ہندو مورتیوں کی موجودگی کی جانچ کے لیے تاج محل کے کمرے کھولے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی
نئی دہلی، مئی 9: الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے جس میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو آگرہ میں تاج محل کے 20 کمروں کو کھولنے کی ہدایت طلب کی گئی ہے تاکہ ان میں ہندو مورتیوں یا صحیفوں کی ممکنہ موجودگی کی جانچ کی جاسکے۔
یہ عرضی رجنیش سنگھ نے دائر کی ہے، جو ایودھیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے میڈیا ڈیسک کے انچارج ہیں۔
مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1632 میں تاج محل کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا اور یہ منصوبہ 1653 میں مکمل ہوا تھا۔ تاہم کچھ ہندوتوا مورخین نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ یہ مقبرہ شاہ جہاں سے پہلے کا ہے اور اس کی تعمیر مسلم حکمرانی کے آغاز سے بہت پہلے کی گئی تھی۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق رجنیش سنگھ کے وکیل رودر وکرم سنگھ نے کہا ’’تاج محل سے متعلق ایک پرانا تنازعہ ہے۔ تاج محل میں تقریباً 20 کمرے بند ہیں اور کسی کو ان کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کمروں میں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں اور صحیفے ہیں۔‘‘
وکیل نے کہا کہ ان کمروں کو کھولنے اور ان تنازعات کو ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
درخواست میں بی جے پی کے رکن نے دلیل دی کہ کئی ہندوتوا گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تاج محل ایک پرانا مندر ہے جو ہندو دیوتا شیو کے لیے وقف ہے اور اسے تیجو محلیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ اس نظریہ کی تائید بہت سے مورخین بھی کرتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ یہ دعوے ایسی صورت حال کا باعث بنے ہیں جس میں ہندو اور مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں لہٰذا اس تنازعہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تاج محل کا نام شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ تاہم کئی کتابوں میں شاہجہاں کی بیوی کا نام ممتاز الزمانی بتایا گیا ہے نہ کہ ممتاز محل۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت کہ ایک مقبرے کی تعمیر میں 22 سال لگتے ہیں یہ حقیقت سے بالاتر ہے اور سراسر ایک لغو بات ہے۔
رجنیش سنگھ نے عرضی میں دعویٰ کیا کہ بادشاہ پرماردی دیو نے 1212 عیسوی میں تیجو محلیہ مندر کا محل اسی جگہ بنایا تھا جہاں اس وقت تاج محل واقع ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مندر دوسرے حکمرانوں کو منتقل کیا گیا تھا اور 1632 میں شاہ جہاں نے اسے بادشاہ جے سنگھ سے ضبط کر لیا اور اسے اپنی بیوی کی یادگار میں تبدیل کر دیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’’یہ احترام کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ چوں کہ تاج محل ایک قدیم یادگار ہے اور اس یادگار کے تحفظ کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، اس لیے اس یادگار کے بارے میں صحیح اور مکمل تاریخی حقائق کو عوام کے سامنے ظاہر کیا جانا چاہیے‘‘۔
درخواست میں قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ 1958 اور قدیم اور تاریخی یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات (قومی اہمیت کا اعلان) ایکٹ 1951 کی دفعات کو بھی الگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کے تحت تاج محل، فتح پور سیکری، آگرہ کے قلعے، اعتماد الدولہ کے مقبرے کو تاریخی یادگار قرار دیا گیا ہے۔