پایۂ تخت۔ ایک تاریخی سیریل
خلافت عثمانیہ کے سلطان خلیفہ عبدالحمید خان (ثانی)کے سنہری دور کی روداد
محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی۔۲
موبائل:9953630788
پایہ تخت کی تاریخی سیریل اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اردو کے ساتھ کئی زبانوں میں اس کی ڈبنگ ہوئی۔ اس میں آج کی دنیا میں ہونے والے واقعات اور اسلام کے خلاف سازشوں کا سراغ ملتا ہے۔اگر تمام سیزنس کا بغور مشاہدہ کیا جاے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلطان عبدالحمید کو عیسائی اور یہودی دنیا سے کتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ایمانی طاقت اور اللہ رب العزت پر ان کے غیر متزلزل یقین نے ہی ہمیشہ ان کو عزم اور استقامت کے ساتھ کھڑا رکھا۔وہ عصر کے نباض حکم راں ہی نہیں بلکہ مظلوموں کو عدل و انصاف سے ہم کنار کرنا ان کا شعار تھا۔
خلافت عثمانیہ کے سلطان خلیفہ عبدالحمید خان (ثانی)کا تاریخی و سنہری دور اس لحاظ سے امت مسلمہ کے لیے بےحد اہم ہے کہ انہوں نے اپنی فہم و فراست اور حکمت عملی سے بڑی قلندرانہ زندگی گزاری۔ اللہ رب العزت پر ان کا ایمان غیر متزلزل تھا۔ تدبر اور تفکر کے ساتھ وہ اپنے عصر کا عمیق مطالعہ رکھتے تھے اور اپنے دشمنوں سے بھی مثبت کام لینا جانتے تھے۔ موجودہ نام نہاد جمہوری دور کے لیے ان کی حکم رانی بے مثال ہے۔وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی انگڑائیوں کو نہ صرف بخوبی محسوس کررہے تھے بلکہ مثبت طریقے سے قرآن حکیم اور سنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ جدید مثبت تبدیلیوں کو قبول تو کرتے تھے لیکن دین اسلام کی اشاعت کے لیے راستے بھی ہموار کرتے تھے۔وہ ہمیشہ حق کا غلبہ چاہتے تھے اور باطل کو شکست فاش ان کی اوّلین کوشش ہوتی تھی۔ انہوں نے قرآن و سنّت کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے کبھی مصالحت نہیں کی۔ علامہ محمد اقبال نے شاید انہی کے بارے میں کہاہے۔
ہزارخوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
علامہ اقبال کہتے ہیں
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
لیکن علامہ نے شاید سلطان عبدالحمید (ثانی) کے لیے یہ بھی کہا
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھاکر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
خلیفہ عبدالحمید خان (پیدائش:21 ستمبر 1842، استنبول – وفات :10فروری 1918) اپنی 33 سالہ خلافت میں عالم اسلام کے لیے دشمنوں کے مقابلے میں آخری مضبوط اور مستحکم اینٹ کی طرح تھے۔ اس اینٹ کے گرتے ہی 1923 میں خلافت کا خاتمہ کردیا گیا۔ لیکن اپنی خلافت کے دوران میں سلطان عبدالحمید نے دشمنوں کے دانت کھٹے کردیے۔ نہ جانے کتنے منظم دشمن نیست و نابود ہوگئے۔ ان کے جاسوسی کا نظام بڑا ہی مستحکم اور اعلیٰ تھا۔ وہ ایک خدا ترس اور عادل حکم راں تھے۔انہوں نے جنگ عظیم اول کی آہٹ برسوں قبل محسوس کر لی تھی۔وہ خادم حرمین بھی تھے اور حجاز مقدس سے پے پناہ محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے لیے حجاز تک ریلوے لائن کو وسعت دی، اگرچہ اس کام کی راہ میں بےشمار رکاوٹیں آئیں۔ عشق رسول ان کی رگوں میں پیوست تھا۔ وہ لاغالب الااللہ پر یقین محکم رکھتے تھے۔ خلافت و ریاست کو بچانے کی آخری کوشش بھی حق کے ساتھ تھی۔ انہوں نے دنیا کے بدلتے منظرنامے کو محسوس کرتے ہوے عالم اسلام میں ایسے عالم درویش بھیجے جو دین حق کی دعوت کا کام انجام دے سکیں۔ان کے درویش ہمہ جہت علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ سلطان عبدالحمید کے متعدد کارناموں میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہوں نے صیہونی اور سازشی عناصر سے فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہی کے دَور میں تھیوڈور ہرزل اور یہودی سرمایہ دار روتھ شیلڈ کو پایہ تخت سے نکال باہر کیا گیا۔ اگست 1897 میں جب تھیوڈور ہرزل نے صیہونی تنظیم کی بنیاد رکھی اور گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھا تو سلطان عبدالحمید صیہونی عزائم سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فلسطین میں صیہونیوں کے ذریعے زمین خریدنے پر پابندی لگائی۔ حیرت ہے کہ اس سلسلے میں خلافت عثمانیہ بالخصوص سلطان عبدالحمید کی خدمات کا درست تجزیہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے غازیانہ کردار کو اجاگر کیا گیا۔واضح ہو کہ عرب کو عثمانی خلافت کا مخالف بنانے میں انگلینڈ نے اہم کردار ادا کیا۔
مطالعہ کتب کا ذوق رکھنے والے سلطان عبدالحمید ’جاسوسی ادب‘ شوق سے پڑھتے تھے۔ سرکانن ڈائل کے ناولوں کا مطالعہ ان کے معمول میں شامل تھا۔ کبھی ان کے دوست اور معاون خاص تحسین پاشا، شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کے جاسوسی کارنامے کو پڑھ کر سنایا بھی کرتے تھے۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ سلطان عبدالحمید نے سرکانن ڈائل کو پایۂ تخت بلاکر ملاقات کا شرف بخشا اور اعزازی تمغے سے بھی نوازا تھا۔
سلطان عبدالحمید 1876 سے 1909 تک عالم اسلام کے خلیفہ رہے۔ ان کو 13 اگست 1876 کو امارت و خلافت عطا کی گئی۔ ان کی ریاست میں ہر قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی تھی اور ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ان کو خارجی دشمنوں کے ساتھ داخلی دشمنوں نے بڑا نقصان پہنچایا حتیٰ کہ خلافت کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس کے برعکس اُمت مسلمہ کی جانب سے 1923 میں خلافت کے خاتمے کا محض ماتم کیا گیا پھر عالم اسلام رفتہ رفتہ مسلم دنیا میں تبدیل ہوگیا۔ حجاز مقدس بھی سعودی حکومت کے تحت آگیا۔ عرب کا نیا جغرافیہ ’سعودی عرب‘ کے نام سے تعمیر کیا گیا۔ ان کے دور میں میسن تنظیم کے Grand Master Parvas نے دہشت گردی کی انتہا کردی تھی۔ اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ عثمانیہ خلافت کے خاتمہ میں منافقین پاشاوں نے اہم کردار ادا کیا۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے بہنوئی اور بھانجے (جلال الدین محمود پاشا اور ان کے بیٹے صباح الدین) بھی میسن (Mason) تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان تمام مصائب اور مشکلات کے باوجود سلطان عبدالحمید جو ایک ناقابل تسخیر حکم راں تھے، اپنی حیات تک اسلام کی سر بلندی کے لیے دشمنوں کے مکر و فریب اور دہشت گردی کے سامنے سینہ سپر رہے۔ انہوں نے مستقبل کے خدشات کو محسوس کرتے ہوئے اپنے دست راست تحسین پاشا کو پایہ تخت کی تاریخ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ وہ تاحیات اس کام میں مصروف رہے اور ایک ترک صحافی کو بےشمار ان کہی واقعات سے روشناس کرایا۔ غالباً تحسین پاشا کا انتقال 1930 میں ہوا تھا۔
ارطغرل غازی Serial کے پانچ سیزن کا جنہوں نے مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے قیام کا پس منظر کیا تھا اور کتنی دشواریوں اور آزمائشوں سے یہ معرکہ سر کیا ارطغرل کے بیٹے عثمان غازی نے۔ یہ سیریل اردو کے ساتھ دنیا کی مختلف زبانوں میں ڈبنگ کیے گئے۔ سلطان عبدالحمید (ثانی) کی خلافت پر مشتمل تاریخی سیریل کے پانچ سیزن میں کل پانچ سو اڑتیس ایپیسوڈز ہیں۔ پایہ تخت کی تاریخی سیریئل اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اردو کے ساتھ کئی زبانوں میں اس کی بھی ڈبِنگ ہوئی۔ اس میں آج کی دنیا میں ہونے والے واقعات اور اسلام کے خلاف سازشوں کا سراغ ملتا ہے۔اگر تمام سیزنس کا بغور مشاہدہ کیا جاے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلطان عبدالحمید کو عیسائی اور یہودی دنیا سے کتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ایمانی طاقت اور اللہ رب العزت پر ان کے غیر متزلزل یقین نے ہی ہمیشہ ان کو عزم اور استقامت کے ساتھ کھڑا رکھا۔وہ عصر کے نباض حکم راں ہی نہیں بلکہ مظلوموں کو عدل و انصاف سے ہم کنار کرنا ان کا شعار تھا۔ وہ ہر موضوع کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ ساتھ ہی سیاسی امور میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔دشمن کی ہر چال کو قبل از وقت سمجھ کر اقدام کرنے میں ان کو درک حاصل تھا۔ان پر بے شمار قاتلانہ حملے ہوئے لیکن اللہ نے ہمیشہ محفوظ رکھا۔وہ علماےدین کی عزت کرتے تھے اور نئی نسل کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم سے بھی ان کو خصوصی دلچسپی تھی۔ عوام کی بروقت داد رسی کرنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔ بہتر ہے کہ اس تاریخی ڈرامے کے تمام ایپیسوڈز کا مشاہدہ کیا جائے۔ تاہم اگر وقت کی قلت ہو تو آخری تین ایپی سوڈز(536 تا 538) کا دیکھنا بھی مفید ہوگا۔ اس تاریخی سیریل کا آخری ایپی سوڈ 538 ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024