پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں کامیاب ہونے سے قبل ناکام؟
عیسائی ووٹرس کی دلجوئی کے لیے وزیر اعظم کا دورہ کیرالا بے اثر
سرور احمد
منی پور میں مخالف عیسائی فسادات سے انتخابی چالبازیوں کو شدید نقصان ہوا ہے
ریاست منی پور اور تین شمالی مشرقی ریاستوں میں جہاں کچھ ماہ قبل اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، جس میں اکثریتی عیسائی آبادی نے بی جے پی کی پالیسیوں کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنا ووٹ دے کر منتخب کیا تھا‘ آج اپنی اس غلطی پر پچھتا رہے ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ دینے کے باوجود، فسادات برپا ہوئے اور وہ فرقہ پرستوں کے ظلم و ستم سے اپنے آپ کو، اپنے اہل و عیال اور پڑوسیوں کو نہیں بچا پائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست کیرالا میں آمد کو بھارت کے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاری کا بگل اور بی جے پی کی سیاسی چال کا ایک حصہ سمجھا گیا جہاں وہ عیسائی برادری کے ووٹوں کو بی جے پی کے حق میں منتقل کرنے کی حکمت عملی کے پروگرام کا آغاز کرنے والے تھے مگر افسوس کہ کیرالا کے عیسائیوں کو راغب کرنے کی بی جے پی کی یہ چال ناکام ہوگئی۔
وزیر اعظم کے ریاست کیرالا کے دورے کے چند دن بعد ہی ریاست منی پور میں مخالف عیسائی فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے۔ یہ خونریز دنگے و فسادات، مقامی درج فہرست قبائل، میتی Meitei اور کوکی Kuki سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان جھڑپوں اور آگ زنی کی وارداتوں کے بعد پوری ریاست میں پھیل گئے۔ دونوں قبائل کے افراد الگ الگ عقائد کے ماننے والے ہیں۔ریاست کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کا تعلق قبیلہ میتی Meitei سے ہے جو ہندو مذہب کو مانتے ہیں۔ ریاست کی آبادی کا 40 فیصد حصہ دیگر درج فہرست قبائل سے ہے جنو عیسائی ہیں، ان میں سے 25 فیصد آبادی کوکیز Kukis کی ہے اور 15 فیصد آبادی ناگا Naga قبیلوں کی ہے۔ اگرچہ کہ کوکیز اور ناگا دونوں عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان قبائل کے درمیان، لڑائی جھگڑے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان قبیلوں کی لڑائیوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ان طویل لڑائیوں اور اندرونی اختلافات کے باوجود، ان قبائل نے آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور کے پرچم تلے ان قبائل کے مفادات اور حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے ایک مشترکہ ریالی نکالنے کے لیے آپس میں ہاتھ ملا لیا تھا۔ وہ وادی میں رہنے والے اور سیاسی منظر نامے پر غلبہ رکھنے والے ایک قبیلے مییتیس Meities کو درج فہرست قبیلے کا درجہ دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کا منظم کیا گیا یہ احتجاج پر اثر بھی تھا اور کامیاب بھی۔ ریاست منی پور میں قبائلی آبادیاں، دور دراز پہاڑی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ میتییس قبیلے اور ان کے حامیوں کو ان کے خلاف منظم کیے جانے والے احتجاج کی خبر ملی تو وہ بھی اس احتجاج کے خلاف لڑنے کے لیے جمع ہوگئے جس سے حالات بدترین شکل اختیار کر گئے۔ انتظامیہ کو اس بات کا خدشہ لگا رہا کہ کہیں یہ لڑائی، پڑوسی ریاستوں تک وسعت اختیار نہ کرلے جہاں دونوں قبائل کی قابل لحاظ آبادی موجود ہے لہذا اسے روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔
ریاست کیرالا میں مودی کی عیسائیوں سے ملاقات:
9؍ اپریل کو نریندر مودی کے عیسائیوں کی ایک مذہبی تقریب ایسٹر کے موقع پر دلی میں شرکت اور کوچی کے دورے کے صرف 24 دن بعد یعنی 3؍ مئی کو ریاست منی پور میں مخالف عیسائی فسادات بھڑک اٹھے۔ اس ملاقات کے دوران مودی نے مقامی عیسائی برادری سے بی جے پی کے حق میں تائید و حمایت کا اظہار کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی مبصرین نے اس دورے کو ستمبر میں منعقد ہونے والے G20 سربراہوں کے اجلاس کے موقع پر عیسائی برادری کے ساتھ تعلقات عامہ ہموار کرنے کی سیاسی مشق قرار دیا۔ دیگر سیاسی نقادوں کا خیال ہے کہ مودی نے عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی معاشی طور پر پسماندہ مسلمانوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرکے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اپنا یہ نقطہ نظر پیش کرنے میں انتہائی مخلص ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر شاید انہیں یقین ہو چلا ہے کہ پارٹی کا ہندتوا کا نعرہ، اپنے استعمال کے نقطہ عروج کو پہنچ چکا ہے اور اب اس نعرے میں کوئی کشش باقی نہیں رہی، اس لیے وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں محض بی جے پی کی فتح کو، یقینی بنانے کی تدبیریں کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ منی پور میں فرقہ وارانہ فسادات اور تشدد کا آغاز، مودی کی سیاسی و انتخابی حکمت عملی میں اچانک تبدیلی کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کیرالا کے دورے کے صرف ایک ہفتے بعد وہ ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابی میدان میں، اپنے اسی پرانے سخت گیر ہندوتوا موقف کے ساتھ شامل ہو گئے اور حیرت اس بات پر ہے کہ کرناٹک کی مکمل انتخابی مہم کے دوران انہوں نے منی پور میں ہونے والے مخالف عیسائی فسادات کے بارے میں ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا۔ منی پور وہ ریاست ہے جہاں 41.39 فیصد ہندو رہتے ہیں، 41.29 فیصد عیسائی اور 8.40 فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ اس ریاست میں ماضی میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندو۔عیسائی فرقہ وارانہ فسادات کبھی نہیں دیکھے گئے۔ چنانچہ ان فسادات کو قبائلی بمقابلہ غیر قبائلی تنازعہ کہنے کے بجائے ’’ہندو۔عیسائی فسادات‘‘ کہنا چاہیے کیونکہ ان فسادات میں صرف عیسائیوں کی عبادت گاہوں یعنی گرجا گھروں اور چرچوں کو بنیادی طور پر نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ چرچوں کی تباہی میں قابل ذکر بات یہ رہی کہ صرف کوکی اور میتیی قبیلوں کے چرچوں کو ہی نشانہ بنایا گیا اور حیرت انگیز طور پر ناگا قبیلے کے گرجا گھر پوری طرح محفوظ رہے۔ مبصرین نے اس واقعہ کا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فسادی ٹولے، صرف کوکی اور ناگا قبائل کے درمیان پر امن اور استوار تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے فسادی عیسائی اکثریتی آبادی والی ریاست منی پور میں انتظامیہ کو بھی درہم برہم کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ریاست منی پور انتظامیہ میں بی جے پی کا ایک بڑا حصہ ہے۔
ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عیسائی آبادی اکثریت میں ہے اور مقامی حکومت میں بی جے پی بھی شامل ہے، جہاں عیسائی عوام بی جے پی کو ووٹ دیتے ہوں اگر وہاں کے عیسائیوں کا قتل عام ہوتا ہو، ان کے گھر، دکانیں اور کارخانے جلائے جاتے ہوں تو غور کیجیے کہ ان ریاستوں میں دیگر اقلیتوں کا کیا حشر ہوتا ہے جہاں وہ کم تناسب کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں، خصوصاً مسلمانوں کا؟
کندھامل اڈیشہ میں2007-2008 کے فسادات کو عیسائی طبقہ آج تک بھول نہیں سکا جب 39 عیسائیوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا اور 4000 سے زیادہ معصوم بے قصور عیسائی شہری، شدید زخمی ہوئے تھے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس فساد میں 100 تا 500 عیسائی ہلاک کیے گئے تھے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی جس سے تقریباً 70,000 سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے تھے، تقریباً 395 گرجا گھروں کو بھی مسمار کر دیا گیا تھا اور 40 سے زیادہ خواتین کی آبروریزی کی گئی تھی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ریاست میگھالیہ، ناگالینڈ اور میزورم میں بھی عیسائیوں کی اکثریت ہے لیکن وہاں کی مقامی سیاسی پارٹیوں کو زعفرانی پارٹی بی جے پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے میں کوئی اعتراض نہیں۔ گزشتہ منی پور اسمبلی انتخابات میں خود ان کے عیسائی قبائلی قائد نے عیسائی برادری کو بی جے پی کو ووٹ دینے کی باقاعدہ اپیل کی تھی۔ معلوم نہیں کیوں، ناگالینڈ، میگھالیہ اور میزورم کے عیسائی اکثریتی عوام، بی جے پی اور ہندوتوا بھگوا بریگیڈ کا ساتھ دینے میں اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے؟ یہی صورت حال کیرالا میں بھی ہے جہاں بی جے پی آج تک مضبوط نہ ہوسکی۔ قابل ذکر
بات یہ ہے کہ بی جے پی اور کسی بھی ہندوتوا تنظیم کو ان قبائل کے کھانے پینے، پہننے اور رہن سہن کے طور طریقوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے حالانکہ یہاں گائے بیل کا گوشت کھلے عام بازاروں میں بکتا ہے اور ہر گھر میں کھایا جاتا ہے۔ یہی صورت حال کیرالا میں بھی ہے جہاں بی جے پی آج تک مضبوط نہ ہوسکی۔
منی پور میں سیاسی اور سماجی صورت حال مختلف ہے، جہاں بی جے پی راست اپنے بل پر بر سراقتدار ہے، ہندووں اور عیسائیوں کی آبادی برابر برابر ہے۔ ایک درج فہرست قبیلے میتییس کو درج فہرست قبیلے کا درجہ دیے جانے کے مسئلہ کا حل کیا جا چکا تھا لیکن قبیلہ کوکی کے افراد میں عیسائیت کے بڑھتے اثر کی وجہ سے سنگھ پریوار میں تشویش پیدا ہوئی، کیوں کہ انہیں عیسائیت کا یہ اثر کسی صورت برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ یہاں بھی اسی طرح کے سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کر دیے گئے جو 15 سال پہلے اڈیشہ میں پیدا کیے گئے تھے۔ منی پور میں عیسائیوں کے قتل عام، ان کی جائیدادوں، گھروں، کاروبار اور کارخانوں کی تباہی پر نریندر مودی کی مکمل خاموشی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اعلی کمان کی ہدایات اور ان کے اشاروں پر ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ بی جے پی عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں کوئی ایسا معاہدہ کرنا نہیں چاہتی جس سے انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہو۔
عیسائیوں اور مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کا منفرد طریقہ:
نریندر مودی کے کیرالا کے دورے کو میڈیا نے حد سے زیادہ اہمیت دی جب کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ 2021 کے عام انتخابات میں صرف 2 فیصد عیسائیوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا جب کہ 2016 کے انتخابات میں یہ 16 فیصد تھا۔ کل 39 فیصد عیسائیوں اور مسلمانوں نے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح 57 فیصد عیسائیوں اور 58 فیصد مسلمانوں نے کانگریس کی قیادت والی پارٹی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح 2019 کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی دو تہائی عیسائیوں اور مسلمانوں نے یو ڈی ایف کو ووٹ دیا تھا جس کا انڈین مسلم لیگ، ایک حصہ تھی۔ ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالا میں دونوں فرقوں کے ووٹ دینے کا اصول یکساں رہا ہے اگرچہ کہ ان کے سماجی اور مذہبی اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ووٹ دینے کا طریقہ یکساں ہے۔حسب معمول بی جے پی اپنے مفادات کے حصول کے لیے یہاں بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی شاطرانہ چالوں میں مصروف ہے۔ کیرالا میں 18.4 فیصد عیسائی اور 26.5 فیصد مسلمان ہیں۔ بی جے پی نے پر امن شہریوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی اپنی دیرینہ پالیسی کی بنیاد پر گزشتہ ہفتے ایک ڈاکومنٹری فلم ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کی کرناٹکا اسمبلی انتخابات کے عین موقع پر غیر معمولی تشہیر کی۔ اس متنازعہ ڈاکومنٹری کی تشہیر کا مقصد کرناٹکا کے 54.70 فیصد ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان انتشار، اختلاف، الجھن اور نفرت پھیلانا تھا بلکہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر 12 مہینے قبل ہی سے اسی طرز پر سیاسی میدان ہموار کیا جا رہا ہے۔
ایک موقع پر کیرالا کی ایک نئی مقامی سیاسی پارٹی ’’کیرالا کانگریس‘‘ کی کمزور کارکردگی کو غلطی سے انڈین نیشنل کانگریس کی ناکامی سے جوڑ کر اصلی کانگریس پارٹی کو بدنام کرنے کی سازش بھی نمایاں ہوگئی۔ کیرالا کانگریس دراصل مرکزی کیرالا کے عیسائیوں کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک خالص مقامی سیاسی جماعت ہے۔ مودی کے کیرالا کے دورے سے دو دن قبل اس پارٹی کے کچھ قائدین نے پارٹی سے استعفی دیا تھا اور نیشنل پروگریسیو پارٹی کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی تھی، جس نے تشکیل کے فوری بعد اعلان کردیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کا ہرگز ساتھ نہیں دے گی۔ اس پارٹی کے تعلق سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بہت جلد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے۔ مقامی عیسائیوں نے اس پارٹی کی مکمل حمایت کا اعلان کیوں کیا؟ وہ اس لیے کہ انہیں امید ہے کہ یہ پارٹی مرکزی کیرالا میں ربر کی کاشت کرنے والے کسانوں کے مفادات کی ہر ممکنہ اور مکمل حفاظت کرے گی۔
افسوس کہ منی پور میں عیسائیوں کے خلاف برپا شدہ فسادات نے مودی کی ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
ترجمہ: سلیم الہندی حیدرآباد
***
***
نریندر مودی کے کیرالا کے دورے کو میڈیا نے حد سے زیادہ اہمیت دی جب کہ حقیقت کچھ اور تھی۔ 2021 کے عام انتخابات میں صرف 2 فیصد عیسائیوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا جب کہ 2016 کے انتخابات میں یہ 16 فیصد تھا۔ کل 39 فیصد عیسائیوں اور مسلمانوں نے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح 57 فیصد عیسائیوں اور 58 فیصد مسلمانوں نے کانگریس کی قیادت والی پارٹی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح 2019 کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی دو تہائی عیسائیوں اور مسلمانوں نے یو ڈی ایف کو ووٹ دیا تھا جس کا انڈین مسلم لیگ، ایک حصہ تھی۔ ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالا میں دونوں فرقوں کے ووٹ دینے کا اصول یکساں رہا ہے اگرچہ کہ ان کے سماجی اور مذہبی اصول ایک دوسرے سے مختلف ہیں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023