فرانس میں چوتھے روز بھی تشدد جاری، 1400 سے زائد افراد گرفتار
نئی دہلی، جولائی 1:جمعے کو فرانس بھر میں 1,400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ پولیس کی بھاری تعیناتی کے باوجود چوتھی رات بھی فسادات جاری رہے۔
منگل کو پیرس سٹی کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک 17 سالہ نوجوان کی پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بدامنی شروع ہو گئی۔ ناہیل، جو کہ الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھتا تھا، کو پولیس کی ٹریفک چیکنگ کے دوران گاڑی سے باہر نکلنے پر گولی مار دی گئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ اس واقعے نے پولیس اور ہاؤسنگ پروجیکٹس میں نوجوانوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تناؤ کو ہوا دی جو غربت، بے روزگاری اور نسلی امتیاز کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔
تشدد کا آغاز ابتدائی طور پر پیرس سے ہوا اور بعد میں مارسیلی، لیون، ٹولوز، اسٹراسبرگ اور لِل جیسے دیگر شہروں تک پھیل گیا۔ پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری دفاتر سمیت عمارتوں میں 2500 کے قریب آگ لگائی گئی اور کئی دکانوں کو لوٹ لیا گیا۔
ہفتے کے روز فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین نے کہا کہ ملک بھر میں گرفتار کیے جانے والوں کی اوسط عمر 17 سال ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 200 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
وزیر داخلہ نے رات 9 بجے کے بعد تمام پبلک بسوں اور ٹراموں کو ملک بھر میں بند کرنے کا حکم دیا ہے اور سوشل نیٹ ورکس کو خبردار کیا ہے کہ وہ خود کو مزید تشدد کے لیے چینلز کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انھوں نے کہا ’’ہم ہر اس شخص کا پیچھا کریں گے جو ان سوشل نیٹ ورکس کو پرتشدد کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘
دریں اثنا ملک کی قومی فٹ بال ٹیم نے ایک غیر معمولی بیان میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
کھلاڑیوں نے ایک بیان میں کہا ’’ہم میں سے بہت سے لوگ محنت کش طبقے کے علاقوں سے ہیں، ہم بھی اس درد اور دکھ کے احساس میں شریک ہیں۔ تشدد سے کچھ حل نہیں ہوتا…اظہار کے اور بھی پرامن اور تعمیری طریقے ہیں۔‘‘