نریندر مودی کو مہاراشٹرا-کرناٹک سرحدی تنازعہ پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے: ادھو ٹھاکرے
نئی دہلی، دسمبر 11: مہارانشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ہفتہ کے روز کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو مہاراشٹرا اور کرناٹک کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔
ٹھاکرے نے کہا ’’وزیراعظم [نریندر مودی] [اتوار کو] ناگپور-ممبئی ایکسپریس وے کا افتتاح کرنے آرہے ہیں اور ہم ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وزیراعظم کو، جب وہ آئیں گے، تو ریاست کو درپیش بہت سے مسائل کو حل کرنا پڑے گا۔‘‘
ٹھاکرے نے یہ باتیں جالنا ضلع کے سنت رام داس کالج میں 42ویں مراٹھواڑہ ساہتیہ سمیلن کے افتتاح کے موقع پر کہیں۔
مہاراشٹرا اور کرناٹک کے درمیان سرحدی تنازعہ 1950 اور 1960 کے درمیانی عرصے کا ہے جب یہ ریاستیں بنی تھیں۔ مہاراشٹر کا دعویٰ ہے کہ سرحد پر واقع 865 گاؤں کو اس کے ساتھ ملایا جانا چاہیے تھا، جب کہ کرناٹک کا دعویٰ ہے کہ 1956 میں لسانی خطوط پر جو حد بندی کی گئی تھی وہ حتمی ہے۔
سپریم کورٹ فی الحال مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ریاستی تنظیم نو ایکٹ 1956 کی کچھ دفعات کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے، جس میں سرحدی علاقوں کے 865 گاؤں کو اس میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حال ہی میں کرناٹک کے سرحدی شہر بلگاوی میں تنازعہ کی وجہ سے کشیدگی بہت زیادہ ہے۔ یکم دسمبر کو کنڑ حامی تنظیموں نے بلگاوی میں ایک پرائیویٹ کالج فیسٹیول کے دوران کرناٹک ریاست کا جھنڈا لہرانے پر ایک طالب علم کی مبینہ پٹائی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
اگلے دن ایک کنڑ قوم پرست گروپ کرناٹک رکشنا ویدیکے کے ارکان نے مہاراشٹر کے رجسٹریشن نمبر والی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ جوابی کارروائی میں شیو سینا کے ٹھاکرے کے دھڑے کے کارکنوں نے پونے میں کرناٹک کی ریاستی ٹرانسپورٹ کی بسوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
دریں اثنا ہفتہ کے روز ٹھاکرے نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے کالجیم نظام کا بھی دفاع کیا۔
دی ہندو کے مطابق ٹھاکرے نے کہا ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت مرکزی حکومت عدلیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے اور اسے اپنے تحت لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر جج ججوں کا تقرر نہیں کر سکتے تو کیا وزیر اعظم انھیں منتخب کر سکتے ہیں؟‘‘
انھوں نے نائب صدر جگدیپ دھنکھر اور مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کو بھی کالجیم نظام کے خلاف بیانات پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے 26 نومبر کو ٹائمز ناؤ نیوز چینل کو بتایا تھا کہ کالجیم نظام آئین کے مطابق نہیں ہے۔ دو دن بعد سپریم کورٹ نے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔
7 دسمبر کو نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے راجیہ سبھا میں 2015 میں نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
اس قانون میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، وزیر قانون اور چیف جسٹس، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے نامزد کردہ دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
مجوزہ قانون کالجیم نظام کو تبدیل کرنا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔
8 دسمبر کو سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومتی عہدیداروں کے ذریعہ عدلیہ کے خلاف تبصروں کا اثر اچھا نہیں ہوتا۔