اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہمارے مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں

نئی دہی، جنوری 9: جیسے ہی الیکشن کمیشن نے ہفتہ کو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا، کسان رہنماؤں نے نشان دہی کی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے زرعی قوانین کے خلاف ان کے سال بھر سے جاری احتجاج کے دوران اٹھائے گئے کچھ اہم مطالبات کو ابھی تک پورا نہیں کیا ہے۔

سمیکت کسان مورچہ کے ایک رکن ابھیمنیو سنگھ کوہر نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’ہمارے بنیادی مطالبات، ہمیں کم از کم امدادی قیمت پر قانونی ضمانت دینے اور مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کو کابینہ سے نکالنے کے لیے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ لوگ بی جے پی سے ناخوش ہیں اور یہ مسائل پنجاب اور اتر پردیش [انتخابات] میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔‘‘

9 دسمبر کو کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیم نے مرکز کی طرف سے ایک تجویز میں زیر التوا مطالبات پر کارروائی کی یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کر دیا تھا۔ یہ 29 نومبر کو پارلیمنٹ میں زرعی قوانین کو واپس لینے کے بعد ہوا تھا۔

مرکز نے ان طریقوں پر فیصلہ کرنے کے لیے ایک پینل کی تجویز پیش کی تھی جن میں فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت یقینی طور پر فراہم کی جا سکتی ہے۔

کم از کم امدادی قیمت وہ شرح ہے جس پر حکومت زرعی پیداوار خریدتی ہے اور یہ کسانوں کی پیداواری لاگت کے کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ بہت سی فصلوں کے بازار کے نرخ عام طور پر کم از کم امدادی قیمت سے کافی نیچے ہوتے ہیں۔

مرکز نے یہ بھی کہا تھا کہ اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کی ریاستی حکومتوں نے مظاہرین کے خلاف درج مقدمات واپس لینے پر اتفاق کیا ہے۔

تاہم مرکز کی تجویز میں مرکزی وزیر اجے مشرا کو برطرف کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، جس کا بیٹا اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری ضلع میں زرعی قوانین مخالف احتجاج کے دوران چار کسانوں سمیت آٹھ افراد کے قتل سے متعلق کیس میں قتل کے الزام میں حراست میں ہے۔

ہفتہ کو کسان لیڈر کوہر نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مطالبات ابھی تک زیر التوا ہیں اور حکومت بڑے فیصلے نہیں لے سکے گی، کیوں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کے بعد ماڈل ضابطہ اخلاق نافذ ہو گیا ہے۔

کوہر نے کہا ’’سمیکت کسان مورچہ ان مسائل پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے 15 جنوری کو میٹنگ کرے گا اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گا۔‘‘

کسان تنظیم بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان سوربھ اپادھیائے نے بھی کہا کہ مرکزی حکومت کو اجے مشرا کو کابینہ سے ہٹا دینا چاہیے تھا۔

انھوں نے کہا ’’کم سے کم امدادی قیمت ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا اثر ریاستوں پر پڑتا ہے۔ یقیناً اس کا اثر اتر پردیش اور پنجاب کے انتخابات کے دوران پڑے گا۔‘‘

اہم 403 رکنی اتر پردیش اسمبلی کے انتخابات 10 فروری سے شروع ہوں گے اور سات مرحلوں میں مکمل ہوں گے۔ پنجاب میں ایک ہی مرحلے میں 14 فروری کو پولنگ ہوگی۔ گوا، منی پور اور اتراکھنڈ تین دیگر ریاستیں ہیں جہاں انتخابات ہوں گے۔ سبھی ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کا اعلان 10 مارچ کو کیا جائے گا۔