میڈیا کی منفی رپورٹنگ کا بھی کسانوں کے احتجاج پر کوئی اثر نہیں

فلمساز اور ’چل چیتر ابھیان‘ کے بانی نکول سنگھ ساہنی کے ساتھ خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

’مظفر نگر میں کسانوں کی مہا پنچایت میں ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے بلند ہوئے۔ وہاں جاٹوں اور مسلمانوں میں جو اتحاد نظر آیا وہ یکایک نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے دونوں سماج کے لوگوں نے کئی سالوں تک کافی محنت کی۔ میری نظر میں کئی ایسے پروگرام ایسے ہوئے جن کا مقصد مظفر نگر فساد کے بعد جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان دوری کو کم کرنا تھا۔ کسان تحریک نے اس کام میں بہترین رول ادا کیا۔ یہاں کئی کسان پنچایتیں ہوئیں جن میں ہندو مسلم کسان ایک ساتھ کھڑے نظر آئے۔ جاٹوں اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے میں بھارتیہ کسان یونین کی طرف سے بھی محنت ہوئی۔ لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ آٹھ سال پہلے ان سے بڑی غلطی ہوئی تھی۔ فساد ان کی بہت بڑی بھول تھی۔ گنّا کسانوں کو بھی احساس ہوا کہ انہیں ٹھگا گیا ہے۔ سیاسی طور پر بھی سمجھ میں آیا کہ مسلمانوں کے بغیر نہ راشٹریہ لوک دل کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ کسان یونین۔‘

ان خیالات کا اظہار مشہور ڈاکیومنٹری فلمساز اور ’چل چیتر ابھیان‘ کے بانی نکول سنگھ ساہنی نے کیا۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں نکول ساہنی نے کہا کہ خاص طور پر مغربی اتر پردیش کے علاقوں میں چودھری چرن سنگھ کے زمانے سے جاٹ-مسلم گٹھ بندھن رہا ہے اور بھارتیہ کسان یونین کی پنچایتوں میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے کے ساتھ ’ہر ہر مہادیو‘ کا نعرہ بھی لگتا رہا ہے۔ میری جانکاری کے مطابق پہلی بار یہ نعرہ غلام محمد جولا نے دیا۔ وہ مہندر سنگھ ٹکیٹ کے خاص دوست رہے ہیں۔ 1989 میں دہلی کے بوٹ کلب میں کسانوں نے مشہور تحریک چلائی تھی، اس میں بھی یہ نعرہ خوب لگا تھا۔ اس تحریک میں کسانوں نے پورے دس دنوں تک پوری دلی گھیر رکھی تھی۔ مہندر سنگھ ٹکیٹ اور غلام محمد جولا ساتھ ساتھ تھے۔ دونوں ایک ساتھ ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ یہ نعرے بھارتیہ کسان یونین کے سب سے مشہور نعرے بن گئے تھے۔ اس بار سیسولی کی کسان پنچایت میں بھی یہی نعرے لگائے گئے۔

لیکن اسی مظفر نگر میں یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ انہیں دوبارہ آپس میں لڑایا جائے۔ اس پر نکول ساہنی کہتے ہیں کہ یہ سب تو ہو گا ہی کیونکہ بی جے پی کو اس کے سوا کچھ نہیں آتا۔ 29 اگست 2021 کو مظفر نگر کے کوال میں مارے گئے دو بھائیوں سچن اور گورو کی یاد میں ایک سبھا منعقد کی گئی۔ حالانکہ اس میں بی جے پی کارکنوں کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔ اس طرح یہ پروگرام پوری طرح فلاپ ثابت ہوا۔ اب وہاں آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ مقامی لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں کہ ارے! آپ لوگ سچن اور گورو کو بھول گئے ہو؟ لیکن وہاں کے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ دراصل سچن اور گورو کے نام پر ہمیں بھڑکایا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سال 2013 میں سوشل میڈیا زیادہ فعال نہیں تھا۔ لوگ سوشل میڈیا، خاص طور پر واٹس ایپ پر آئی چیزوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب وہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ واٹس ایپ پر آئی زیادہ تر چیزیں غلط بھی ہوتی ہیں۔ اب لوگ سمجھتے ہیں کہ گائے کاٹ کر مندر کے سامنے کون پھینکتا ہے اور کیوں پھینکتا ہے۔ ایسے میں میرا خیال ہے کہ لوگوں کو آپس میں لڑانا اتنا آسان نہیں ہو گا، وہ بھی اس وقت جبکہ وہاں سماج کے دو بڑے طبقے مسلمان اور جاٹ اتحاد قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

کیا یو پی الیکشن پر جاٹ مسلم اتحاد کا کوئی اثر پڑے گا؟ اس سوال پر نکول ساہنی کہتے ہیں کہ سیاسی سطح پر کیا ہو گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تین مہینے پہلے تک مغربی یو پی میں بی جے پی میں جو خود اعتمادی نظر آتی تھی وہ اب نظر نہیں آرہی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کسان تحریک کا پوروانچل، اودھ یا یو پی کے باقی علاقوں میں کوئی اثر نہیں ہے۔

ایک صحافی کے طور پر آپ اس کسان تحریک کا احاطہ کر رہے ہیں۔ آپ کو اس تحریک کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے؟ اس پر نکول ساہنی کہتے ہیں، میں ابھی پوری دنیا میں ہوئے کسان تحریکوں کی تاریخ پڑھ رہا ہوں۔ میں ابھی پڑھ رہا تھا کہ برازیل میں اس طرح کی ایک تحریک چلی تھی، جس میں 80 تا 90 ہزار کسان اپنے اپنے ٹریکٹر لے کر سڑکوں پر آگئے تھے۔ لیکن ہمارے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے ایسی تحریک پوری دنیا کی تاریخ میں نظر نہیں آتی کیونکہ اس میں سکھوں کے ساتھ مسلم اور ہندو تینوں مل کر جس طرح سے لڑ رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ابھی ہریانہ کے شہر کرنال میں ہوں۔ یہاں کے جاٹوں کا کہنا ہے کہ مظفر نگر کے مسلمانوں نے ہماری خدمت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج جمہوریت کو بچا رہا ہے۔ پھر سے بھائی چارے کے سوال کو کھڑا کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نعرے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں بلکہ لوگ مل کر جدوجہد کر رہے ہیں اور ایسی ہی متحدہ جدوجہد کے نتیجے میں آپسی رشتے مضبوط ہوتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب آپ ایک مشکل لڑائی لڑ رہے ہوں تو لوگوں کا ایسے وقت میں ساتھ دینا بہت معنی رکھتا ہے۔

نکول ساہنی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں جب سے ہندوستان کا بازار کھلا ہے قدیم سرمایہ داری کے خلاف یا نولبرل ازم اقتصادی پالیسیوں کے خلاف اتنی بڑی تحریک اس ملک میں کبھی نہیں چلائی گئی۔ آج بچے بچے کی زبان پر آ چکا ہے کہ یہ حکومت امبانی اڈانی کی حکومت ہے اور یہ کسان تحریک انہی کے خلاف ہے۔ اب لوگ نجی کاری پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہندو مسلمان سے اوپر اٹھ کر روزی روٹی کے مسئلہ پر فکر ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میرے خیال میں اب یہ احتجاج صرف زرعی مسئلوں کا احتجاج نہیں رہا اس کے مزید کئی پہلو بن گئے ہیں۔ کس نے سوچا تھا کہ جس پنجاب اور ہریانہ کے درمیان ستلج-جمنا لنک کنال کا تنازعہ تھا، ایک دوسرے سے نفرت تھی، وہ اب ایک ساتھ ہو جائیں گے۔ ہریانہ کے کسان اگر نہیں جڑتے تو تحریک اتنی بڑی نہیں بن پاتی۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مخالف سی اے اے احتجاج جو اس ملک کا سب سے مختلف احتجاج تھا اس کے محض ایک سال بعد ہی یہ کسان احتجاج شروع ہو گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسانوں کا یہ احتجاج در اصل شاہین باغ کے احتجاج کو خوبصورت طریقے سے خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

نکول ساہنی نے مزید کہا کہ ہریانہ کے کسان پہلے سی اے اے کے مسئلہ پر بی جے پی کے ساتھ تھے لیکن جب سے ان تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج شروع ہوا ہے وہی کسان سی اے اے پر مسلمانوں کے موقف کو درست اور حکومت کے موقف کو غلط تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جسے میں خود محسوس کر رہا ہوں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سے ملک میں پولرائزیشن کی سیاست بڑھی ہے، مسلمان مجبوری میں اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہو گئے۔ ایسی صورت میں ایک عام ہندو کے لیے مسلمانوں کو سمجھنے کے لیے میڈیا یا فلمیں ہی واحد ذریعہ ہیں۔ اور وہاں کیا دکھایا جاتا ہے وہ مجھ سے زیادہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں کے باوجود اب دونوں ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ میڈیا در اصل جھوٹی کہانیاں گھڑتا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ بی جے پی والوں نے بڑی بڑی پنچایتیں کرائیں تاکہ لوگوں کا ذہن کسان احتجاج سے بھٹکایا جا سکے لیکن لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔

اس احتجاج کے دوران آپ نے میڈیا کو کیسا پایا؟ اس پر نکول ساہنی کا کہنا ہے، میرا خیال ہے کہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا ہے۔ اس ملک کے نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو جسے آپ چاہیں تو گودی میڈیا، مودی میڈیا، ریلائنس میڈیا، کارپوریٹ میڈیا یا سنگھی میڈیا کہہ سکتے ہیں، اس کی اصل حقیقت ملک کے عوام کے سامنے آ گئی ہے۔ لوگوں نے ان کی باتوں پر اب یقین کرنا بند کردیا ہے۔ ان کے اوپر سے سمجھدار لوگوں کا بھروسہ پوری طرح سے اٹھ چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ملک میں آہستہ آہستہ میڈیا کا اثر بھی ختم ہو جائے اور لوگ یقیناً اس سے دوری اختیار کر لیں گے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ 15 اگست سے ہی اس میڈیا میں طالبان افغانستان چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود مظفر نگر کے مہا پنچایت میں بھیڑ رہی۔ کرنال میں انٹرنیٹ کنکشن کاٹ دینے کے باوجود ہریانہ کی حکومت کو کسانوں کے آگے جھکنا پڑا۔ ایس ڈی ایم آیوش سنہا کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ حکومت نے کرنال کے بستر ٹول واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ یہ انکوائری ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کی منفی رپورٹنگ کا کسانوں کے احتجاج پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔

 

***

کون ہیں نکول سنگھ ساہنی؟ 

پونے کے ایف ٹی آئی آئی سے تعلیم یافتہ نکول سنگھ ساہنی ہندوستان کے مشہور ڈاکیومنٹری فلم میکر ہیں۔ انہوں نے کئی دستاویزی فلمیں بنائی ہیں جو جنوبی ایشیا میں مذہبی فرقہ واریت، انسانی حقوق، مزدوری اور سماجی انصاف کے مسائل سے متعلق ہیں۔ ان کی ’مظفر نگر باقی ہے‘ اور ’عزت نگر کی اسبھیہ بیٹیاں‘ مشہور دستاویزی فلمیں ہیں۔ ان کی ایک فلم ’معاوضہ‘ 2013 کے مظفر نگر-شاملی قتل عام کے فساد متاثرین پر ہے، جنہیں فسادات کے چار سال بعد بھی معاوضہ نہیں ملا۔ اس فلم کی 2017 میں اسکریننگ ہوئی تھی۔ ڈاکیومنٹری فلم میکر کے ساتھ ساتھ نکول ساہنی ’چل چیتر ابھیان‘ کے بانی ہیں۔ اس کی بنیاد انہوں نے سال 2016 میں رکھی تھی۔ ان کا یہ ابھیان نچلی سطح سے مقامی مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے جو مختلف پسماندہ طبقات کو اپنی آوازوں سے تشویش دیتے ہیں۔ یہ ابھیان مغربی یو پی کے دیہاتی اور رہائشی علاقوں میں مختلف سماجی وسیاسی مسائل پر فلموں کی اسکریننگ کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نکول ساہنی ان دنوں کسان تحریک کو نہ صرف کَور کر رہے ہیں، بلکہ دنیا کے مختلف اخباروں اور ویب سائٹس پر اس بارے میں لکھ بھی رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021