پیگاسس تنازعہ: اگر قومی سلامتی کے مقاصد کی وجہ سے اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا ہو تو اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا
نئی دہلی، اگست 17: بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق مرکز نے آج سپریم کورٹ کو بتایا کہ اگر مودی حکومت نے ’’قومی سلامتی کے مقاصد‘‘ کی وجہ سے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا ہو،تو وہ اس کے بارے میں نہیں بتا سکتی۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل بنچ ان درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا جس میں ان الزامات کی تحقیقات کی درخواست کی گئی تھی کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال ملک میں صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں کی نگرانی کے لیے کیا گیا تھا۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا ’’یہ سافٹ وئیر ہر ملک خریدتا ہے اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ اگر یہ سافٹ وئیر استعمال نہ کیا گیا ہو تو اسے ظاہر کیا جائے۔ اگر ہم یہ بتاتے ہیں تو دہشت گرد، حفاظتی اقدامات کر سکتے ہیں۔‘‘
پیر کی سماعت کے دوران مرکز نے ایک حلف نامے میں ’’غیر ثابت شدہ میڈیا رپورٹس‘‘ کی بنیاد پر پیگاسس اسپائی ویئر کو استعمال کرتے ہوئے نگرانی کے الزامات کو محض ’’قیاس آرائی‘‘ کے طور پر مسترد کردیا تھا۔ تاہم حکومت نے کہا تھا کہ الزامات کی جانچ ’’ماہرین کی ایک کمیٹی‘‘ کرے گی۔
مختلف درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے نشاندہی کی کہ حلف نامے میں واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ کیا حکومت نے اسپائی ویئر استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا تھا کہ اگر وہ اس معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرنا چاہتی ہے تو مرکز کو وقت دینے کے لیے تیار ہے۔ مہتا نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا اور اصرار کیا کہ ماہرین کی کمیٹی ’’غلط مفادات‘‘ پر مبنی پھیلائی گئی ’’غلط داستان‘‘ کو ختم کرے گی۔
منگل کو بھی مہتا نے اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملات عوامی بحث کا موضوع نہیں بن سکتے۔
مہتا نے کہا ’’ہم ماہرین کی کمیٹی کو بتا سکتے ہیں اور یہ ایکسپرٹ باڈی ایک غیر جانبدار باڈی ہوگی۔ کیا آپ بطور آئینی عدالت یہ توقع کریں گے کہ اس طرح کے معاملات عدالت کے سامنے پیش کیے جائیں اور اسے عوامی بحث کے لیے پیش کیا جائے؟‘‘
اس پر جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ عدالت ایسی کوئی چیز ظاہر نہیں کرے گی جو قومی سلامتی سے سمجھوتا کرے۔
لائیو لاء کے مطابق سوریہ کانت نے کہا ’’یہاں مسئلہ مختلف ہے۔ شہریوں کے معاملے میں بھی نگرانی کرنے کی اجازت ہے، لیکن صرف مجاز اتھارٹی کی اجازت پر۔ اگر وہ مجاز اتھارٹی ہمارے سامنے حلف نامہ داخل کرے تو کیا مسئلہ ہے؟‘‘
مہتا نے ججوں سے درخواست کی کہ وہ ماہرین کی کمیٹی کے قیام کی اجازت دیں، جس کی رپورٹ عدالت کے سامنے رکھی جا سکتی ہے۔
جسٹس رمنا نے جواب دیا ’’ہم دیکھیں گے۔۔۔ابھی یہ داخلے کا مرحلہ ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ ایک جامع جواب آئے گا لیکن یہ ایک محدود جواب تھا۔ ہم دیکھیں گے، ہم بھی سوچیں گے اور غور کریں گے کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔‘‘
عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر جواب مانگا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 10 دن بعد ہوگی۔