حکومت کی ’نئی اڑان‘ اسکیم ڈھلوان کی طرف گامزن

یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے لیے مالی امداد مطلوب لیکن بجٹ میں مسلسل کمی

افروز عالم ساحل

ملک کے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ایک ایسا ماحول دینے کا وعدہ تھا جہاں وہ کھلے آسمان میں اپنی ’نئی اڑان‘ بھر سکیں اور معزز سرکاری نوکریوں میں جا کر اپنی قوم کا اور ملک کا مستقبل بدل سکیں۔ لیکن اب حکومت کے ارادوں نے اس اسکیم کو ’اڑان‘ سے ڈھلوان کی جانب گامزن کر دیا ہے۔

مودی حکومت کا نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی حد تو ٹھیک تھا لیکن اس نعرے میں ’سب کا وشواس‘ کا اضافہ ہونے کے بعد سے حکومت کے ارادے متزلزل نظر آ رہے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ کو حکومت ہند کے وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت جو دستاویزات ملے ہیں اس کے مطابق گزشتہ دو تین سالوں سے مرکزی حکومت نے اس اسکیم کے لیے جتنا بجٹ رکھا تھا اس کا نصف ہی جاری کیا گیا اور جب خرچ کی باری آئی تو وہاں بھی کنجوسی ہی کی گئی۔

آر ٹی آئی کے دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2020-21 میں اس ’یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منعقد شدنی مینس (Mains) امتحانات کی تیاری کے لیے مالی مدد کی اسکیم یعنی ’نئی اڑان‘ کے لیے 10 کروڑ روپے کا بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 8 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور یکم مارچ 2021 تک محض 69 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

سال 2019-20 میں اس اسکیم کے لیے 20 کروڑ روپیوں کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن صرف 10 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور جب خرچ کی بات آئی تو اس رقم میں صرف 8 کروڑ ایک لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔

2018-19 کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 8 کروڑ روپیوں کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 8 کروڑ روپے جاری بھی کیے گیے، لیکن جب خرچ کی باری آئی تو صرف 6 کروڑ 72 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ اس بار یعنی سال 2021-22 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں گھٹا کر 8 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

مرکزی حکومت کی ’یو پی ایس سی، ایس ایس سی اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منعقد شدنی مینس (Mains) امتحانات کی تیاری کے لیے مالی امداد اسکیم (Support for students clearing Prelims conducted by UPSC, SSC, State Public Services Commission etc) یعنی ’نئی اڑان‘ کی شروعات سال 2012 میں وزارت اقلیتی امور کے ذریعہ کی گئی۔

اس اسکیم کا مقصد اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلباء/ امیدواروں کو مینس (Mains) امتحانات کی تیاری کے لیے مالی امداد فراہم کرانا ہے، جنہوں نے یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) اور اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) وغیرہ کی طرف سے منعقد شدہ امتحانات کے ابتدائی امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہو۔

دراصل حکومت کا مقصد اقلیتی طبقہ کے ایسے ہونہار طلبہ کی مالی مدد کرنا تھا جو معاشی مجبوری کی وجہ سے مسابقتی امتحانات کی تیاری نہیں کر سکتے تھے۔ اس اسکیم کے تحت طلبہ کا تعاون کر کے انہیں سرکاری اعلیٰ عہدوں پر اقلیتی امیدواروں کی شرکت میں اضافہ کرنا مقصود تھا۔ حکومت چاہتی ہے کہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملک کی سب سے معزز سرکاری نوکریوں کے حق دار بنیں۔

اس اسکیم کا فائدہ انہی طلباء/ امیدواروں کو مل سکے گا جن کے سرپرستوں کی سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپیوں سے زائد نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری کیا گیا تھا کہ انہیں کوچنگ کے ذریعہ منعقدہ داخلہ امتحان پاس کرنا بھی لازمی ہے۔ اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) اور اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) کے لیے منعقد شدنی مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لیے امیدوار کو صرف ایک بار مفت کوچنگ کا موقع ملے گا۔ سِول سروس کی تیاری کے لیے صرف دو مواقع دیے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ لیکن یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ دوسرے موقع کے لیے کوچنگ کی فیس 50 فیصد ادا کرنی پڑے گی۔

یہی نہیں بلکہ اس اسکیم کے تحت کوچنگ کرنے والے طلباء/ امیدواروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کوچنگ کی تمام کلاسیز میں حاضر رہیں۔ اگر کوئی طالب علم بغیر کسی خاص وجہ کے کلاس میں 15 دن سے زیادہ غیر حاضر رہتا ہے یا کورس کے درمیان کوچنگ چھوڑ دیتا ہے تو اس سے اس پر ہونے والا سارا خرچ وصول کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت کوچنگ کی کل نشستوں کا 30 فیصد لڑکیوں کے لیے مخصوص ہو گا۔

اسکیم کے تحت کس امتحان میں کتنے امیدواروں کو کتنی ملتی ہے مدد؟

واضح ہو کہ اس ’نئی اڑان‘ اسکیم کے تحت مرکزی حکومت نے اقلیتی طلباء/ امیدواروں کو تقسیم کر کے الگ الگ مذہب کے طلباء کی تعداد پہلے سے ہی طے کر دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت وزارت اقلیتی امور سبھی امتحانات کو ملا کر مجموعی طور پر کل 5100 امیدواروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس اسکیم سے مستفید ہونے والے طلباء/ امیدواروں کی بات کی جائے تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2013-14سے لے کر 30 نومبر 2019 تک صرف 6697 اقلیت طلباء/ امیدواروں کو ہی اس اسکیم سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔

یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) : 300 سیٹ

مسلم : 219

عیسائی : 36

سکھ : 24

بدھ : 10

جین : 9

پارسی : 2

— یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے ابتدائی امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد اگر آپ مینس (Mains) امتحان کی تیاری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو اس اسکیم کے تحت اس کی تیاری کے لیے آپ کو ایک لاکھ روپے ملیں گے۔

اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) (گزیٹیڈ) : 1998 سیٹ

مسلم : 1460

عیسائی : 240

سکھ : 160

بدھ : 66

جین : 60

پارسی : 12

— اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) (گزیٹیڈ) کے ابتدائی امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد اگر آپ مینس (Mains) امتحان کی تیاری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو اس اسکیم کے تحت آپ کو 50 ہزار روپے ملیں گے۔

اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) (نان گزیٹیڈ) : 800 سیٹ

مسلم : 584

عیسائی : 97

سکھ : 64

بدھ : 26

جین : 25

پارسی : 4

— اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) (نان گزیٹیڈ)کے ابتدائی امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد اگر آپ مینس (Mains) امتحان کی تیاری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو اس اسکیم کے تحت آپ کو 25 ہزار روپے ملیں گے۔

اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) : 1998 سیٹ

مسلم : 1460

عیسائی : 240

سکھ : 160

بدھ : 66

جین : 60

پارسی : 12

— اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) کے ابتدائی امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد اگر آپ مینس (Mains) امتحان کی تیاری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو اس اسکیم کے تحت آپ کو 25 ہزار روپے ملیں گے۔

کہانی کا دوسرا رخ

ایک جانب مرکزی حکومت ’نئی اڑان‘ اسکیم کے ذریعہ چاہتی ہے کہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملک کی سب سے معزز سرکاری نوکری کے حق دار بنیں وہیں دوسری جانب حکومت سے نظریاتی اختلاف رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی بعض لوگوں کو پریشانی ہے۔

بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن ہرناتھ سنگھ یادو نے تو یو پی ایس سی سے نہ صرف اسلامک اسٹڈیز سبجیکٹ کو ہٹانے کا مطالبہ رکھ دیا ہے بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ اس ایشو کو وہ راجیہ سبھا میں اٹھائیں گے۔ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ زیادہ تر میڈیا چینلوں اور اخباروں نے اس خبر کو اپنی سرخیوں میں بھی جگہ دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یو پی ایس سی کے کسی بھی امتحان میں ’اسلامک اسٹڈیز‘ نام کا کوئی بھی موضوع سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

یہی نہیں گزشتہ دنوں کچھ ہندوتوا فرقہ پرست تنظیموں نے یو پی ایس سی میں مسلم امیدواروں کی بڑھتی تعداد کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی اور اسے ’یو پی ایس سی جہاد‘ کا نام دیا گیا۔

اس مہم میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔ جیسے یو پی ایس سی کے امتحان میں مسلمانوں کو زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ ہندوؤں کو 6 مواقع تو مسلمانوں کے لیے مواقع ہیں، یو پی ایس سی میں ہندوؤں کی زیادہ سے زیادہ عمر 32 سال اور مسلمانوں کے لیے 35 سال ہے۔ ان سوالوں کو لے کر تو ایک چینل نے باضابطہ طور پر سیریز چلا رکھی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یو پی ایس سی کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر نہیں دیکھتا۔ اس مہم میں پھیلائی جا رہی تمام باتیں غلط تھیں اور جان بوجھ کر ایک مقصد کے تحت پھیلائی جا رہی تھیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں ملک کے اقلیتی امور کے وزیر خاموش نظر آئے۔

یہاں یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ مرکزی حکومت صرف ملک کی اقلیتوں کے لیے ہی ایسی اسکیم نہیں چلا رہی ہے بلکہ وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات سمیت مزید کئی وزارتیں ایسی ہیں جو سول سروسیز کے امتحانات کے لیے کوچنگ کراتے ہیں۔ ایسی ہی کوچنگ خواتین، ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سماج سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021