گروگرام میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں رکاوٹوں کے درمیان ہریانہ کے وزیر اعلی نے کہا کہ کسی بھی کمیونٹی کو عوامی مقامات پر عبادت نہیں کرنی چاہیے

نئی دہلی، دسمبر 22: ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے منگل کو ریاستی اسمبلی میں کہا کہ عوامی مقامات پر کسی مذہب کے لوگوں کو مذہبی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔

کھٹر نے کہا ’’اگر انھیں عبادت کرنی ہے، تو انھیں مندروں، مسجدوں، گرودواروں اور گرجا گھروں میں کرنی چاہیے۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ پرامن ماحول کو برقرار رکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ معاشرے میں کوئی تصادم نہ ہو۔‘‘

ان کا یہ بیان کانگریس کے ایم ایل اے آفتاب احمد کی طرف سے ریاست کے ہریانہ شہر میں عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے والے ہندوتوا گروپوں کا معاملہ اٹھانے کے بعد آیا ہے۔ انھوں نے تین ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں کو گروگرام میں نماز جمعہ کے لیے جمع ہونے سے بار بار روکا ہے۔

ہندوتوا گروپوں کے مطالبات کو مانتے ہوئے گروگرام ضلع انتظامیہ نے گزشتہ تین مہینوں میں 37 میں سے آٹھ عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے، جنھیں نماز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

10 دسمبر کو خود کھٹر نے کہا تھا کہ عوامی مقامات پر نماز پڑھنا برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

ریاستی اسمبلی میں منگل کی کارروائی کے دوران احمد نے کہا کہ آئین شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ احمد نے کہا ’’گروگرام میں ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور یہ شہر ترقی کی علامت ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی کے مطابق نماز نہیں پڑھ سکتا تو گروگرام سے کیا پیغام جائے گا؟‘‘

انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو کھلے مقامات پر نماز پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیوں کہ شہر میں مساجد پر غیر قانونی تجاوزات ہو چکی ہیں۔

کانگریس ایم ایل اے نے کہا ’’ہزاروں مسلمان روزگار کی تلاش میں گروگرام آتے ہیں اور ان کے لیے نماز پڑھنے کے لیے کافی جگہ نہیں ہے۔‘‘

عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کے بارے میں کھٹر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے احمد نے مزید کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنا وزیرِ اعلیٰ کی ذمہ داری ہے۔

اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مسلم کمیونٹی کے ارکان نے شہر کے بعض علاقوں میں نماز ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

کھٹر نے کہا ’’لیکن جب کچھ لوگ ایسے مقامات [عوامی مقامات] کے باہر نماز ادا کرتے ہیں، تو تصادم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک مقامی مسئلہ ہے، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے بھڑکایا جائے کیوں کہ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کر سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ تمام مذاہب کی سالانہ مذہبی تقریبات مناسب اجازت کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں اور روزانہ یا ہفتہ وار نماز ادا کرنے کے لیے مخصوص مقامات ہیں۔

کھٹر نے مزید کہا ’’اور جہاں کھلی جگہوں پر نماز ادا کرنے سے تصادم ہو، وہاں معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘

گزشتہ جمعہ کو ہندوتوا گروپوں نے شہر کے ادیوگ وہار کے ایک پارک میں نماز میں خلل ڈالا تھا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس دن مسلمان سیکٹر 37 گراؤنڈ سے دور رہے تھے، جو گروگرام میں نماز کے لیے مخصوص جگہوں میں سے ایک ہے۔

اس مخصوص نماز کی سائٹ پر پچھلے ایک ماہ کے دوران کئی رکاوٹیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ہندوتوا گروپوں نے 20 نومبر کو سیکٹر 37 گراؤنڈ میں مسلمانوں کی نماز ادا کرنے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ وہاں کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔

گروپوں نے 26 نومبر کو اس مقام پر 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے موقع پر ایک ہون کی تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا۔

5 نومبر کو ہندوتوا گروپوں کے ارکان نے سیکٹر 12A میں ایک جلسہ منعقد کیا جس کے بعد انھوں نے گائے کا گوبر زمین پر پھیلا دیا۔ اسی مقام پر 7 نومبر کو نماز کو روکنے کے لیے جمع ہونے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں والی بال کورٹ قائم کیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے سپریم کورٹ میں درخواست کی تھی کہ ہریانہ کے چیف سکریٹری اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے خلاف مبینہ طور پر ہندوتوا گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔