نفرت روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ کو ہر ممکن اقدام کرنے کی ضرورت: دی ہندو

برطانیہ کی طرح بھارت اقلیتوں کے لیے کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرے: ٹیلی گراف

احتشام الحق آفاقی

سیاست کے نشیب و فراز کے دور میں رشی سنک کا برطانیہ کا وزیر اعظم بننا ایک تاریخی لمحہ:امر اجالا
بے جان کانگریس میں روح پھونکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کھرگے: انڈین ایکسپریس
ملک میں ہم آہنگی کو توڑنے اور فرقہ وارانہ تصادم میں سیاسی لیڈروں کی نفرت پر مبنی تقاریر کا کافی اہم رول ہوتا ہے۔ شدت پسند ہندتوا نظریہ کے حامل لیڈرس طویل عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے ذریعہ ماحول کو کشیدہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ملک کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کے خلاف دوسرے فرقوں میں نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کو جو اقدام بہت پہلے ہی کرنا چاہیے تھا وہ اس نے اب شروع کیا ہے۔ 24 اکتوبر کے شمارے میں انگریزی روزنامہ دی ہندو نے اداریہ میں لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے پاس پولیس کو ہدایت دینے کے لیے کافی وجوہات ہیں کہ وہ کسی باضابطہ شکایت کا انتظار کیے بغیر فوری قانونی کارروائی کرتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کے لیے متحرک رہے۔ عدالت نے پولیس کو اس ہدایت کی تعمیل میں کسی کوتاہی کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا بھی انتباہ دیا ہے۔ دہلی، اتر پردیش اور اتر اکھنڈ کی پولیس کو نشانہ بنانے والا عدالت کا یہ حکم نفرت انگیز تقاریر کے لامتناہی سلسلے پر عدالت میں دائر ایک رٹ پٹیشن کے تناظر میں آیا ہے۔ عدالت نے نفرت کے بڑھتے ہوئے ماحول کو نوٹس میں لاتے ہوئے اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے قانونی دفعات ہونے کے باوجود زیادہ تر معاملات میں دکھائی گئی عدم فعالیت پر افسوس کا اظہار کیا۔ عدالت کے مطابق یہ بالکل واضح ہے کہ مرکز اور کچھ ریاستوں میں ہم خیال حکومتوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارے اور امن کی بالکل فکر نہیں ہے۔ درحقیقت ان میں سے کچھ ملی بھگت سے یا جان بوجھ کر یا پھر اکثریتی عناصر کو نام نہاد مذہبی اجتماعات میں اشتعال انگیز تقریریں کرنے کی اجازت دے کر ماحول کو خراب کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی مداخلت ضروری ہو گئی ہے کیونکہ بہت سے مذہبی لیڈر متنازعہ ریمارکس دینے کے بعد آسانی سے فرار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تبصرے یہاں تک کہ نسل کشی پر ابھارنے والے ہیں۔ اس پس منظر میں عدالت نے تمام مذاہب اور سماجی گروہوں کے درمیان سیکولرازم اور بھائی چارے کی آئینی اقدار کا خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ سال کے آخر میں ہریدوار میں منعقد ہونے والے ایک مذہبی کنونشن سے متعلق ہے، جس کی سماعت عدالت اب کر رہی ہے۔ ہندو تہواروں میں یہ ایک پریشان کن رجحان ابھرا ہے، مذہبی جلوسوں کا رواج بن گیا ہے۔ اکثر یہ جلوس اشتعال تقریروں سے شروع ہو کر جھڑپوں میں بدل کر ختم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تصادم سے نمٹنے کے نام پر حکام نے بغیر کسی قانونی عمل کے اس طرح کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے مکانات کو مسمار کرنے کا سہارا لیا ہے۔ اس طرح کی پیش رفت نے اقلیتوں کے خلاف پابندیوں کی نئی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر اجتماعی دعاؤں کے انعقاد اور ہندو تقریبات میں دراندازی کی مبینہ سازش کے سلسلے میں پولیس کی غلط تفتیش کے نئے الزامات وغیرہ۔ کچھ ٹیلی ویژن چینلز اپنے کام کرنے کے طریقے میں مسلسل تعصب کو بڑھا رہے ہیں۔ ایک طرف انتظامی تعصب اور دوسری طرف سماجی تعصب کو قومی مزاج کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس سمت میں، عدالت کو نفرت پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔‘‘
بھارتی نژاد رشی سنک کو برطانیہ کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ رشی سنک کے وزیر اعظم مقرر ہونے کے بعد بھارتی میڈیا نے انہیں ہندوتوا کی فتح کے طور پر پیش کیا۔ اب دیکھنا ہو گا کہ ہند نژاد رشی سنک برطانیہ کو لاحق چیلنجز سے نکالنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ 1947ء میں تقسیم ملک سے قبل ہی رشی سنک کے اہل خانہ پاکستان کے گجرانوالہ سے کینیا چلے گئے تھے اس کے باوجود ایک بڑا طبقہ انہیں ہند نژاد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ٹیلی گراف نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’رشی سنک کا برطانیہ میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز ہونا اس ملک کی سیاسی اشرافیہ میں نسلی تنوع میں حیرت انگیز اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ لندن کے میئر صادق خان مسلمان ہیں۔ مسٹر سنک خود ایک باعمل ہندو ہیں، جو برسر عام مندروں کا دورہ کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم لزٹرس کی حکومت میں زیادہ تر اعلیٰ کابینہ کے عہدے رنگ برنگے لوگوں کے پاس تھے، جن میں سے اکثر خواتین تھیں۔ اس کے برعکس بھارتی سیاست تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس پارلیمنٹ کا ایک بھی مسلمان رکن نہیں ہے اور یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی مسلمان یا عیسائی بھارتی ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے اور جبکہ مسٹر سنک اپنے بھارتی ورثے کو فخر سے پیش کرتے ہیں، یہ برطانیہ کے لوگ ہیں جن کے لیے وہ جواب دہ ہیں۔ توقع ہے کہ وہ برطانیہ کے رہنما کے طور پر استحکام پر زور دیں گے اور بھارت اور برطانیہ کے دیگر دوستوں کو راحت فراہم کریں گے۔ دو طرفہ تجارتی معاہدہ، جسے محترمہ ٹرس کی مختصر صدارت میں ہچکولے بازی کا سامنا کرنا پڑا دوبارہ بحال ہو سکتا ہے۔ لیکن قیاس سے بالاتر رشی سنک کا بھارتی نژاد ہونا ان کی کسی پالیسی پر اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ان کا عروج کوئی بھارتی کامیابی کی کہانی نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو یہ اس بات کی یاد دہانی ہے جو ہندوستان میں اب ممکن نہیں ہے۔‘‘
اس تناظر میں امر اجالا نے اپنے اداریہ میں لکھا ’’برطانوی سیاست کے نشیب و فراز کے دور میں ہند نژاد رشی سنک کا وزیر اعظم مقرر ہونا ایک تاریخی لمحہ ہے کیونکہ وہ ایک ایسے ملک کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوئے ہیں جس نے ہندوستان کو دو سو سال تک اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ رشی سنک کے خاندان برسوں پہلے افریقہ چلے گئے تھے اور خود رشی سنک کی پیدائش بھی 1980 میں برطانیہ میں ہوئی ہے لیکن انہوں نے خود کو باعمل ہندو کے طور پر پیش کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ ان کا دیوالی کے موقع پر کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے 24 اکتوبرکو نیا لیڈر منتخب کیا جب بھارت میں دیوالی کا تہوار تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا رہا تھا جس سے ہندوستان میں یقینی طور پر اس کا مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔
ہند نژاد رشی سنک کے برطانوی وزیر اعظم مقرر ہونے پر انگریزی روزنامہ دی ہندو نے اپنے 27 اکتوبر کے شمارہ میں لکھا کہ ’’ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی بہت سی جمہوریتوں میں نسلی قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کی اکثریتی جماعتیں مضبوط ہو رہی ہیں، سفید فام آبادی اور عیسائی اکثریت والے برطانیہ میں وزارت عظمیٰ ہندو رشی سنک کو سونپی گئی ہے۔ علامتی اہمیت برطانیہ کے پہلے سیاہ فام وزیر اعظم کے طور پر ان کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ کنزرویٹو ارکان پارلیمنٹ اب ملک اور پارٹی کو مشکلات سے بچانے کے لیے نسلی اور مذہبی تقسیم کو عبور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی جیت کا جشن ملک کے بعض طبقات نے بڑے جوش و خروش سے منایا۔ یہ لوگ بھارتی نژاد شخص کی حکمرانی کو ملک پر ایک تاریخی واقعہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے ہندوستان کو نوآبادیات بنایا تھا۔ لیکن اگر ہم موجودہ دور کی تلخ حقیقت کی سطح پر اس علامتی حکمرانی کی طاقت کو دیکھیں تو یہ محدود نظر آتی ہے۔ درحقیقت وہ جن حالات میں پیدا ہوئے، وہی حالات رشی سنک کے لیے ایک تنبیہ کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔‘‘ دی ہندو نے مزید لکھا کہ ’’دوسری جانب روس یوکرین جنگ جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں، ایسی صورتحال میں توانائی بحران اور مہنگائی روکنے کا دباؤ برقرار رہے گا۔ اس لیے مسٹر سنک کو متوازن انداز اپناتے ہوئے مارکیٹ کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ مہنگائی سے پریشان عوام کو ریلیف دینا ہو گا اور ترقی کے لیے بڑی اصلاحات کے دروازے کھولنے ہوں گے۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن مسٹر سنک اب نئے سرے سے شروعات کر سکتے ہیں۔ مہاجرین اور ماضی کی قابل فخر برطانوی سلطنت کے معاملے پر سخت موقف اختیار کرنے والی سویلا بریورمین کو دوبارہ مقرر کر کے مسٹر سنک نے ملا جلا اشارہ دیا ہے۔ محترمہ بریورمین کو لِز ٹرس نے ہوم سکریٹری کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ اس طرح کے غیر مستحکم سیاسی اور معاشی ماحول میں، انہیں اپنی غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کے لیے ہمت پیدا کرنی چاہیے، اگر وہ اپنے پیشروؤں کی طرح اسی انجام کا شکار نہ ہوں۔‘‘
بالآخر ملکارجن کھرگے نے کانگریس پارٹی کی کمان سنبھال لی ہے۔ ان کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے میں وہ کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کھرگے کو کانگریس میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے اور وہ کانگریسیوں کے مزاج سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ 28 اگست کے شمارے میں ٹیلی گراف نے اداریہ میں ملکارجن کھرگے کے کانگریس پارٹی کے کمان سنبھالنے پر لکھا کہ: ’’مسٹر کھرگے بلاشبہ ایک بالکل مختلف سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ کانگریس کے کچھ نہ بدلنے والے شرمناک ورثے کے وارث ہیں۔ ان کا بنیادی کام کانگریس کے عوام کے ساتھ تعلق کو بحال کرنا ہو گا جو کم ہو چکا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ پارٹی کا ایک ویژن اور حساسیت پیش کرنے میں ناکامی ہے جو ہندوستان کی بدلتی ہوئی آبادی اور سیاست سے مطابقت رکھتا ہے۔ ایک نئی کانگریس پالیسی اور پروگرام کے لحاظ سے اس لیے وقت کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اس کا مطلب ان اصولوں کو ختم کرنا نہیں ہے جو کانگریس کی توثیق شدہ اقدار کو جمہوریت کے بنیادی نظریاتی سانچے کا مترادف بناتے ہیں۔ مسٹر کھرگے کے لیے اتنا ہی بڑا چیلنج منقسم ایوان ہو گا جو کہ کانگریس ہے۔ سرایت شدہ دھڑے بندی نے پارٹی کو انحراف کے ذریعے ریاستوں میں حکومتیںکھونے پر مجبور کیا ہے، جس سے اس کی عوامی حمایت میں مزید کمی آئی ہے۔ پارٹی کے سب سے قد آور لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرنے کی مسٹر کھرگے کی صلاحیت کے بارے میں پہلے ہی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن مسٹر کھرگے کی ترقی مسٹر گاندھی کے فائدے کے لیے کام کر سکتی ہے، جس سے وہ عوامی تحریک کے اقدامات میں مشغول ہو جائیں گے، اور صدر کو تنظیمی سانچے کو مضبوط کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ صدر کے طور پر مسٹر گاندھی کا ریکارڈ بالکل قابل رشک نہیں تھا۔ کانگریس میں صدارتی تخت کی منتقلی کو ایک اہم تبدیلی کے طور پر سراہا جا رہا ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ تبدیلی بامعنی اور اجتماعی ہے یا نہیں۔‘‘
ٹائمس آف انڈیا نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’کھرگے کانگریس پارٹی کے کمان سنبھالنے کے بعد پارٹی میں کچھ روح پھونکنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ابھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ تاہم 2023ء میں 9 ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ممکنہ طور پر جموں و کشمیر بھی ہو سکتے ہیں، اور یہاں کی کچھ فتوحات کھرگے کو پورے پانچ سال کی مدت کے لیے آکسیجن فراہم کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد 2024ء کے لوک سبھا انتخابات بھی ہیں۔ اگرچہ بی جے پی نے 150 سیٹوں کی نشان دہی کی ہے جن پر جیتنا اس کے لیے مشکل ہے اور وہ وہاں اپنی توانائیاں مرکوز کر رہی ہے، لیکن کانگریس کے پاس پورے ملک کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کافی کچھ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی جس طرح کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے وہیں کانگریس کی کوئی متعینہ منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ کھرگے کو بھی منصوبہ بندی اور حکمت عملی میں مشغول ہونا پڑے گا۔ کانگریس میں حقیقی طاقت کے ساتھ وفاداروں کو تنظیم میں جگہ دی جائے، باوجود اس کے کہ ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی کامیابی حاصل نہ ہو۔ لیکن صدارتی انتخابات کا انعقاد اور راہل گاندھی کا ہندوستان میں پیدل 1000 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ لیکن کیا یہ پیدل مارچ ووٹوں میں تبدیل ہو جائے گا خاص طور پر ہندی ریاستوں میں؟ یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022