بیدر اسکول ڈرامہ: پولیس کے ذریعے طلبا سے پوچھ گچھ بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے: کرناٹک ہائی کورٹ

نئی دہلی، اگست 18: لائیو لاء کے مطابق ہائی کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ کرناٹک کے بیدر ضلع کے ایک اسکول میں پولیس افسران کے ذریعے یونیفارم میں طالب علموں سے پوچھ گچھ بچوں کے حقوق اور جوینائل جسٹس ایکٹ کی دفعات کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ تھی۔

معلوم ہو کہ شہریت ترمیمی قانون پر تنقیدی ڈرامے سے متعلق بغاوت کے مقدمے میں اسکول کے طلبا سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ متنازعہ قانون بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی اقلیتی برادری کے افراد کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 سے پہلے تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔ لیکن اس قانون میں واضح طور پر مسلمانوں کو خارج کر دیا گیا ہے۔

پولیس نے الزام لگایا تھا کہ جنوری 2020 میں اسکول میں پیش کیے گئے ڈرامے کا مواد اشتعال انگیز تھا اور اس کے شرکا نے، جن میں کلاس 4، 5 اور 6 کے طلبا تھے، وزیر اعظم نریندر مودی کی توہین کی تھی۔ پولیس نے اسکول میں ایک ٹیچر اور ڈرامے میں پرفارم کرنے والے ایک طالب علم کی ماں کو گرفتار کیا تھا۔ انھیں فروری 2020 میں ضمانت ملی۔

لائیو لاء کے مطابق پیر کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک درخواست کی سماعت کی جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے طلبا سے ان کے اساتذہ یا والدین کی عدم موجودگی میں مبینہ طور پر پوچھ گچھ کرتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی۔ درخواست گزاروں میں شامل ایک وکیل اور انسانی حقوق کے گروپ نے مزید کہا کہ مخالف ماحول میں پوچھ گچھ نے بچوں کو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے۔

عدالت نے ایک تصویر کا نوٹ لیا جس میں تین طالب علموں سے پانچ پولیس افسران تفتیش کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان میں سے چار پولیس والے یونیفارم میں تھے اور کم از کم دو مسلح تھے۔ چیف جسٹس ابھے اوکا اور جسٹس این ایس سنجے گوڑا نے کہا کہ اپنے حلف ناموں میں بیدر پولیس نے تصویر کی صداقت سے انکار نہیں کیا ہے۔

ججوں نے مشاہدہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو، بچوں سے بات کرنے والے پولیس افسران کو سادہ کپڑوں میں ملبوس ہونا چاہیے اور جب کسی لڑکی سے پوچھ گچھ ہو رہی ہو تو ایک خاتون افسر کو موجود ہونا چاہیے۔

انھوں نے کرناٹک حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں حلف نامہ داخل کرے کہ ان پولیس افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے جنھوں نے بچوں سے پوچھ گچھ کی۔ عدالت نے پوچھا ’’بچوں کو اس سب کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ اسے درست کرنا ہوگا، یہ اس طرح نہیں چل سکتا۔‘‘

ججوں نے حکومت سے کہا کہ وہ پولیس کو مناسب ہدایات دینے پر غور کرے تاکہ بچوں کے حقوق کی دوبارہ خلاف ورزی نہ ہو۔ وہ 3 ستمبر کو اس کیس کی دوبارہ سماعت کریں گے۔