر انڈین میڈیا نے کہیں کوئی بحث نہیں کی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021