بھارت اور چین کے درمیان فوجی مذاکرات کا 19واں دور بھی بے نتیجہ رہا
نئی دہلی، اگست 16: بھارت اور چین نے 13 اور 14 اگست کو اپنے تین سال سے زیادہ پرانے سرحدی تعطل کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کا ایک تازہ دور منعقد کیا۔ تاہم منگل کو دونوں ممالک کی طرف سے جاری مشترکہ پریس ریلیز میں اس سلسلے میں کسی پیش رفت کا اشارہ نہیں دیا گیا۔
جون 2020 میں لداخ کی وادی گالوان میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان مڈبھیڑ کے نتیجے میں دونوں طرف جانی نقصان ہوا۔ اس کے بعد متعدد رگڑ پوائنٹس پر کشیدگی بھڑک اٹھی تھی اور دونوں ممالک نے دسیوں ہزار فوجیوں کو توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کو تعینات کیا تھا۔
ہندوستان-چین کور کمانڈر سطح کی میٹنگ کا 19 واں دور ہندوستان کی جانب چشول-مولڈو سرحدی میٹنگ پوائنٹ پر تین ماہ کے وقفے کے بعد منعقد ہوا۔
منگل کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے مغربی سیکٹر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ’’باقی مسائل کے حل‘‘ پر مثبت، تعمیری اور فکرانگیز بات چیت کی۔ ہندوستانی حکومت مشرقی لداخ کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے مغربی سیکٹر مانتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’انھوں نے بقیہ مسائل کو تیزی سے حل کرنے اور فوجی اور سفارتی ذرائع سے بات چیت اور مذاکرات کی رفتار کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ عبوری طور پر دونوں فریقوں نے سرحدی علاقوں میں زمین پر امن و سکون برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔‘‘
23 اپریل کو ہونے والی بات چیت کے 18 ویں دور کے دوران ہندوستان نے دیپسنگ اور ڈیمچوک کے علاقوں میں دیرپا مسائل کو جلد از جلد حل کرنے پر زور دیا تھا۔
نئی دہلی نے کئی مواقع پر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک تعطل جاری رہے گا بیجنگ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔
بات چیت کے 16 ویں دور کے دوران دونوں فریقوں نے مشرقی لداخ میں ایک اہم مقام، گوگرا-ہاٹ اسپرنگس میں پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے اپنے فوجیوں کو ہٹانے پر اتفاق کیا تھا۔