حالیہ تبدیلیوں کو شامل کرنے کے لیے نیشنل پاپولیشن رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے: وزارت داخلہ
نئی دہلی، نومبر 8: مرکزی وزارت داخلہ نے پیر کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ پیدائش، موت اور ہجرت کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں کو شامل کرنے کے لیے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل پاپولیشن رجسٹر ہندوستان کے تمام عام باشندوں کی فہرست ہے۔ اسے پہلی بار 2010 میں تیار کیا گیا تھا۔ 2015 میں، نام، جنس اور تاریخ اور جائے پیدائش جیسے کچھ شعبوں میں معلومات کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آدھار، موبائل اور راشن نمبروں کی تفصیلات بھی جمع کی گئیں۔
وزارت نے 2021-22 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ’’حکومت نے مردم شماری 2021 کے تحت گھروں کی فہرست سازی کے مرحلے کے ساتھ اپریل سے ستمبر 2020 تک آسام کے علاوہ پورے ملک میں این پی آر رجسٹر کو دوبارہ اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم COVID-19 وبائی مرض کے پھیلنے کی وجہ سے NPR اپڈیٹیشن اور دیگر متعلقہ فیلڈ سرگرمیوں کا کام اگلے احکامات تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔‘‘
وزارت نے کہا کہ حکومت کی تجویز ہے کہ ویب پورٹل پر کچھ تصدیقی پروٹوکول پر عمل کرنے کے بعد رہائشیوں کو اپنا ڈیٹا اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ اس عمل کے دوران کوئی دستاویزات یا بائیو میٹرکس جمع نہیں کیے جائیں گے۔
وزارت داخلہ نے کہا ’’مرکزی حکومت نے پہلے ہی این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 3941.35 کروڑ روپے کے اخراجات کو منظوری دے دی ہے۔‘‘
نیشنل پاپولیشن رجسٹر ایک آل انڈیا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) بنانے کا پہلا قدم ہے، جو ملک میں مقیم غیر دستاویزی تارکین وطن کی شناخت کرے گا۔
نومبر 2019 میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ شہریت (ترمیمی) قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہندوستان کے لیے شہریوں کا ایک قومی رجسٹر بنایا جائے گا۔ یہ قانون بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ اقلیتی مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوں۔
تاہم وزارت داخلہ کی 2021-22 کی سالانہ رپورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
نومبر 2021 میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ حکومت نے شہریوں کے قومی رجسٹر کو تیار کرنے کے لیے ملک گیر مشق کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
حکومت غیر دستاویزی تارکین وطن خصوصاً بنگلہ دیشیوں کی شناخت کے طریقہ کار کے طور پر شہریوں کے قومی رجسٹر کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا این آر سی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہیں حکومت اور اس کے حامیوں نے اس بات پر اصرار کرنے کی کوشش کی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز آپس میں منسلک نہیں ہیں۔